افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان پر ممکنہ اثرات


افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد بہت سے ایسے اشارے مل رہے ہیں، جیسے ہمارے خلاف ایک نئی قسم کی جنگ کی تیاری ہے، اس سلسلے میں طالبان سے بھارت کے مذاکرات کروائے گئے، اور امریکی انخلاء کے ساتھ ساتھ طالبان کی فتوحات کی ”اوور ایکسپوزڈ“ قسم کی تشہیر کروائی جا رہی ہے، صف دوئم یعنی سیکنڈ لائن کے طور پر داعش کو ”ریزرو“ میں رکھا اور مختلف علاقوں میں تشکیل اور ”ری گروپ کیا جا رہا ہے، ان پراسرار سرگرمیوں سے ہمارے ذمہ دار ادارے ضرور واقف ہوں گے، لیکن ہمیں سوات میں دہشت گردوں کی گروپنگ اور طاقت پکڑ کر تمام نظام کو یرغمال بنا لینے کی مثال بھی یاد رکھے جانے کی ضرورت ہے، کہ ان کی بتدریج تیاریاں اور اجتماع کس طرح ابتدائی مراحل میں ہماری نظروں سے اوجھل رہا، اور ان کے طاقت حاصل کر لینے کے بعد کس طرح بھاری جانی اور مالی قربانیاں اور نقصان اٹھا کر ہمیں یہ اندرونی محفوظ محل وقوع والا علاقہ“ آزاد ”کروانا پڑا تھا۔

جیسے امریکہ والے خالی کئیے جانے والے فوجی مراکز میں، طالبان کے لیے ایمونیشن، اسلحہ اور وہیکلز چھوڑ کر جا رہے ہیں، اور انخلاء کے عمل میں وہاں حکومت اور حکومتی افواج کے ساتھ کوارڈینیشن یعنی تعاون کا فقدان بالکل واضح ہے۔ اس سے کچھ شبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ باگرام میں ہزاروں ٹن فضول ترین چیزوں کو توڑ کر ناقابل استعمال کر کے سکریپ کے ڈھیروں کی شکل میں چھوڑا گیا ہے، لیکن اسلحہ۔ ایمونیشن اور فوجی وہیکلز درست حالت میں چھوڑ کر گئے ہیں، ایسا ہی دیگر کئی مقامات پر بھی ہوا ہے۔

ان واقعات اور معاملات کو طالبان کے امریکہ کے سٹریٹیجک پارٹنر بھارت کے ساتھ ہوئے مذاکرات کے تین ادوار کے ساتھ ملا کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ہماری طرف سے گومگو کی پالیسی اور قوت فیصلہ کا فقدان بھی تشویشناک حد تک واضح ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو دی جانے والی حالیہ بریفنگ میں افغانستان کے طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ رشتوں کی طرف اور اس سلسلے میں مستقبل کے خدشات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا۔ ویسے افسوس ہے کہ اکثر شعبوں میں ہم سابقہ جاسوس“ اجیت دوگل ”کے ڈاکٹرائن کے سامنے مات کھاتے دکھائی دے رہے ہیں، اور ہماری نالائقی اور نا اہلی کی انتہا یہ ہے کہ کئی شعبوں میں پہنچنے والے نقصان اور ڈیمیج کا ابھی تک ہم ادراک تک نہیں کر سکے، بلکہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ہم ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، جن کی وجہ سے دشمنوں کی سازشوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے، ہمیں تو وقت کی نزاکت کے پیش نظر آگے بڑھ کر ناراض عناصر کو گلے لگانا اور انھیں معاملات میں شامل کرنا چاہیے، جیسے قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فوراً بعد قبائلی علاقوں سے فوج نکالنے کا اعلان کر دیا تھا، اور اسی بات سے قبائلی مسلمانوں کو یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں۔

لیکن آج کی سول اور فوجی مقتدرہ میں وہ فراست اور اخلاص کا معیار کہاں سے آئے۔ ہم تو وہ ہیں جو بھارت کی خوشنودی کے لئے حافظ سعید، لکھوی اور مسعود اظہر کی قربانی تو دے دیتے ہیں لیکن چار سو بے گناہ افراد کے قاتل راو انوار کی حمایت اور سرپرستی کر کے قبائلی علاقے کے نوجوانوں میں رد عمل پیدا کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ورنہ نام نہاد مفاد کے لیے جب اتنے“ اثاثوں ”کی قربانی دی جا سکتی ہے، تو ایک راو انوار کے ساتھ بھی قانون کے مطابق سلوک ہمیں قبائلی علاقوں کے نوجوان کے دلوں میں پھیلنے والی نفرت اور مایوسی کے مستقبل میں پڑنے والے منفی اثرات سے بچا سکتا ہے۔

اسی طرح وقت جو تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے، کی نزاکت اور ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ہمیں ناراض بلوچ نوجوان کو گلے سے لگانا چاہیے، اور اخلاص کے ساتھ ان کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اور اپنے مغربی ہمسائیوں یعنی ایران اور افغانستان کے ساتھ واضح اور خلوص اور بھائی چارے پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مغربی بارڈر پر“ فول پروف ”کنٹرول قائم کرنا چاہیے، اور کسی بھی طرح ان ممالک یعنی افغانستان اور ایران کے ساتھ ڈبل گیم سے احتراز کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ ہمیں روس، وسطی ایشیا کے ممالک اور چین کے ساتھ ہر شعبے میں قریبی تعلقات قائم کرنے چاہئیں، اور اپنے ملک میں تعمیر و ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اور صنعت کاری کے لیے روس اور چین کے علاوہ ایران کو بھی شامل کرتے ہوئے قریبی اور مخلصانہ، دیرپا تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر امریکہ کے ایماء پر اپنے خلاف روز بروز تنگ ہوتے ہوئے دہشت گردی کے الزامات کے دائرے، ہماری معاشی تباہی اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اقتصادی مجبوری کا شکار کرنے والی امریکہ اور اس کی حامی مغربی طاقتوں کی ایماء ہم سے اختیار کروائی جانے والی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے، ہمارے وطن میں مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے تعینات کروائے گئے، عالمی بینک کے کارندوں کو فوری طور پر اپنی اقتصادی اور مالیاتی مشین سے نکال باہر پھینکنا چاہیے، اور اس بارے میں مضبوط پالیسی اختیار کرنی چاہیے، آخر ہمیں کہیں نہ کہیں تو جا کر رکنا ہی ہے تو کسی اندھی کھائی یا گہرے سمندر میں گرنے سے پہلے پہلے ہمیں دستیاب زمین پر اپنے قدم جما لینے چاہئیں۔

امریکہ اس کے حامی ممالک اور بھارت کے سامنے ان کی منشاء کے مطابق مسلسل پسپائی کی“ حکمت عملی ”ہمیں خدانخواستہ ایسے مقام پر پہنچا دے گی جب ہمارے بارے میں ہر فیصلہ ہمارے دشمن کریں گے، جس کی ایک جھلک ہم کشمیر میں اٹھائے جانے والے جارحانہ بھارتی اقدامات، اور ان کے جواب میں اپنے معذرت خواہانہ روئیے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ اپنے ملک کی سالمیت اور اس کے مفاد کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ملک میں بغیر کسی جلی یا مخفی مداخلت کے جمہوری نظام کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے، اور پالیسی سازی کی مکمل ذمہ داری منتخب شدہ عوام کے اصل نمائندوں پر چھوڑ دی جانی چاہیے، اگر تو کسی بیرونی طاقت کے مفاد کی تکمیل اور نگرانی ترجیع اور مقصد نہیں تو پھر یہ فیصلے کا وقت ہے، کہیں بیماری ناقابل علاج مرحلے میں نہ داخل ہو جائے، اپنے وطن کی محبت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ملک و قوم کے مفاد میں اقدامات اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments