لپیوٹا کے دلچسپ باشندوں کی کہانی


ممتاز طنز نگار جوناتھن سوئفٹ کا لکھا ہوا گلیورز ٹریولز دنیا کا مشہور ناول ہے۔ ممکن ہے کہ اس کا اردو ترجمہ ”بونے اور دیو“ کے نام سے آپ نے اپنے بچپن میں پڑھ رکھا ہو۔ گلیور اپنے پہلے بحری سفر میں للی پٹ نامی ایک ایسی سرزمین میں جا پہنچا تھا جہاں کے باشندے اس کی چھنگلی کے برابر تھے اور وہ ایک دیو تھا۔ اپنے دوسرے سفر میں وہ ایک ایسی سرزمین میں جا پہنچا تھا جہاں کے باشندے دیو تھے اور وہ خود ان کی چھنگلی کے برابر بونا تھا۔ لیکن بچوں کی کہانی گلیور کے تیسرے اور چوتھے سفر کا حال بیان نہیں کرتی جو برائے بالغاں ہے۔

گلیورز ٹریولز کو ایک ایسی کتاب سمجھا جاتا ہے جو بچوں کے لیے تفریح اور بڑوں کے لیے طنز سے لطف اندوز ہونے اور سوچنے کا مواد فراہم کرتی ہے۔ اس کا تیسرا سفر ایک ایسی سرزمین کے بارے میں ہے جسے لپیوٹا کہا جاتا تھا۔ یہ ایک اڑتا ہوا جزیرہ تھا۔

اس جزیرے کے باشندے نہ تو دیو تھے اور نہ ہی بونے، بلکہ وہ ریاضی، فلکیات اور موسیقی کے ماہرین تھے۔ ان کی ایک ہمہ وقت آنکھ آسمان کو تکتی رہتی اور دوسری ٹیڑھی نگاہ سے نیچے دیکھتی۔ ان کا سر سیدھا نہ ہوتا بلکہ دائیں یا بائیں طرف جھکا رہتا۔

وہ یا تو بادشاہ کے درباری تھے یا پھر درباریوں کے ملازمین۔ ہر درباری کے ساتھ کئی ملازم ہوتے جن کے ہاتھوں میں ایک چھوٹے سے ڈنڈے کے سرے سے بندھی پھولی ہوئی تھیلی ہوتی۔ تھیلی میں خشک دانے یا چھوٹے چھوٹے کنکر بھرے ہوتے۔ ان تھیلیوں سے وہ اپنے ارد گرد موجود معززین کے منہ اور کانوں پر تھپڑ رسید کرتے رہتے۔

وجہ یہ تھی کہ لپیوٹا کے باشندے افلاک کی سیر اور حساب کتاب لگانے میں اس قدر مگن ہوتے کہ انہیں ہوش ہی نہ رہتا کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ نہ وہ بول سکتے، نہ ہی وہ سمجھ پاتے کہ محفل میں موجود لوگ کیا کہہ رہے ہیں، بس اپنی ہی دھن میں مگن رہتے۔ دوسروں کی بات سننے اور ارد گرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے انہیں آنکھ، کان اور منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے ملازم درکار ہوتا اور تھپڑ کھا کر وہ متوجہ ہوتے۔

ملازم کا کام یہ ہوتا کہ جب دو چار درباری اکٹھے ہوتے تو جس شخص کی بولنے کی باری ہوتی، اس کے منہ پر تھیلی سے ضرب لگائی جاتی اور باقیوں کے داہنے کان کے اوپر ایک ایک ضرب رسید کی جاتی تاکہ وہ سن سکیں۔ چلنے کے دوران درباری کا ملازم اس کی آنکھ پر ضرب لگا کر دیکھنے کی طرف مائل کرتا کیونکہ وہ اپنی خیالی دنیا میں مگن ہونے کے باعث کسی بھی دیوار، کھمبے یا دیگر لوگوں سے ٹکرا جاتا، یا ٹھوکر کھا کر گر جاتا، رستہ بھول کر کہیں کا کہیں نکل جاتا یا کسی کت خانے میں جا گھستا۔

گلیور کو بادشاہ کے دربار میں لے جایا گیا۔ راستے میں لے جانے والے درباری بار بار بھول جاتے کہ وہ کیا کر رہے تھے اور گلیور تن تنہا کھڑا رہتا، حتیٰ کہ ان کی یادداشت کو ان کا ملازم تھپڑ مار کر واپس لاتا۔ دربار میں بادشاہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے سامنے پڑی بڑی سی میز پر موجود بیضوی گیندوں اور دیگر ریاضیاتی شکلوں پر مشتمل چیزوں میں کھویا ہوا تھا اور کوئی مسئلہ حل کر رہا تھا۔ آخر کچھ دیر بعد ملازمین نے یہ دیکھا کہ وہ کچھ مطمئن سا دکھائی دے رہا ہے تو ایک ملازم نے اس کے منہ پر اپنی تھیلی سے تھپڑ مارا اور دوسرے نے کان پر، اور یوں بادشاہ گلیور کی طرف متوجہ ہوا۔

بادشاہ نے گلیور سے کسی انجانی زبان میں کچھ الفاظ کہے اور فوراً ہی تھپڑ مارنے پر مامور ملازم گلیور کی طرف بڑھا اور اس کے کان پر ایک جمائی کہ میاں اپنا کان کھول کر سنو کہ بادشاہ سلامت کیا فرما رہے ہیں۔ گلیور نے اشاروں سے اسے بمشکل منع کیا۔ بعد میں گلیور کو پتہ چلا کہ تھپڑ کھانے سے انکاری ہونے کے سبب بادشاہ اور درباریوں کی رائے اس کے بارے میں بہت خراب ہو گئی تھی اور وہ اسے احمق سمجھنے لگے تھے۔

لپیوٹا کے لوگ ریاضی اور جیومیٹری کے ماہر تھے مگر اس کے عملی استعمال کو باعث شرم اور گناہ جانتے تھے۔ ایک طرف تو ان کا درزی بھی کپڑوں کا ناپ فیتے سے لینے کی بجائے پرکاروں اور جیومیٹری کے دیگر آلات سے لیتا تھا، لیکن دوسری طرف ان کے گھر کا کوئی کونا بھی نوے درجے کا نہ ہوتا اور ٹیڑھے میڑھے گھر بنے ہوتے۔ لیکن خیر، درزی بھی جو لباس بناتے وہ بے ڈھنگے ہی ہوتے کہ ہمیشہ ہی حساب کی غلطی ہو جاتی۔

گلیور بتاتا ہے کہ لپیوٹا کے باشندے کاغذ قلم اور ریاضی میں تو جینئیس تھے لیکن عام زندگی کی سوچ اور اعمال میں ان سے زیادہ سست، مخبوط الحواس، کنفیوز، بدسلیقہ اور ناخوش لوگ اس نے کہیں نہیں دیکھے۔ ان کی سوچ نہایت غیر منطقی تھی، وہ مخالفت اور اپوزیشن کرنے کے جنون کی حد تک شائق تھے، اور صرف اس وقت مخالفت کرنے سے انکاری ہوتے تھے جب ان کی اپنی پوزیشن درست ہو لیکن ایسی پوزیشن شاذ ہی دیکھنے آتی۔

تخیل، تصور اور ایجاد کی دنیا ان کے لیے اجنبی تھی۔ ان کی زبان مناسب انداز میں ان کے خیالات اور نظریات کو ظاہر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ ان کے تمام خیالات اور سوچ ریاضی اور موسیقی سے آگے چلنے سے قاصر تھے۔

یہ لوگ ہمیشہ ناخوش رہتے تھے۔ وہ ایک منٹ کا دماغی سکون بھی نہیں پاتے تھے۔ اور اپنی اس بے سکونی سے وہ ہمہ وقت دوسروں کا سکون غارت کیا کرتے تھے۔

ان کی مستقل ناخوشی کا سبب فلکیات کی حرکات سے زمینی امور تک کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ مثلاً وہ سوچتے کہ سورج روز اتنی زیادہ توانائی خارج کر رہا ہے مگر اسے خود کہیں سے کوئی غذا نہیں مل رہی، تو ان کے حساب کتاب کے مطابق ایک دن سورج کی روشنی ختم ہو جائے گی اور سورج مر جائے گا۔ اس کا نتیجہ زمین اور تمام دیگر سیاروں کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

ہر وقت وہ ایسے ہی خطرات کے بارے میں سوچتے اور ٹینشن میں رہتے۔ نہ تو وہ سکون کی نیند سو پاتے اور نہ ہی زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتے۔ جب وہ صبح گھر سے نکلتے اور کسی واقف سے ملتے تو جو پہلا سوال وہ پوچھتے وہ سورج کی صحت کے بارے میں ہوتا۔ سورج طلوع ہوتے وقت کیسا دکھائی دے رہا تھا اور غروب کے وقت اس کی کیا حالت تھی۔ اور آج کسی شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کا کیا امکان ہے۔ ایسی سوچوں میں وہ ویسے ہی غلطاں و پریشاں رہتے جیسے وہ بچے جو بہت شوق اور اصرار سے جنوں بھوتوں کی خوفناک کہانیاں سنتے اور کپکپاتے رہتے ہیں اور پھر انہیں اتنا ڈر لگتا ہے کہ وہ سونے کے لیے بستر پر لیٹنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔

وہاں کی خواتین کے متعلق گلیور کے مشاہدات بھی دلچسپ تھے۔ وہ کہتا ہے کہ لپیوٹا کے مرد اپنی خیالی دنیا میں اس حد تک مگن رہتے کہ انہیں حقیقی دنیا کا بالکل ہوش نہ رہتا جبکہ وہاں کی خواتین نہایت دل پھینک تھیں۔ اپنی دنیا میں مگن شوہروں سے بے نیاز ہو کر وہ نہایت سہولت سے معاشقے لڑاتیں کیونکہ ان کے شوہر سامنے موجودہ ہو کر بھی اپنی خیالی دنیا میں کھوئے ہوتے۔ یہ عام ہوتا کہ بیگم صاحبہ اپنے شوہر کو کاغذ پینسل اور جیومیٹری کے آلات پکڑا کر خیالات کے سفر پر روانہ کر دیتیں اور ان کا عاشق ان کے شوہر نامدار کے سامنے ہی عشق کی پینگیں ڈالتا مگر اپنی مصروفیت میں گم شوہر اپنے سامنے عشق کی بازی چڑھتے دیکھنے یا سننے سے قاصر رہتا کیونکہ اس کا وہ ملازم وہاں سے ہٹا دیا گیا ہوتا جو اس کی آنکھوں اور کانوں پر تھپڑ مارنے کی ڈیوٹی دینے پر مامور تھا۔

معصومیت دیکھیں ہماری، ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ایسی دنیا نہ صرف واقعی وجود رکھتی ہے بلکہ ایسے لوگ بھی ہمیں دیکھنے کو ملیں گے۔ آپ یہ کتاب ضرور پڑھیں، گلیور کا تیسرا اور چوتھا سفر بہت دلچسپ ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments