نئے دور کے لات و منات


شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے ہر شعر میں، ہر مصرعہ میں بلکہ ہر لفظ میں ہمارے لئے سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے شاعر مشرق کے چھوڑے ہوئے اس سرمایہ سے وہ کام نہیں لیا جو لینا چاہیے تھا۔ اس وقت پاکستان اور امت مسلمہ کی ابتر حالت کو دیکھ کر لگتا ہے علامہ صاحب کو ان حالات کا ادراک تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اپنے فارسی کلام کے ایک نظم میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ( اقبال) محمود غزنوی کے مزار پر حاضر ہوئے تو محمود غزنوی سے پوچھا کہ مسلمان کس طرح اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں اور آگے بڑھ کر ترقی کر سکتے ہیں۔ تو محمود غزنوی نے جواب دیا کہ ”لات و منات کو توڑ کر ہی وہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر سکتے ہیں“ ۔

اقبال کے اس مختصر سے شعر میں ہمیں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی کس بات میں پوشیدہ ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے قومیں اپنا وقار اور مرتبہ کھو جاتے ہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک قوم اندھی، بہری بن کر محض وقت گزارتی ہے اور غیروں کی تقلید میں اپنی نجات تلاش کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر بجائے نجات ملنے کے وہ مزید مشکلات سے دوچار ہوتی ہے اور نہ صرف اپنی ساکھ، تاریخ، ثقافت، تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کھو دیتی ہے بلکہ ان سے بڑھ کر مزید یہ کہ وہ اپنے آپ کو کامیابی کی راہ پر خود کو سمجھتی ہے اور اہل دانش کی تمام تاویلیں، تاریخی حوالے، اخلاقیات کے درس کو فقط وقت کا ضیاع سمجھتی ہے۔ ایسے میں اس قوم کو راہ راست پر لانا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور گنتی کے چند اصلاح پسند لوگ بھی شدید مایوسی اور ذہنی کوفت کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔

؂ بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

لات و منات مختلف شکلوں میں ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ہمارا راستہ روک رہی ہے۔ ہم نے ترقی، خوشحالی، باعزت جینے کے لئے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں رسوائی اور بربادی کے سوا کچھ بھی ہاتھ آنے والا نہیں۔ ترقی، خوشحالی، عزت و وقار اور مہذب معاشرہ بننے کے لئے ہم نے جو پیمانے بنا رکھے ہیں وہ خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ محض ایک دھوکہ اور فریب ہے کہ اپنے آپ کو دے رہے ہیں۔ اقبال کے ”حرم کعبہ نیا بت بھی نئے“ کی راہ اپنائے ہم کہاں جا رہے ہیں خدا ہی ہمارا حافظ ہو۔

محمود غزنوی کے بتائے ہوئے لات و منات کون سے ہیں اور کن مختلف شکلوں میں ہمارے اندر موجود ہیں انہیں سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ وہی لات و منات ہے جو ہمیں قومی زبان سے دور کر رہی ہیں اردو زبان سے لگاؤ اور اسے سینے سے لگانے کی بجائے انگریزی زبان کو ترقی اور خوشحالی کی علامت سمجھے ہیں۔ یہ وہی لات و منات ہے جس کی وجہ سے ہم ٹائی کوٹ پہننے والے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں جبکہ شلوار قمیض پہننے والا اور اپنی قومی زبان میں بات کرنے والے کو کم نظروں سے دیکھنے پر ہمیں مجبور کر رہی ہے۔

یہ وہی لات و منات ہے جو ہمیں اس وطن کے لئے کچھ کرنے کی بجائے اپنی ذاتی بینک بیلنس اور جائیدادیں بنانے پر مائل کر رہا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان سے سب کچھ لینے کے لئے کیا کچھ نہیں کر رہے لیکن اس دھرتی کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں۔ سیاسی پنڈت گویا صرف سیاست کرنے، اقتدار کے مزے اڑانے پاکستان میں موجود ہیں ورنہ اقتدار ختم ہوتے ہی امریکہ برطانیہ کا رخ کر جاتے ہیں۔ اسی لات و منات کی وجہ سے حکمران طبقہ، اہل اقتدار، طاقت ور مافیا خود کو ہر قانون اور ضابطے سے خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے اور اپنی دولت بڑھانے، اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ لات و منات ہی ہے جو کہیں مذہبی پارٹی کے نام پر سیاست کرنے والے عوام کو مذہب کے نام پر بے وقوف بناتے ہیں تو کہیں قوم پرستی کے نام پر عوام کو ماموں بنایا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اپنی لات و منات کے ہاتھوں مجبور اور محصور ہے اور کرنا وہی ہے جو اس کی ذات کے لئے سود مند ہو۔

لات و منات اب مختلف شکلوں میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں کبھی پیسے کی شکل میں، تو کبھی قومیت کے شکل میں، کہیں اپنی انا کی شکل میں، تو کہیں جاہلیت کی شکل میں۔ مختلف فرقوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں ہم۔ غیروں کی تقلید کے پیچھے خوار و زار ہو رہے ہیں، انگریزی تعلیم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہماری تاریخ، ہماری ثقافت، ہماری روایات اب معدوم ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ مغربی کلچر زور پکڑنے جا رہی ہے جس کے سہولت کار ہم خود ہی بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا حلیہ، ہماری لباس، ہماری رسمیں، ہمارا لائف سٹائل غرض کچھ بھی اپنا نہیں۔

؂ وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments