افغانستان کے دیہات: طالبان کا قبضہ، کچھ لوگوں کے نزدیک لڑائی کا خاتمہ ہے
بہت سے افغان اس تشویش میں ہیں کہ نہ جانے طالبان کے اقتدار میں آنے سے ان کی زندگیاں کیسے متاثر ہوں گی؟ مگر دیہاتوں میں برسوں سے خونی جنگ کے محاذ پر زندگی گزارنے والوں کے لیے ملک پر طالبان کے قبضے کا مطلب اس تشدد کا خاتمہ ہے، جس نے ان کی زندگیوں میں تکلیف بھر دی تھی۔
اکثر طالبان اور حکومتی فوج کے درمیان آ جانے والے لوگوں کو اس بدلی ہوئی صورتحال میں کچھ امن کا احساس ہوا ہے۔
بی بی سی کے سکندر کرمانی نے مشرقی لوگر صوبے میں دیہی آبادی کے کچھ لوگوں سے بات کی ہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کا ان کے لیے کیا مطلب ہے۔
گذشتہ 20 برسوں کے دوران وہ اس جنگ کے محاذ پر جی رہے تھے اور اب امن آیا تو ایک قیمت کے ساتھ۔
جنگ کے آخری ہفتوں کے دوران دیہاتی علاقوں میں طالبان کی جانب سے فائرنگ کا نشانہ بننے کے بعد حکومتی فوج کی طرف سے قریبی آبادیوں میں گھر مسمار کیے جاتے رہے۔
سکول میں صفائی کے کام پر مامور نذر گل کا گھر لوگر میں ایک آرمی بیس کے قریب تھا۔ یہ اب زمین بوس ہوچکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس پیسے یا گھر نہیں۔ صرف خدا میری مدد کرسکتا ہے۔ میرے پاس اپنے چھوٹے سے خاندان کے سوا کچھ نہیں۔‘ وہ اس جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں ان کا گھر ہوا کرتا تھا۔
گل کا کہنا ہے کہ ’میں طالبان کا کوئی جنگجو نہیں۔ بس ایک سکول میں غریب ملازم ہوں۔ لیکن حکومت نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔‘
افغانستان بھر میں لوگ طالبان کی نئی حکومت کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ پورا ملک اب ان کے زیر اثر ہے اور پنجشیر پر قبضے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ تاہم قومی مزاحمتی اتحاد نے لڑائی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کابل سے لندن کا سفر، صرف 1000 افغانی میں
آپریشن سائیکلون: جب امریکہ نے افغانستان میں ’طالبان‘ کو تیار کیا
افغان صوبہ لوگر میں عمارتوں پر گولیوں کے نشان اور زیرِ زمین موجود ذخائر
مگر افغانستان میں اس جنگ سے ہزاروں عام شہریوں کی جانیں گئی ہیں اور زندہ بچنے والوں نے بھی اس کا نقصان برداشت کیا ہے۔
طالبان کا سابقہ گڑھ کہلائی جانے والے ایک مارکیٹ میں ایک شخص نے بتایا ’سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ لوگ غریب ہیں۔ خدا نے ہمیں امن دے دیا ہے اور خدا کی مرضی سے اب معیشت بہتر ہوسکے گی۔‘
اس جگہ کو حکومتی فورسز نے گرا دیا تھا۔ اسی سڑک پر دکانوں میں گولیاں حتی کہ راکٹ برسائے گئے تھے۔
ہر شخص ناامید نہیں ہے۔ ایک نوجوان شخص کا کہنا ہے کہ ’پہلے صورتحال بہت خراب تھی۔ ہم دکانوں یا بازاروں میں بھی نہیں جاسکتے تھے۔ اب ہم کہیں بھی جاسکتے ہیں اور روزگار کما سکتے ہیں۔‘
مقامی خواتین کیا سوچتی ہیں، یہ غیر واضح ہے۔ روایت پسند علاقوں میں وہ نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔
سماجی رویے اکثر مقامات پر طالبان کے رویوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔
مرکزی افغانستان کے علاقے غور میں ایک خاتون پولیس اہلکار کو مسلح افراد نے ان کے گھر کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
بانو نگار کے خاندان کے مطابق جب انھیں گولی ماری گئی تو خاندان والوں کو باندھ دیا گیا تھا۔ وہ حاملہ تھیں۔
طالبان نے خاندان کو کہا ہے کہ وہ ذمہ داران کو ڈھونڈ کر ان کا احتساب کریں گے۔
طالبان پر خاتون پولیس اہلکار کو گھر میں گھس کر قتل کرنے کا الزام
جس وقت ہم اس گاؤں میں آئے، مقامی لڑکیوں کے سکول میں چھٹی ہو چکی تھی۔
لڑکوں کے سکول میں وسائل کی کمی ہے اور یہاں بہت زیادہ طلبا جمع ہیں۔ اکثر طلبا کو کھلی جگہ پر پڑھایا جاتا ہے۔
ملک بھر میں کلاسز جاری ہیں مگر فی الحال ایسا صرف پرائمری کے طلبا کے لیے ہے۔
ایسی کئی مشکلات اب بھی منڈلا رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا طالبان ان کا حل تلاش کر پائیں گے؟ماضی میں تدریس کا عمل جھڑپوں کی وجہ سے معطل ہوجایا کرتا تھا۔
لیکن اس طرح کے گاؤں میں پُرتشدد واقعات کا خاتمہ شاید اولین ترجیح ہے۔ اور بظاہر یہ ہوچکا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).