ججوں کے احتساب پر اتفاق رائے کی ضرورت


چیف جسٹس کے سوموٹو اختیار کو محدود کرنے کے بارے میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر سماعت کرتے ہوئے، آج چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدلیہ کی آزادی کو بنیادی آئینی ضرورت قرار دیا۔ سپریم کورٹ کا 8 رکنی بنچ اس قانون پر عمل درآمد پہلے ہی معطل کرچکا ہے تاہم چیف جسٹس نے دعویٰ کیا کہ یہ عارضی حکم ہے۔

دوران سماعت انہوں نے پاکستان بار کونسل کی طرف سے فل کورٹ بنچ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ سے علیحدہ کرنے کی درخواست قبول نہیں کی۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کے لئے لڑائی لڑی ہے۔ مناسب ہو گا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بنچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بنچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر ہیں۔ تاہم چیف جسٹس نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بنچ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ اسی طرح کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بار بار عدلیہ کی آزادی کی اہمیت اجاگر کی اور قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے اس حکم پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ پارلیمنٹ کا ریکارڈ طلب کر سکتی ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی کو چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کی کارروائیوں کا ریکارڈ طلب کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججوں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی تو پبلک ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن اسے ایک مقدمہ کے دوران یوں طلب کر کے پارلیمانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے جج خواہ زندہ ہوں یا مر چکے ہوں، ان کے خلاف کارروائی کر کے طے ہونا چاہیے کہ کس نے کس وقت قانون و آئین سے بالا ہو کر قومی مفاد کو داؤ پر لگایا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سیاست دان تو خدمت کرتے ہیں، ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور ہم نے ان غلطیوں کی تلافی بھی کی ہے۔ ان پر قوم سے معافی بھی مانگی ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والا میثاق جمہوریت درحقیقت غلطیوں کا اعتراف ہی تھا۔ کیا عدلیہ نے بھی کبھی اپنا احتساب کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا کبھی ان ججوں کو کٹہرے میں لایا گیا جنہوں نے فوجی آمروں کو غیر آئینی طور سے قانونی جواز فراہم کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اب یہ حساب ہونا چاہیے۔ اب عدالت کو بتانا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں اس کا کیا کردار تھا اور یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو کیوں نا اہل کیا گیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب پارلیمنٹ کسی وزیر اعظم کو قربان کرنے کی اجازت نہیں دے گی خواہ اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔

ایک طرف وزیر دفاع خواجہ آصف سپریم کورٹ کی حدود کی بات کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے تھے کہ عدالت سیاست دانوں کا تصفیہ کروانے کے لئے پنچایت لگانے سے پہلے اپنے اختلافات دور کرنے کے لئے پنچایت لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مفاہمت کروانا ججوں کا کام نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک منظم طریقے سے عدالتی نظام کو غیر فعال کیا جا رہا ہے۔ مریم نواز نے اپنی تقریر میں چیف جسٹس کو نشانہ بنایا۔ سولہ میں سے آٹھ جج نون لیگ کے نشانے پر ہیں۔ اس کی وجہ الیکشن نہیں اور نہ ان ججوں کی ذات سے کوئی ایشو ہے۔ یہ سب ایک مقصد کے تحت ہو رہا ہے کہ نیب کیس کی سماعت کرنے والا سہ رکنی بنچ ختم ہو جائے جو چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز اور زرداری خاندان کی گردنیں اس کیس میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ نے نیب ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا اور مقدمے بحال ہو گئے تو ان کا رجیم چینج کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے لیڈروں کی طرف سے سپریم کورٹ کے بارے میں ان متضاد بیانات سے نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ کیسے اب ملکی سیاست کا محور اعلیٰ عدلیہ بن چکی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج کی سماعت کے دوران اس بات پر تاسف کا اظہار کیا تھا کہ سیاست دان عدالتوں میں مقدمات لے کر آتے ہیں اور انصاف کی بجائے اپنی مرضی کے فیصلے چاہتے ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن چیف جسٹس یہ واضح کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ موجودہ حالات میں سیاست دانوں کو عدالتوں پر تکیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کس عدالتی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ اور کس آئینی مجبوری کی وجہ سے چیف جسٹس ایک صریحاً سیاسی معاملہ یعنی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے سوال پر پر سوموٹو نوٹس لے کر حکم جاری کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ اس معاملہ پر چیف جسٹس نے خود ہی 9 رکنی بنچ بنایا تھا لیکن یکم مارچ کو انتخابات منعقد کرنے کا حکم جاری کرنے تک یہ جج کم ہو کر تین رہ گئے تھے۔ چار ججوں نے تحریری فیصلوں میں اس معاملہ پر سوموٹو نوٹس لینے کو چیف جسٹس کے اختیار سے تجاوز قرار دیا اور ہائی کورٹ کا حق سلب کرنے کے مساوی کہا تھا۔ اس کے باوجود چیف جسٹس نے اپنے ساتھی ججوں کی رائے کا احترام کرنا ضروری نہیں سمجھا اور چار کے مقابلے میں تین ججوں کے حکم کو نافذ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

اسی طرح چیف جسٹس نے سوموٹو اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو ہم خیال ججوں کے بنچ کے ذریعے اس کے نفاذ سے پہلے ہی معطل کر کے اسے عدالتی آزادی پر حملہ قرار دیا حالانکہ یہ قانون چیف جسٹس کے ایسے اختیارات پر کچھ حدود مقرر کرنے کے لئے بنا ہے جن کے استعمال کے بارے میں وکلا برادری کی طرف سے طویل عرصہ سے احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ یہ مطالبہ بھی رہا ہے کہ چیف جسٹس فل کورٹ طلب کر کے سوموٹو اختیار کے بارے میں قواعد و ضوابط طے کریں لیکن موجودہ چیف جسٹس سمیت ماضی کے کسی چیف جسٹس نے اس مطالبے پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ چیف جسٹس کا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار سینئر ترین تین ججوں کو دینے سے اعلیٰ عدلیہ کے حقوق متاثر ہوں گے یا اس کی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اور جیسے اہم آئینی امور پر بنچ بنانے اور فیصلے صادر کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، درحقیقت وہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی، خود مختاری اور آزادی کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

چیف جسٹس کو اصولی طور پر سپریم کورٹ کے تمام ججوں کے مساوی حق حاصل ہوتا ہے۔ انہیں اس عہدے کی وجہ سے کسی بھی دوسرے جج پر برتری حاصل نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے طور پر ان پر انتظامی امور کی دیکھ بھال کا اضافی بوجھ ہوتا ہے لیکن اگر وہ ان انتظامی اختیارات کو اپنی مرضی کا انصاف فراہم کرنے کے لئے استعمال کریں گے تو عدلیہ کی آزادی بھی مجروح ہوگی اور ججوں کے بارے میں شبہات بھی پیدا ہوں گے۔ اس وقت ملک میں ایسی ہی صورت حال موجود ہے۔ یہ امر بجائے خود افسوسناک ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ میں اصلاح اور ججوں کے احتساب کی بات کر رہی ہیں۔ حتی کہ خواجہ آصف نے یہ تک کہا ہے کہ رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے، اعلیٰ عدلیہ کے جج بتائیں کہ ان کی تنخواہ و مراعات کیا ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف اس تنازعہ میں سپریم کورٹ کو مکمل حمایت فراہم کر رہی ہے اور عدالتی اصلاح کی جائز ترین بات کو بھی سیاسی مفاد قرار دے کر مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ سپریم کورٹ سے اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق فیصلے حاصل کرنے کے لئے اختیار کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس اس صورت حال کو سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے خود سپریم کورٹ کو اس مشکل اور افسوسناک دوراہے تک پہنچایا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بہر حال یہ جواب دینا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ کسی اہم معاملہ میں وہ سینئر ترین ججوں کو شامل نہیں کرتے۔ کیا وجہ ہے کہ مخصوص ججوں پر مشتمل بنچ بنا کر ملکی تقدیر تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور کیا وجہ ہے کہ پاکستان بار کونسل اور حکومت کے بار بار مطالبے کے باوجود فل کورٹ بنچ بنا کر تمام متنازعہ امور کو طے کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کا دعویٰ ہے کہ بنچ بنانا ان کا اختیار ہے اور وہ ایسی کسی درخواست کو قبول یا مسترد کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس وضاحت کو حجت تو کہا جاسکتا ہے لیکن یہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کا قانونی، آئینی یا اخلاقی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس کے ایسے انتظامی اختیارات پر قدغن عائد کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن جسٹس عمر عطا بندیال اسے عدالتی آزادی پر حملہ قرار دے کر خود اپنے ذاتی اختیار کو مستحکم کرنے اور ناقابل قبول عدالتی پریکٹس کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خواجہ آصف کی عدلیہ پر تنقید کو سیاسی ضرورت ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن اس تنقید میں سامنے آنے والے بعض حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس میں نظر ثانی کے ریفرنس پر سماعت پر آمادہ نہیں ہے۔ اسی طرح ججوں کے احتساب سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیف جسٹس کی مرضی کا تابع بنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں آؤٹ آف میرٹ جج بھرتی کر کے اپنی حمایت میں اضافہ کا افسوسناک رجحان بھی نوٹ کیا جا چکا ہے۔ موجودہ حالات میں سپریم کورٹ واحد ادارہ ہے جس نے اپنے ججوں کا احتساب اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس طریقہ کو تبدیل کیا جائے۔ دنیا بھر کے جمہوری ممالک کی روایت کے مطابق ججوں کی تقرری اور احتساب کے لئے پارلیمنٹ کو زیادہ با اختیار ہونا چاہیے تاکہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی من مانی کا طرز عمل ختم ہو سکے۔ عدلیہ میں فرد واحد کی حکمرانی ملکی آئین کا مقصد نہیں ہو سکتا۔

ماضی میں ملکی عدالتوں کی طرف سے آئینی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے یا ماورائے آئین و قانون فیصلوں پر احتساب کے لئے وزرا کو محض تقریروں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اگر واقعی اصلاح احوال کی نیت کی گئی ہے تو اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے اور سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے اس پر فیصلے لینے پر اصرار بھی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ میں شفافیت کے بغیر اسے آئینی ضرورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے جج باہمی احترام و یک جہتی کے ذریعے ہی اس ادارے کو وقار عطا کر سکتے ہیں۔ اختلاف و افتراق کی موجودہ صورت حال میں یہ مقصد حاصل نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2787 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments