انا پرست، نکمے لوگ


پاکستان میں آن لائن ٹیکسی سروس نے بہت جلد اپنی جگہ بنا لی۔ پہلے ایک کمپنی تھی اس کی کامیابی اور مارکیٹ میں گنجائش کی وجہ سے مزید چند کمپنیاں بھی مارکیٹ میں اپنے قدم جما چکی ہیں چونکہ پاکستان میں باقاعدہ ٹیکسی سروس کا کوئی نیٹ ورک موجود نہ تھا اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی ابھی تک روزمرہ کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے لہذا ان لائن سروسز کو بہت ساری خامیوں کے باوجود عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں دیر نہیں لگی۔

آن لائن ٹیکسی سروس کے ڈرائیور ہمارے وطن عزیز کے باسی ہیں اور تقریباً سب کا ایک ہی جیسا رویہ دیکھتے ہوئے اپنے لوگوں کی اجتماعی نفسیات کا بخوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

آپ کو ان کپتان نما ڈرائیوروں میں پروفیشنلزم کی شدید کمی نظر آئے گی۔ یہ سواری اور اس کے سامان کی بجائے اپنے موبائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ انہیں کبھی بھی سواری کے آنے پر سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ کی کمی ہوگی۔ منزل مقصود پر پہنچتے ہی انہیں دوسری رائیڈ پکڑنے کی جلدی ہوگی۔ پیسے پکڑتے ہی یہ آپ سے ریٹنگ کے لئے پانچ ستاروں کی فرمائش کریں گے۔ رات گیارہ بجے سے صبح چھ بجے تک سروس بمشکل ملے گی۔

ان میں سے کچھ نے تو پیمنٹ کے سکرین شارٹ رکھے ہوتے ہیں دوران سفر اگر سواری موبائل استعمال نہ کرے تو اترتے وقت وہ سکرین شارٹ دکھا کر طے شدہ سے زیادہ پیسے بٹورنے کا فن بھی جانتے ہیں۔

ائرپورٹ کی رائیڈ کی صورت میں پارکنگ فیس رائیڈ میں شامل ہوتی ہے لیکن یہ آپ سے اس مد میں اضافی پیسے ضرور مانگیں گے۔

بسا اوقات ایک مختلف نمبر کی گاڑی سے آپ کے پاس پہنچیں گے آپ کے استفسار پر جھٹ سے بولیں گے گاڑی کا اے سی خراب تھا تو یہ لے آیا۔ شام کا وقت ہو تو ہیڈ لائٹس کی خرابی کا بہانہ۔

کچھ کو دوران رائیڈ موبائل کانوں سے لگا کر رکھنے کی عادت ہوتی ہے اور کچھ آپ کے کان کھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔

ابھی آج ہی کی بات ہے محترم گاڑی لے کر پہنچ گئے۔ دو بیگ دیکھنے کے باوجود ہمارے کہنے پر ڈگی کھولی اور سامان کی جگہ بنائی لیکن بیگز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ لیکن رائیڈ مکمل ہونے پر جب ہماری جانب سے ٹپ ملی تو ڈگی کھولنے کے بعد محترم نے بیگ خود اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر باہر رکھے جس کے لئے ہم مشکور ہیں۔

ہمارے جو دوست دیار غیر میں ہوتے ہیں وہ اکثر پاکستان انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگوں کی داستان بیان کرتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں اور پڑوسیوں میں کام کرنے کے حوالے سے خصوصاً سروسز سیکٹر میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ ہماری انا ہمیں نکما بناتی جا رہی ہے اور یہی رویہ ہمیں دور حاضر میں اقوام عالم سے پیچھے رکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments