گل حسن کلمتی: تحقیق، تاریخ اور مزاحمت کی علامت


وہ جو تحقیق، تاریخ اور مزاحمت کی علامت تھا۔

وہ پیکر محبت تھا۔ دوستی میں جان نچھاور کرنی ولا شخص تھا۔ حقوق کی حاصلات کے لیے پہاڑ سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا تھا۔ اس کے قلم کی نوک سے تحقیق اور تاریخ کے موتی بکھرتے تھے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔

‏گل حسن کلمتی 5 جولائی 1957 ء میں گڈاپ کراچی کے چھوٹے سے گاؤں حاجی عرض کلمتی میں پیدا ہوئے۔ گل حسن کلمتی کے والد محمد خان کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ مگر بعد میں کراچی کی پرانی سبزی منڈی میں دکان خریدی اور کھولی۔ اس نے گھر چلانے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت کو بھی اہمیت دی۔ گل حسن کلمتی نے ایم اے جرنلزم میں کیا۔ کالج کے زمانے سے لکھنے کی شروعات کی اور سیاسی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ بعد میں رسول بخش بلیچو کی سیاسی تحریک کے سرگرم رکن بنے۔ اس لکے بعد مختلف تنظیموں سے وابستہ رہے۔

گل حسن کلمتی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور لکھنے پر توجہ دی۔ اس نے سندھی زبان میں لکھنا شروع کیا اور ان کی تحریریں مختلف رسالوں اور اخباروں میں شایع ہونے لگیں۔ اس کی تحریروں کے موضع مختلف تھے مگر اس کے قلم جی جنبش کا مرکز تحقیق اور تاریخ رہی۔ گل حسن کلمتی ڈرائنگ روم کے محققین اور مؤرخین میں سے نہیں تھے۔ وہ جس بھی تاریخی اثاثے پر لکھتے تھے وہیں پہنچ کر تحقیق کرتے اور لکھتے تھے۔

گل حسن کلمتی نے بہت سی کتابیں لکھیں مگر اس کی کتاب ”کراچی سندھ جی مارئی“ بہت مقبول ہوئی جو پہلے سندھی ادبی بورڈ جامشورو نے شایع کی۔ بعد میں اس نے اس کتاب کو تحقیق کے ذریعے بڑھایا۔ اور 868 صفحات پر مشتمل اس کی اس کتاب کو نؤں نیاپو اکیڈمی کراچی نے شایع کیا۔ اس کی اس ضخیم کتاب ”کراچی سندھ کی مارئی“ کا انگریزی میں ترجمہ بھی شایع کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر اسے لاتعداد ایوارڈوں سے نوازا گیا۔ ان کی تحقیق کا دائرہ کراچی اور اس کے آس پاس کا علاقہ رہا۔ اس نے ”سندھ کی بندر گاہیں“ اور، رضا علی عابدی کی دریائے سندھ کے متعلق سفر پر مشتمل کتاب کا ترجمہ ”سندھو جے سفر جی کہانی“ بھی اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔

گل حسن کلمتی نے گڈاب کراچی کے پہاڑوں میں پتھروں پر نقش نگاری کے مقام بھی دریافت کیے تھے۔ جس پر اس نے طبع آزمائی کی۔ اس نے بھنبھور سے مکران تک سسئی کے راستوں پر تحقیق کی اور سندھ سے بلوچستان کا سفر کیا۔

اس کے بعد یہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہوئے۔ بڑا عرصہ زندگی اور موت کی جنگ میں گزارا۔ مگر وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔ 17 مئی 2023 ء پر کراچی کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments