درخت انسان کے مخلص دوست ہیں


اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور دوسری مخلوقات کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جن سے سب کی حیات وابستہ ہے۔ ان نعمتوں میں خوراک، پانی، ہوا اور مختلف موسم سرفہرست ہیں۔ انسانی زندگی کا بہت سا دار و مدار درختوں سے جڑا ہوا ہے۔ درخت ہمارے ماحول کو سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت خوراک، تعمیرات، آکسیجن اور ایندھن (اگرچہ ایندھن کے لیے درختوں کی کٹائی اچھی روایت نہیں ہے لیکن مجبوری کی حالت میں درخت کاٹ کر ایندھن کے طور پر استعمال میں لایا جا سکتا ہے ) کا ذریعہ ہیں۔ نیز درختوں سے انسان کو بے شمار معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بہت سارے درختوں، پودوں اور جڑی بوٹیوں سے جان بچانے والی ادویات بنتی ہیں اور یہ درختوں کے پتے ہی ہیں جن سے کاغذ بنتا ہے۔

جب پودا اگایا جاتا ہے تو اسے تناور درخت بننے میں کئی سال اور کچھ کو تو کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ اس حساب سے پودے اور انسانوں کی نشو و نما میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے کیوں کہ انسان بھی زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل طے کر کے بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپے اور آخر کار موت کی دہلیز پار کر جاتا ہے۔ انسان اور درخت دونوں کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں دونوں مرجھا جاتے ہیں۔ انسان کو محبت، تحفظ، خوراک، لباس، پانی، تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی ہمیشہ درکار رہتی ہیں، اسی طرح درختوں کو بھی پانی، صاف ماحول، شاخ تراشی، کھاد اور مختلف آفات سے حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔

درخت کسی بھی قوم اور ملک کا بہت اہم اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ درخت نہ صرف انسان کو پھل، سبزی، پانی، چھاؤں، لکڑی اور آکسیجن دیتے ہیں بلکہ اس کرۂ ارض کے بے مثال حسن میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ درخت سیلاب سے بچاؤ، زمین کے کٹاؤ اور ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کا اہم ذریعہ ہیں۔ لہٰذا اس حسن کا تحفظ اور اس میں اضافہ حضرت انسان پر فرض ہے۔ درخت لگانا کار ثواب بھی ہے۔ درخت چاہے خودرو ہوں یا انسانوں کے لگائے ہوئے، ہر دو صورتوں میں انسانوں کے لیے قدرت کی طرف سے بہت عظیم تحفہ ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ درخت انسان کے انتہائی مخلص دوست ہیں۔

کراچی میں میری رہائش گاہ سے متصل سڑک کے کنارے ایک قطار میں مخصوص فاصلے پر مختلف درخت لگے ہوئے تھے۔ یہ جنوری کے سرد موسم کی بات ہے کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک دکان دار اپنی دکان کے سامنے والے درخت کی ساری شاخیں کاٹ رہا ہے۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا: ”سردیاں بڑھ گئی ہیں اور اس درخت کی وجہ سے میری دکان پر دھوپ نہیں پڑتی اور مجھے سردی لگتی ہے۔“ اس پر مجھے بہت افسوس ہوا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ: ”کراچی میں سردی ہی کتنی پڑتی ہے اور اس کا دورانیہ بھی کتنا مختصر ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے میں سارا سال یہ درخت تمھیں خوب صورتی کے ساتھ چھاؤں بھی تو مہیا کرتا رہتا ہے۔“ اس کے انداز سے ظاہر ہوا کہ وہ سنی ان سنی کر رہا ہے۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ وہ اس درخت کو تنے سے کاٹ رہا ہے۔ اب کی بار میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ اوپر والی شاخیں کاٹنے سے تو شاخیں دوبارہ نکل آتی ہیں اور ان شاخوں کی بڑھوتری بھی جلدی ہوجاتی ہے۔ لیکن تنے سے کاٹنے کا مطلب یہ تھا کہ اس بے چارے درخت کا قتل ہو رہا تھا۔

ایسے میں میرے اندر کا معلم جاگ اٹھا اور میں نے اسے روکتے ہوئے ایک لمبا چوڑا لیکچر دیا، مگر بے سود۔ وہ شخص نہ صرف مجھے سننے کے لیے تیار نہ تھا بلکہ بدتمیزی پہ بھی اتر آیا تھا اور کلہاڑی سے مجھ پر وار کرنے کا اشارہ بھی کر ڈالا۔ بڑی مشکل سے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے وہاں سے چلتا بنا۔ وہ دن جیسے تیسے بے چینی میں گزر گیا مگر اگلے دن کیا دیکھتا ہوں کہ کٹے ہوئے تنے کے ماندہ حصے پر مٹی کا تیل چھڑک کے اس کی آگ میں ہاتھ گرم کیے جا رہے تھے۔

اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ سرکار یا کسی نجی ادارے کے لگائے ہوئے درخت یوں کاٹ دیے جائیں اور کراچی کی ہفتہ دس دن کی 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ سردی میں ہاتھ گرم کرنے کے لیے درخت سے جدا کی گئی شاخیں اور زخمی تنا جلایا جائے۔ اسی طرح میں نے دیکھا کہ ایک ایک کر کے مختلف اوقات میں تقریباً سارے ہی درختوں کا قتل عام ہوا۔ بقول پروین شاکر:
اب کے جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

یہ دھرتی ہماری ماں ہے اور اس کے ماحول کو فرض اولین سمجھ کر ہمیں خوش گوار اور سازگار بنانا ہے۔ پائے دار ترقی کے اہداف 2030 (Sustainable Development Goals 2030 ) کے دیباچے میں عالمی راہ نماؤں نے عہد کیا ہے کہ سال 2030 تک کرۂ ارض کو کم از کم پچاس فی صد ماحولیاتی آلودگی اور آفات سے محفوظ بنائیں گے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی ملک کا کم از کم 25 فی صد رقبہ درخت اور جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، تاہم!

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک اور زراعت کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں یہ شرح صرف چار فی صد کے آس پاس ہے۔ ایک تو ہمارے ملک میں جنگلات نہ ہونے کے برابر ہیں اوپر سے جب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہوتی ہے تو یہ عالمی حدت میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔ درختوں کے ناپید ہونے سے فضا میں آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ انسانی حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ مذکورہ بالا واقعے میں وہ درخت جنھیں معمولی ٹھنڈ میں ہاتھ سینکنے کے لیے استعمال کیا گیا، ان کے نہ ہونے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھے گی جو کہ سورج سے آنے والی شعاعوں کی گرمی کو قید کرنے کے لیے کافی ہے۔ فضا میں مقید یہ ہی شعاعیں عالمی حدت اور آئے دن چلنے والی گرم لہروں کا باعث ہوتی ہیں۔ ایسے معاشرے میں بندہ کرے تو کیا کرے؟

اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں زمین کی تزئین (smart landscaping) کو فروغ دیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ گھر اور دوسری عمارتوں کی تعمیرات میں لگے ہوئے درخت کاٹنے کی بہ جائے ایسے تعمیراتی منصوبے بنائے جاتے ہیں جن میں درختوں کو لگے رہنے اور بڑھنے کے بھرپور مواقع میسر ہوں۔

یہ درخت ہی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ جتنے زیادہ درخت ہوں گے اتنے ہی بارش برسانے والے بادل پیدا ہوں گے اور گرمی کی شدت میں کمی ہوگی۔ قدرت نے ہمارے ملک کو چار الگ الگ موسموں سے نوازا ہے لیکن درختوں کی کٹائی اور نتیجتا بارش کی کمی کی وجہ سے ہم ان موسموں سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ گو کہ تحریک انصاف حکومت نے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا اہم کام شروع کیا تھا جسے عالمی سطح پر کافی پذیرائی بھی ملی تھی، لیکن دوسری طرف درختوں کی کٹائی اسی طرح زوروں پر ہے جس سے ایسی مثبت کاوشیں دم توڑتی ہیں۔

لہٰذا حکومتی ادارے، سول سوسائٹی، تعلیمی ادارے اور نمایاں شخصیات کو موسمیاتی تغیر کو روکنے کے لیے درخت لگانے، اس کے فوائد اور درخت نہ لگانے یا بے دریغ کٹائی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ سالانہ شجرکاری کا بھی اہتمام کرنا چاہیے تاکہ درختوں کی تعداد میں اضافہ ہو، جس کے سبب ماحول پر فضا، صاف ستھرا، معطر اور خوش گوار رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments