زمینی حقائق سے معاشی ترقی کا اندازہ کیجئے


قومی اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) جس میں اہم قومی ادارے اور اقتصادی ماہرین شامل ہوتے ہیں، نے قومی پیدوار میں چار فیصد کے لگ بھگ اضافہ کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ اندازہ تمام عالمی مالیاتی اداروں حتیٰ کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے تخمینہ سے بھی زیادہ ہے ۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی جی ڈی پی میں اضافہ کا اندازہ ڈیڑھ فیصد، عالمی بنک نے دو فیصد اور اسٹیٹ بنک نے تین فیصد لگایا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے اعداد و شمار کی روشنی میں قومی پیداوار کا نیا تخمینہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسی اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کی وجہ سے ممکن ہؤا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں اس کامیابی کا سہرا اپنی حکومت کے سر باندھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ’ہماری کامیاب معاشی پالیسی کا نتیجہ ہے‘۔ تاہم غیرسرکاری ماہرین اقتصادیات اور اپوزیشن اس حوالے سے مختلف رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ان تازہ سرکاری اعداد و شمار اور معاشی کامیابی کے بلند بانگ حکومتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمہ پر قومی پیداوار کی شرح پانچ اعشایہ آٹھ فیصد تھی۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت شروع سے اعداد وشمار کو غلط طور سے پیش کر کے اپنی معاشی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت نے پہلے ہی مالی سال میں قومی پیداوار میں اضافہ کا تخمینہ تین اعشاریہ تین فیصد لگایا تھا حالانکہ پیدوار میں حقیقی اضافہ دو فیصد سے بھی کم تھا۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کے دور میں پچاس لاکھ لوگ بیروزگار ہوئے ہیں اور دو کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں۔

متعدد اقتصادی ماہرین بھی سرکاری اعداد و شمار کے بارے میں شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کے پیر پھیر سے معاشی ترقی کے دعوے پہلے بھی کئے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بیورو کریسی کسی بھی حکومت کو خوش کرنے کے لئے اس قسم کی خدمات فراہم کرنے پر آمادہ رہتی ہے اور سیاسی لیڈر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے لئے انہیں استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں تمام شعبوں کی پیداواری صلاحیت کا سالانہ سروے نہیں کیا جاتا بلکہ بعض شعبوں میں تو دس سال سے کوئی سروے نہیں ہؤا ۔ اس صورت میں سرکاری اعداد و شمار تیار کرنے کے لئے متعلقہ شعبہ کی پیداواری صلاحیت میں سالانہ ممکنہ اضافہ کا تخمینہ لگا کر اوسط نکالی جاتی ہے اور اسے اعداد و شمار میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ طریقہ حقیقی نہیں بلکہ جعلی ہوتا ہے جس سے کسی ملک کی معاشی صحت کا درست اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔

وزرا اور حکومت کے ترجمان البتہ قومی اکاؤنٹس کمیٹی کے تازہ تخمینہ کو عمران خان کی قیادت میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کی شاندار کامیابی کے دعوے پر اصرار کررہے ہیں۔ متعدد وزرا نے ٹوئٹ پیغامات میں معاشی ترقی کے اشاریوں پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ متعدد شعبوں کی پیدا واری صلاحیت میں اضافہ ہؤا ہے اور لوگوں کی طرف سے زیادہ صرف کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہونے سے ایک طرف پیداوار میں اضافہ ہؤا ہے تو دوسری طرف معیشت میں مثبت اشارے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ مختصر مدت کے لئے وزیر خزانہ رہنے والے وزیرتوانائی حماد اظہر نے بھی اس رائے کی تائد کی ہے ۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورت حال میں ہمیں یقین ہے کہ آئیندہ سال کے دوران قومی پیداوار میں چار فیصد اضافہ کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ یہ حکومت کی محتاط معاشی حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہوگا۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ یہ اعداد و شمار قلیل المدت نہیں ہیں بلکہ معاشی ڈھانچے میں عمومی بہتری کی وجہ سے اب پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا تسلسل برقرار رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارے پاکستانی حکومت کے فراہم کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ہی اپنے تخمینے تیار کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی معاشی صحت کے بارے میں اپنے اندازے کئی ماہ پہلے تیار کئے تھے جبکہ این اے سی کا اندازہ تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر تیار ہؤا ہے اس لئے اس پر شبہ کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے۔

حماد اظہر نے معاشی ترقی کے روشن پہلوؤں پر اصرار کرتے ہوئے تین عوامل کو خاص طور سے بیان کیا ہے جو قومی پیداوار میں اضافہ کا سبب بنے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا پاکستان کی صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہؤا ہے اور برآمدات میں مسلسل بڑھ رہی ہیں جو اس سال 25 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرسکتی ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب ڈالر تک پہنچے ہیں جو گزشتہ پانچ برس میں بلندترین سطح ہے۔ اس کی وجہ ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ بھی ہے جن کی شرح دو ارب ڈالر ماہانہ تک پہنچی ہے جو سابقہ مالی سال کے مقابلہ میں 39 فیصد اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ مئی سے جولائی 2021 تک ادائیگیوں کے توازن میں 959 ملین ڈالر کا اضافہ رجسٹر کیا گیا ہے۔ حکومت اور اس کے نمائیندے نئے اعداد و شمار پر اصرار کرتے ہوئے زرعی پیداوار میں اضافہ کو بھی بنیاد بناتے ہیں ۔ موجودہ مالی سال میں اہم فصلوں کی شرح نمو 4.65 فیصد رہی ۔ گندم، چاول اور مکئی کی تاریخی پیداوار ہوئی۔ گنے کی پیداوار میں اہم اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔

ان اعداد و شمار سے قطع نظر اقتصادی ماہرین یہ واضح کرتے ہیں کہ حکومت نے قومی پیداور میں اضافہ کا تخمینہ اس اندازے پر استوار کیا ہے کہ لوگوں کی جانب سے زیادہ خرچ کیا گیا جو رواں سال سات فیصد سے زیادہ رہا۔

چیزوں کی طلب پورا کرنے کے لیے پیداوار زیادہ ہوئی۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے سوال کیا ہےکہ ایک جانب کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں سولہ فیصد اضافہ ہوا تو لوگوں نے کیسے زیادہ خرچ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے لوگوں کے خرچ کرنے کی شرح گزشتہ دس برسوں میں بلند ترین سطح پردکھائی گئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں جی ڈی پی میں پانچ فیصد کے حساب سے اضافہ ہورہا تھا لیکن اس وقت بھی لوگوں کے صرف کرنے کی صلاحیت پانچ فیصد تھی تو شرح نمو میں کمی کے زمانے میں یہ سات فیصد تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟

اس بحث میں بنیادی طور پر اس بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ ملک کے شہریوں کو معاشی اشاریوں سے نہیں بلکہ روزمرہ صورت حال سے معاشی بہتری کا اندازہ ہوتا ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے اس لئے عمومی طور سے معاشی ابتری دیکھی جاتی ہے ۔ عام لوگ بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیوں کہ کسی گھر میں بیروزگاری کی وجہ سے آمدنی کم ہوئی ہے تو کہیں مہنگائی کی وجہ سے پہلے سے محدود گھریلو بجٹ کو مزید مختصر کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ بہت سی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے صرف کھانے پینے کی اشیا کی خریداری پر زیادہ آمدنی صرف ہوجاتی ہے۔ ایسے میں علاج معالجے اور بچوں کی تعلیم جیسے اہم ترین اخراجات کے لئے پیسے نہیں بچتے۔ ملک میں جب زیادہ بڑی تعداد میں لوگ اس صورت حال کا شکار ہوں گے تو وہ معاشی ترقی کی تصدیق نہیں کرسکتے۔

وزیر توانائی حماد اظہر نے معاشی ترقی میں غیر متوقع اضافہ کے جو تین اسباب پیش کئے ہیں، وہ عبوری نوعیت کے اشارے ہیں اور انہیں وسیع معاشی تصویر سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ مثال کے طور پر زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کو مثبت پیش رفت سمجھنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ یہ وسائل کیسے فراہم ہوئے ہیں اور ان میں قلیل المدت یا وسیع المدت قرض کی صورت میں لئے گئے وسائل کی شرح کیا ہے۔ اگر سعودی عرب کی طرح کسی دوسرے قرض خواہ نے بھی اچانک اپنی رقم واپس مانگ لی تو پاکستانی معیشت اس سے کیسے نبرد آزما ہوگی اور اس کا عمومی معاشی صحت پر کیا اثر مرتب ہوگا۔ اسی طرح ترسیلات زر میں اضافہ کا کریڈٹ لینے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ اس اضافہ کی بنیادی طور سے دو وجوہات ہیں۔ ایک ایف اے ٹی ایف کے اصرار پر ہونے والی قانون سازی کی وجہ سے اب ترسیلات کی زیادہ مقدار بنکنگ ذرائع سے ہونے لگی ہے۔ یہ معیشت میں حقیقی اضافہ نہیں ہے بلکہ پہلے جو ریال اور درہم ہنڈی کے ذریعے آتے تھے اب وہ بنکوں کے ذریعے آرہے ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں روزگار کی منڈیاں ٹیکنالوجی کے استعمال اور معاشی ترجیحات میں تبدیلیوں کی وجہ سے سکڑ رہی ہیں۔ یہ صورت حال ان ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اس طرح ان ترسیلات میں اگر اس وقت اضافہ ہورہا ہے تو ان میں اچانک کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔

زرعی پیداوار میں اضافہ کو معاشی ترقی کے حوالے سے ضرور اہمیت حاصل ہے لیکن پاکستان میں یہ اضافہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی، پیداوار بڑھانے میں ٹیکنالوجی اور بہتر بیج کے استعمال یا تبدیل شدہ زرعی حکمت عملی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ موسمی حالات کی وجہ سے فصلیں اچھی یا بری ہوتی ہیں۔ اس اضافے کو ملکی معیشت کی صحت میں بہتری کا مستقل اشاریہ اسی وقت مانا جا سکے گا جب اس شعبہ میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی متعارف کروانے کا رجحان دیکھنے میں آئے گا۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ و خسارہ کا معاملہ حکومت کے وسائل صرف کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ تحریک انصاف نے ترقیاتی شعبہ کو نظر انداز کیا اور بجلی و گیس کے نرخ عالمی مالیاتی اداروں کی مرضی کے مطابق بڑھائے گئے، اس طرح کرنٹ اکاؤنٹ کو منفی سے مثبت دکھا لیا گیا۔ نئے وزیر خزانہ شوکت ترین اس پالیسی کو تبدیل کرنے اور آئی ایم ایف کی پابندیوں سے گریز کا اشارہ دے چکے ہیں۔ نئی حکومتی پالیسی سب سے پہلے کرنٹ اکاؤنٹ پر ہی اثر انداز ہو گی۔

حکومت قومی پیداوار میں اضافہ کے مثبت اعداد و شمار کے ذریعے عالمی معاشی منڈیوں میں پاکستانی ریٹنگ بہتر کروانے کی خواہاں ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوسکے لیکن عالمی ادارے اور منڈیاں صرف سرکاری اعداد و شمار پر متحرک نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگوں کی قوت خرید اور معاشی وسماجی بہتری کے دیگر اشاروں کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت خوشنما اعداد و شمار کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن جب تک زمینی حقائق میں قابل ذکر تبدیلی رونما نہیں ہوگی، روزگار میں اضافہ اور لوگوں کی آمدنی و اشیائے صرف کی قیمتوں میں مناسب توازن پیدا نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک زبان خلق اسے قومی ترقی کا اشارہ سمجھنے سے انکار کرتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2774 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments