جمہوریت مشرق سے کیوں نہ طلوع ہوئی؟


\"adnanبرادر فرنود عالم نے کیا ہی دل دہلا دینے والی تحریر لکھ ڈالی ہے کہ \’جمہوریت مغرب سے کیوں طلوع ہوئی؟\’۔ بخدا جیسے جیسے ہم لفظوں کے اس ساحر کو پڑھتے گئے، مایوسی کے عالم میں ہمارا دل ڈوبتا چلا گیا۔ ہمارا علم تاریخ کچھ واجبی سا ہی ہے، اس لئے بعض جگہ پر فرنود صاحب کی تاریخ سے غیر متفق ہونا پڑا ہے، لیکن بہرحال یہی بات سمجھ میں آئی ہے کہ پچھلے چودہ سو سال سے مشرق کی ساری توجہ قتل و غارت پر مرکوز رہی تھی، اس لئے ہم وہ عمرانی معاہدہ نہ دے پائے جس کا تقاضا ایک نئی دنیا کر رہی تھی۔

جہاں تک قتل و غارت کی بات ہے، تو بخدا مغربی ہم سے کہیں آگے رہے ہیں۔ یہودیت کی تاریخ میں تو ہم نہیں جاتے ہیں، لیکن جب چوتھی صدی عیسوی میں رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم نے مسیحیت کی سرکاری سرپرستی شروع کی تو مذہب کے نام پر قتل و غارت کا جو کھیل شروع ہوا، وہ بمشکل انیسویں صدی میں جا کر قابو آیا۔

لیکن پہلے ہم سیاسی قتل و غارت کو دیکھتے ہیں۔ بادشاہی میں رومی اور بازنطینی شہنشاہیت کو مثال کے طور پر لے لیتے ہیں۔ اختصار کی خاطر اس چیز کو نظرانداز کرتے ہیں کون کتنے بھائی بندوں کو مار کر اقتدار میں آیا، لیکن پہلی صدی عیسوی سے لے کر پندرہویں صدی تک تقریباً پندرہ سو سال میں، پچپن رومی بادشاہوں کو تخت پر قدرتی موت نصیب ہوئی جبکہ چھہتر کا معاملہ مختلف رہا۔ ترتالیس کو قتل کیا گیا۔ تینتیس کو تخت سے اتار کر اندھا یا معذور کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر کو ان کے اپنے فوجیوں اور سرداروں نے ہی آنجہانی کر دیا، کچھ کو عوام نے زندہ جلا دیا، کچھ کو قائل کر لیا گیا کہ ان کو اس دنیا کی بجائے ابدی دنیا پر حکمرانی کرنا زیبا دیتا ہے اور وہ راہب بن کر بعد ازاں پراسرار موت کا شکار ہوئے۔ جبکہ مشرقی حکمرانوں میں ایسی قتل و غارت نسبتاً کم رہی۔ وہ عام طور پر تخت کے دوسرے دعویداروں کو مار کر تو حکمران بنتے رہے، لیکن عموماً خود قدرتی موت کا شکار ہونے کے ہی قائل رہے۔

رومی شہنشاہ تھیوڈوسیس وہ پہلا رومی بادشاہ تھا جس نے عیسائیت کو رومی سلطنت کا سرکاری مذہب بنایا اور وہ آخری بادشاہ تھا جس نے متحدہ رومی سلطنت پر حکومت کی۔ اس کے بعد سلطنت مشرقی اور مغربی حصوں میں بٹ گئی۔ مغربی رومی سلطنت کا چار سو چھہتر عیسوی میں خاتمہ ہوا۔ خاتمے سے پہلے ہی مذہبی شدت پسندی جگہ بنا چکی تھی اور مذہبی بنیادوں پر فسادات شروع ہو چکے تھے۔ بادشاہت کے کمزور ہوتے ہی رومی چرچ نے ایسا عروج پایا کہ وہ یورپی بادشاہوں سے بھی طاقتور بن گیا۔ پیشوائیت کے بادشاہت سے زیادہ طاقتور ہونے کے اس دور کو یورپ کا تاریک زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس کا خاتمہ یورپی نشاط ثانیہ سے ہوا۔

اس دور میں چرچ کے موقف کے خلاف بات کرنے پر عام آدمی سے لے کر بادشاہ تک کو جان سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے تھے۔ ہم میں سے بیشتر کو تو صرف مسلمانوں کے خلاف ہونے والی صلیبی جنگوں کا حال معلوم ہے، لیکن یہ صلیبی جنگیں عیسائی فرقوں کے درمیان بھی لڑی گئی تھیں۔ پھر سپین میں مسلمانوں کی شکست کے بعد چرچ کی وحشیانہ بربریت کا دور شروع ہوا۔ سپینش انکویزیشن، یعنی بازپرس کے اس دور میں کسی پر بھی دین کی مخالفت کا الزام لگا کر اسے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اس کا ایمان سیدھا کیا جاتا تھا۔ ایمان سیدھا کرنے کے لئے تشدد کرنے والی پیچیدہ مشینری ایجاد کی گئی۔ کسی بھی عورت پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگا کر اسے مارا جا سکتا تھا۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چالیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ افراد تک ساحری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارے گئے۔

ساحری کی تصدیق کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ پانی کا امتحان تھا۔ ملزم ساحر یا ساحرہ کو کرسی سے باندھ کر دریا میں ڈالا جاتا تھا۔ اگر وہ ڈوب کر انتقال فرما جاتے تھے تو انہیں معصوم قرار دے دیا جاتا تھا۔ اگر وہ پانی کی سطح پر تیرنے لگتت تھت، تو اس نابکار جادوگر یا جادوگرنی کو باہر نکال کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں عاشقوں کے دل توڑنے والی بہت سی ساحرائیں اس انجام سے دوچار ہوئیں۔

یورپ میں جنگیں بھی مشرق سے کم نہیں ہوئیں۔ فرانسیسی، سپینی، جرمن، پرشین، روسی، ہاپس برگ، برطانوی، سب ہی ایک دوسرے کو مارنے کوٹنے کے قائل تھے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان ہونے والی ایک سو سولہ سال طویل ایک جنگ تو مشہور ترین ہے۔ یورپ میں بادشاہی کا عمومی خاتمہ بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی ممکن ہوا۔

کہنے کا مقصد یہ کہ اگر آپ بادشاہوں میں غارت گری کو مشرق سے جمہوریت کے نہ پھوٹنے کا سبب جانتے ہیں، تو پھر یہ مغرب میں کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ اگر جنگوں کو سبب جانتے ہیں، تو یہ یورپ میں بھی بہت ہوئی تھیں۔ بلکہ یورپ کی حالت مشرق سے بہت بدتر تھی کہ وہاں بے شمار عوام کو بھی مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

سو بظاہر حکمرانوں کی قتل و غارت گری کا جمہوریت کی نمو سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مشرق نہلا تھا تو مغرب کا دہلا اس سے ہرگز بھی کم نہیں نکلا۔ دونوں ایک دوجے سے بڑھ کر ثابت ہوتے رہے ہیں۔

ہاں فرق ایک اور چیز میں ہے۔ سوچ میں۔ مغرب میں فلسفی معاشرے میں اٹھ گئے تھے، مشرق میں انہیں دبا دیا گیا تھا۔ جیسے جیسے پاپائیت مغرب میں کمزور پڑتی گئی، مشرق میں وہ طاقت پکڑتی گئی۔ بارہویں صدی کے ابن رشد اور چودہویں صدی کے ابن خلدون کو جمہوریت اور جدید معاشرت کے بانیوں میں سے سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ان کی فکر امام غزالی کی فکر کے سامنے مات کھا گئی۔ ابن رشد کو مغرب میں سیکولر سوچ کا بانی کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کو اپنے ملک میں ملائیت کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونا پڑا۔ اور ابن خلدون وہ شخص تھا جو آج سے چھے سو سال پہلے پیش گوئی کر گیا تھا کہ اچھے منتظم تاجروں کی دولت ، امیر بادشاہوں کی دولت کو آخر کار پیچھے چھوڑ جائے گی۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں، بہت سی ریاستوں سے بھی زیادہ کماتی ہیں۔

مغرب میں چرچ کا زور ٹوٹتا رہا اور مشرق میں ملائیت کا زور بڑھتا رہا۔ علم کو صرف دینی تعلیم ہی سمجھ لیا گیا۔ تاریخ میں ہمیشہ سے ہی طاقت ور بادشاہ مذہب کو اپنے اقتدار کو طاقت بخشنے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ آج بھی کسی سعودی شیخ سے پوچھ لیں، وہ یہی بتائے گا کہ جمہوریت حرام ہے اور ملوکیت عین اسلام ہے۔ ورنہ اگر بادشاہ اور درباری ملا سے ہٹ کر سوچا جائے، تو قرآن میں بھی باہم مشورے سے معاملات طے کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہو گا کہ اسلام کی وجہ سے ہم جمہوریت اور ترقی سے دور رہے ہیں۔

جبکہ مغرب میں تیرہویں صدی کے شروع میں ہی میگنا کارٹا پر دستخط ہو گئے تھے اور پارلیمنٹ وجود میں آ گئی تھی۔ شروع میں یہ پارلیمنٹ صرف خواص پر مشتمل تھی، لیکن جلد ہی اس میں چنیدہ عوامی نمائندے بھی شامل ہونے لگے۔ جیسے جیسے وہاں چرچ پیچھے ہٹتا گیا، دنیاوی علوم کا غلبہ ہوتا گیا۔ چرچ کی کمزوری کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ چودھویں صدی میں پلیگ کی بلیک ڈیٹھ نامی وبا نے باقی طبقات کے مقابلے میں پادریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو آنجہانی کر دیا تھا۔ اور ساتھ ساتھ پروٹیسٹنٹ تحریک بھی جڑ پکڑ رہی تھی جو کہ عوام پر کیتھولک چرچ کی گرفت کم کرنے کا باعث ہوئی۔ سترہویں صدی میں ہی جب یورپ ایک طرف تیس سالہ خونریز مذہبی جنگ میں پھنسا ہوا تھا، جو کہ مسیحیت کے کیتھولک اور پروٹسنٹنٹ فرقوں کے اختلاف سے شروع ہوئی اور اسی لاکھ افراد کی جان لے کر ٹلی، تو دوسری طرف وہاں مذہبی اور بادشاہی خونریزی کے ردعمل میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے پیدا ہو رہے تھے۔

مغرب میں بنیادی تبدیلی وہاں کے فلسفی لے کر آئے۔ سترہویں صدی عیسوی کے جان لاک کے لبرل ازم کو موجودہ جمہوریت کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ فلسفی پھیلتے چلے گئے۔ عوام کے حقوق کے لئے بولنے والے پیدا ہوتے چلے گئے۔ بادشاہ کی خدائی ختم ہوتی چلی گئی اور جمہوریت آتی چلی گئی۔

مشرق میں عوام کے لئے بولنے والا عالم نہ تب تھا اور نہ اب ہے۔ ہمیں مختلف ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے ہی لگایا جاتا ہے۔ افراد کے حقوق کی بات کرنے کی بجائے ہمیں دور دراز کی زمینوں کے مسائل پر غور و فکر میں ہی مشغول رکھا جاتا ہے۔ اسی لئے نہ تو ہمیں یہ پتہ ہے کہ جمہوریت کیا ہے، اور نہ ہی ہمیں اپنے جمہوری حقوق ملتے ہیں۔

سو مشرق میں جمہوریت کی کمیابی کی وجہ بادشاہی خون خرابہ نہیں ہے، بلکہ علم و فلسفے سے محرومی اس کمیابی کا باعث ہے۔ جب ہم بھی یہ مان لیں گے کہ بنیادی انسانی حقوق اہم ہیں، تو ہم بھی جمہوریت کو پا لیں گے اور حکمرانوں کی بجائے عام افراد خوشحال ہوتے اور ترقی پاتے نظر آئیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1546 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
23 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments