آسرا…. سفید پوشوں کا


ہم روز مرہ زندگی میں متعدد واٹس ایپ گروپوں میں ایڈ کئے جاتے ہیں۔ جو واٹس ایپ گروپ غیر متعلقہ لگتا ہے اسے فوراً  لیفٹ کر دیتے ہیں۔ تاہم بعض دفعہ ہم ایڈ کرنے والی ہستی کو بھی دیکھ لیا کرتے ہیں کہ کس نے گروپ میں شامل کیا ہے۔ ان میں سے بعض ایڈ کرنے والے افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا نام دیکھ کر ہم بوجوہ گروپ چھوڑنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بڑے نام نے مجھے گذشتہ دنوں ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ کیا۔ وہ معروف ڈرامہ رائٹر اور ادبی حلقہ میں نمایاں مقام کی حامل شخصیت ہیں۔ اس نام کی وجہ سے میں چاہتے ہوئے بھی گروپ سے خود کو خارج نہ کر پایا۔ بعد ازاں گروپ میں ہونے والے سرگرمیاں میرے نظر سے گزری، تو نہ صرف گروپ کی اہمیت کا اندازہ ہوا بلکہ گروپ نہ چھوڑنے کا اپنا فیصلہ بھی درست معلوم ہوا۔
یہ گروپ سفید پوش ادبی شخصیات کیلئے ایک “آسرا” تھا۔ جس کا بنیادی مقصد ادبی برادری کو ان کا پردہ رکھتے ہوئے معاشی کرائسز میں سہارا دینا تھا۔ معروف ڈرامہ رائٹر و شاعرہ سدرہ سحر عمران نے اپنی سماجی ترقی کیلئے متحرک دوست مومنہ وحید کے ساتھ مل کر ایک چیلنج قبول کیا۔ جب انہیں معلوم ہو اکہ ایک ان کے حلقہ احباب میں موجود ایک ادبی شخصیت قرض کا بوجھ لئے دنیا سے رخصت ہو گئی اور اس کے لواحقین کو اس قرض کی ادائیگی میں اپنی آمدن کا واحد سہارا بھی فروخت کرنا پڑ رہا ہے۔ سدرہ اور مومنہ نے ادبی و سماجی حلقوں پر مشتمل اہم افراد کو ایک واٹس ایپ گروپ میں اکٹھا کر کے ان کے ساتھ مذکورہ خاندان کی پریشانی کا اظہار کیا، جس پر تمام افراد نے اپنا اپنا کردار ادا کر کے اس خاندان کے واحد ذریعہ آمدن کو بچایا۔
سدرہ سحر عمران اور مومنہ وحید کا موقف تھا کہ “ہمارے ادیب،شاعر،فنکار اپنے اپنے فن سے “ریٹائرمنٹ” کے بعد جس اذیت،افلاس،بیماری، غربت اور گمنامی کا شکار ہوکر مرتے ہیں ہمیں اس کی خبر ہی نہیں ہوپاتی۔ یہ الگ بات ہے کہ شہرت اور پیسے کے عروج کے اوقات میں لوگوں کو اپنا مشکل وقت بھی یاد رکھنا چاہئے، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ ان کا فعل ہے۔ بوقت ضرورت ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہمارا ظرف ہے”۔
معاشرے کے مختلف ضرورت مند طبقات کیلئے تو بہت سے ادارے اور لوگ اپنی اپنی حد تک کوششیں کر رہے ہیں لیکن ادبی برادری بالکل نظر انداز ہے۔ ایک خاص وقت میں اس طبقے کو درپیش کرائسز سے نکالنے کیلئے انفرادی و اجتماعی کوششیں بہت ضروری ہیں۔ یہی سوچ لے کر سدرہ عمران اور مومنہ وحید نے سفید پوش آرٹسٹوں کا “آسرا” بن کر پہلا قدم اٹھایا ہے۔ محض گنتی کے چند گروپ ممبران کی مدد سے انہوں نے مذکورہ ادبی شخصیت کے خاندان کو لاکھوں روپے قرض کے بوجھ سے نکالا۔ مجھے ایک خاص بات یہ لگی کہ جیسے ہی مطلوبہ ٹارگٹ مکمل ہوا، مومنہ وحید اور سدرہ سحر کی جانب اعلان کیا گیا کہ گروپ ممبران مزید کوشش نہ کریں۔ وگرنہ میں نے ایسے افراد بھی دیکھے ہیں جو مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے بعد بھی لوگوں کو مزید امداد بھیجنے سے منع نہیں کرتے۔ یہی “آسرا” کی خاصیت تھی۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ادبی برادری کیلئے اس اقدام کا آغاز سدرہ سحر عمران اور مومنہ وحید نے انفرادی طور پر شروع کیا ہے اور وہ اسے انفرادی ہی رکھنے کے قائل ہیں، اسے باقاعدہ کسی این جی وغیرہ کی شکل نہیں دینا چاہتے۔
ہمارے ارد گرد کئی سفید پوش ایسے ہیں جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں کرتے بلکہ اپنی مشکل سے خود نبٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ملک کے معاشی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، یہاں سے واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں عام آدمی کے کرائسز میں اضافہ ہونا یقینی امر ہے۔ ہمیں اپنے اپنے ادبی سرکل میں بے شمار ایسے افراد ملیں گے جو حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہونے کے باوجود اپنی خود داری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریزاں ہیں۔ گذشتہ دنوں کئی دہائیاں ٹی وی سکرین پر راج کرنے والے معروف اداکار راشد محمود فالج اور دل کے عارضے کی وجہ سے مشکل حالات سے گزرے۔ نظر انداز کرنے کے حوالے سے راشد محمود کا شکوہ سوشل میڈیا پر آیا تو زمانے کو ان کے معاشی حالات کا علم ہوا۔ ذرائع ابلاغ وقتاً فوقتاً ایسی کتنی ہی کہانیاں ہمارے علم میں لاتے ہیں جن میں اپنے اپنے ادوار کی نامی گرامی شخصیات کسمپرسی سے گزر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے حالات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان میں کھیل، ادب، صحافت، شوبز میں نمایاں رہنے والے انمول ہیرے شامل ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی معاشرہ اپنے مجبور و بے کس لوگوں کو خودانحصار بنانے کی جانب توجہ دے، تو یہ اس کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ متوسط اور غریب طبقے کے ساتھ ساتھ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے سفید پوش لوگوں کی زندگی بہتر کرنے کیلئے ہر فرد کا انفرادی سطح پر کردار ہی قوم میں یکجہتی اور عروج لائے گا۔ حالات ایسے ہی تبدیل ہوتے ہیں، حقیقی تبدیلی بھی یونہی آتی ہے ……ضرورت صرف ذمہ داری محسوس کرنے کی ہے، وگرنہ احساس تو ہم خوب رکھتے ہیں۔ اس احساس کو خود میں سے مرنے مت دیں۔
میں سدرہ سحر عمران اور مومنہ وحید کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ ادبی برادری کا درد محسوس کرتے ہوئے ان کیلئے “آسرا” بنی۔ مجھے یقین ہے کہ ان دونوں نے مل کر جو ذمہ داری اٹھائی ہے، وہ اس پر ثابت قدم رہیں گی اور ہماری گمنام اور سفید پوش ادبی برادری کو حالات کے دھارے پر نہیں چھوڑیں گی، بلکہ اخلاقی و معاشی طور پر صحیح معنوں میں ان کیلئے “آسر”ا ثابت ہوں گی۔ اور اس میں درد مند دل رکھنے والی ادبی و سماجی شخصیات کا بھرپور ساتھ انہیں حاصل رہے گا۔
پلکیں ہیں بھیگی کسی کی، رخسار ہے نم کسی کا
گر ہوسکے تو مداوا، کیوں نہ کریں ہم کسی کا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments