نون لیگی پٹواری اور عمران خان کے پجاری


کہنے کو تو”ن لیگی” سپورٹرز پٹواری کہلاتے ہیں اور عقل سے پیدل سمجھے جاتے ہیں، پی ٹی آئی کے سپورٹرز انہیں بالکل گدھے اور توہین آمیز الفاظ اور القابات سے نوازتے ہیں۔ لیکن کبھی کسی نے سوچا کہ پی ٹی آئی سپورٹرز بھی عمران خان نامی بت کو کس حد تک پوجتے ہیں؟میں نے کئی سالوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ جتنی عقیدت دیگر سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز کو ان کے لیڈران سے ہے، پی ٹی آئی سپورٹرز کو ان سے کہیں زیادہ عمران خان سے ہے۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ شخصیت پرستی کی ہر حد پار کر چکے۔ اس کا بہت بڑا ثبوت میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا جس میں سابقہ حکومتی وزیر شہریار آفریدی المعروف (جان اللہ کو دینی ہے) فرما رہے تھے کہ میری تین بیٹیاں ہیں اور وہ عمران خان پر قربان۔ اب اس بات کو جہالت کی انتہا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے گا؟ کیا عمران خان کوئی خدائی دعویدار ہے کہ کسی شخص کی تین بیٹیاں اس پر قربان؟ کیا یہ پٹواری یا گدھے جیسے لفظ سے کہیں بڑھ کر جہالت نہیں؟
میں نے جہاں تک اندازہ کیا ہے، انکے مطابق ساری دنیا ایک طرف اور عمران خان ایک طرف، اسکی خاطر ساری دنیا سے لڑ جانے کو تیار ہیں۔ اسکی کوئی بات انہیں غلط نظر نہیں آتی اور اسکے حق میں دلائل کا انبار لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جبکہ ہم جیسے نیوٹرل کسی بھی ایک سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کرتے بلکہ حقائق کی بناء پر سب کو پرکھتے ہیں۔ مگر ان شخصیت پرستوں کو اپنے محبوب کی گلی کا کتا بھی محبوب ہی لگتا ہے۔ انہیں سرائے محل اور جاتی امراء تو نظر آتے ہیں مگر تین سو کنال یعنی ڈیڑھ مربع پر محیط عمران خان کا”چھوٹا سا گھروندہ” نظر نہیں آتا۔ تبدیلی کا نعرہ صرف اتنا ہی تبدیل ہوا کہ پہلے مہنگائی ہوتی تو وزیراعظم چور ہوتا تھا مگر عمران خان کے وزیراعظم بننے پر عوام ہے ہی اس قابل۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ اوپر والا ٹھیک ہو تو نیچے والے خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں، عمران خان کے اقتدار میں آنے سے جملہ بدل گیاکہ جب ساری عوام ہی بگڑی ہوتو اوپر والا اکیلا کیا کرے؟پہلے بقول عمران خان پرویز الہٰی پنجاب کا ڈاکو، شیخ رشید چپڑاسی تھا، مگر جب وہی لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تو ڈاکو وزارتِ اعلیٰ کے قابل ہو گیا اور چپڑاسی وزارتِ داخلہ کے قابل۔ مگر عقل کے اندھوں کو یہ باتیں کہاں نظر آتی ہیں، وہ تو عقیدتِ عمران میں عقل کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
اسی طرح ایک اور ویڈیو کلپ میں معروف اینکر کرن ناز صاحبہ فرما تی ہیں کہ سبزی والا گلی سڑی سبزی بیچتا ہے تو کیا اسے عمران خان نے ایسا کرنے کو کہا ہے،دودھ والا دودھ میں پانی ملاتا ہے تو کیا اسے عمران خان نے ایسا کرنے کو کہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو سوال یہ ہے کہ یہی فارمولہ ماضی کے حکمرانوں کیلئے نہیں تھا؟ تب کیا دودھ والے، سبزی والے کو بے ایمانی کرنے کیلئے نواز شریف، بینظیر یا زرداری کہتے تھے؟ یقیناََ وہ خود تو کسی کو نہیں کہتے تھے بلکہ جیسے بگڑی قوم پہلے بے ایمانی کرتی تھی عمران دور میں بھی ویسے ہی کرتی رہی مگر پہلے یہ کہا جاتاتھا کہ جیسا حکمران ویسے عوام مگر اب فارمولہ الٹ ہو گیا ہے کہ عوام بے ایمانی کرتی ہے تو بیچارہ عمران خان کیا کرے۔ یعنی ہر اصول اب الٹ ہو گیا کیونکہ عمران خان کو تو ہر حال فرشتہ ثابت کرنا ہے نا!
یوں تو میں نے زندگی میں کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا مگر عمران خان کی پہلی تقریر سن کر سوچا تھا کہ اگر جتنا کچھ اس نے کہاہے اس میں سے پچاس فیصد بھی عمل درآمد کرگیا تو اگلی دفعہ اسے ووٹ دوں گا۔ مگر ہوا کیا؟ پچاس تو کیا دس فیصد بھی اچیومنٹ نہ ہوئی، عوام کو کچھ بھی ڈیلیور نہ کر پایا۔ کیا اسکی کارکردگی پر سوالات نہ اٹھائے جائیں؟ اس پر کہتے ہیں وہ اکیلا کیا کرتا، اسے ٹیم نہیں اچھی ملی، مشیر نہیں اچھے ملے وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اکیلے ہی سب کچھ کرنے کے دعوے کون کرتا تھا؟ آپ غور کر لیں ہر بات میں خان صاب کی رٹ ہوتی “میں یہ کر دوں گا، میں وہ کر دوں گا” تو پھر ٹیم یا مشیروں کا کیا کام؟ خود ہی کر دیتے سب کچھ۔ یہاں ایک بات ایڈ کرتا چلوں کہ نیگیٹو، پازیٹیو آٹیٹیوڈ کو سٹڈی کریں تو “میں” نیگیٹو لوگوں کی فطرت ہوتی ہے جبکہ پازیٹو نیچر کے لوگ “ہم” کا صیغہ استعمال کرتے ہیں وغیرہ۔ تو اسی نکتہ کے تحت عمران خان کی نیچر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے مگر عمران کے پجاری کہا ں اتنی سوچ رکھتے ہیں، وہ تو ن لیگیوں کو پٹواری کہہ سکتے ہیں اپنے عقلی معیار کو بھی اتنا ہی پرکھتے ہیں جتنا عمران اینڈ ٹیم اپنی پونے چار سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔
اب ذرا عمران خان کی پونے چار سالہ کارکردگی کا جائزہ کہ عوام کو کیا ڈیلیور کر پائے کہ انہیں دوبارہ ووٹ دیا جائے؛
پچاس لاکھ میں سے کتنے گھر بناکر دیئے عوام کو؟ کروڑ میں سے کتنی نوکریاں دیں؟ کتنی مہنگائی ہوئی پونے چار سال میں؟ پولیس میں کوئی تبدیلی آئی؟ پٹوارخانے میں کوئی تبدیلی آئی؟ کوئی نئی ریفارمز آئیں؟وغیرہ وغیرہ۔ پس اگر کسی کے پاس جواب ہے تو گن کے بتا دیں کہ پرانے پاکستان اور نئے کیا کچھ تبدیل ہوا؟ اگر نہیں تو مان جائیں جیسے پہلے حکمران تھے جن سے عوام پہلے ہی تنگ تھی، عمران خان بھی ویسا ہی رہا کوئی انوکھا نہیں پایا گیا۔اس لئے جعلی عقیدت سےکو چھوڑ کر سوچیں اور رنگ ونسل فرقےسے بالاتر ہوکے کارکردگی کو معیار بنائیں ۔ امبرظفر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments