وہ انسان ہی تھے


گزشتہ صدی میں 80 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ جنرل ضیا الحق کا نفاذ شریعت کا پروگرام پوری شد و مد سے جاری تھا۔ ہزار سال پرانے فقہی قوانین کا جب دور جدید میں اطلاق شروع ہوا تو بہت سے مسائل نے سر اٹھا لیا۔ دیگر قانونی معاملات کے علاوہ ایک اہم مسئلہ اسلام کے سیاسی نظام کا تھا۔ یہ سوال بار بار پوچھا جاتا تھا کیا جمہوریت اسلام کے مطابق ہے؟ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ داخل کی ہوئی تھی اور پانچ رکنی بنچ اس کی سماعت کر رہا تھا۔ کیکاؤس صاحب کا اصرار تھا کہ اسلامی شریعت کی رو سے جمہوریت ناجائز اور حرام ہے۔ اسلام میں صرف عادل اور متقی فرد ہی حکمران بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب بھی اس بنچ کے رکن تھے اور زیادہ تر سوالات وہی پوچھا کرتے تھے۔

 یہ سوال سب سے زیادہ زیر بحث تھا اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ عادل اور متقی شخص ہے پھر بھی اس کو حکمرانی پر کون فائز کرے گا؟ ایک موقع پر جسٹس کیکاؤس صاحب نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک بورڈ بنا دیا جائے جو عادل اور متقی حکمران کا انتخاب کرے۔ اس پرجج صاحبان نے کہا کہ ہمیں تو آپ معاف ہی رکھیں۔ اس کے بعد انھوں نے تجویز پیش کی کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات پر مشتمل ایک پینل بنا دیا جائے۔ ان کی اس تجویز پر مجھے بہت ہنسی آئی تھی کیوںکہ میں یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور وائس چانسلرز کی مبنی بر دیانت فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ جسٹس صاحب کی دونوں تجازویز یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے ہاں کس ذہنی صلاحیت کے حامل لوگ کیسے کیسے مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔

اسی زمانے میں عنایت اللہ صاحب سول سروسز اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور انھوں نےایک سٹڈی سرکل قائم کر رکھا تھا۔ اس سرکل کے ہفتہ وار اجلاس ہوا کرتے تھے۔ لاہور شہر کے سبھی مشہور اور سربرآوردہ دانش وروں نے اسلام کے سیاسی نظام کے متعلق اپنا موقف بیان کیا۔ بعد میں اس پر سوالات اور بحث ہوتی تھی۔ اس مجلس کےایک رکن ایک مشہور عالم دین بھی تھے۔ جب ان کی باری آئی تو دو تین نشستوں میں انھوں نے اسلام کے سیاسی نظام کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ اس دوران میں ان کے سامنے عربی کی ایک کتاب رکھی ہوتی تھی۔ وہ بار بار اس کتاب کو اٹھاتے اور یہ کہتے کہ ہمارے ہاں لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کے سیاسی نظام پر کوئی کام نہیں ہوا۔ یہ کتاب مصر کے انیس علما نے مرتب کی ہے اور اس میں اسلام کے سیاسی نظام کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

ان عالم دین صاحب کا انداز گفتگو کچھ ایسا گنجلک ہوتا تھا کہ سامع کے لیے یہ سمجھنا بہت مشکل ہوتا تھا کہ وہ کیا موقف بیان کر رہے ہیں۔ تین نشستوں میں ان کی گفتگو سننے کے بعد سامعین تذبذب میں تھے کہ مولانا صاحب نے جو نظام بیان کیا ہے اس کا سر پیر کیا ہے۔ سوالات کے سیشن کا آغاز کرتے ہوئے عنایت اللہ صاحب نے استفسار کیا: مولانا صاحب! جو نقطہ نظر آپ نے بیان کیا ہے کیا مصر کے ان انیس علما کا بھی یہی موقف ہے؟ مولانا صاحب نے بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ ان کی طبیعت پچھلے دنوں کچھ خراب رہی ہے اس لیے انھیں ابھی تک اس کتاب کا مطالعہ کر نے کا موقع نہیں مل سکا۔ یہ جواب اس قدر غیر متوقع تھا کہ تمام مجلس پر ایک سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص حیرت زدہ تھا کہ تین ہفتے تک وہ کیا سنتا رہا ہے۔ اس کے بعد کسی کو مزید کوئی سوال پوچھنے کی ہمت نہ پڑی اور محفل برخواست ہو گئی۔

میرے عزیز دوست ابو شعیب چودھری صفدر علی مرحوم بھی اس محفل میں موجود تھے۔ کچھ برس بعد وہ بسلسلہ ملازمت سرگودھا چلے گئے جہاں وہ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے تھے۔ چودھری صاحب ایک بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ بہت خوش گفتار اور بذلہ سنج بھی تھے۔ ایک دن لاہور تشریف لائے تو دوران ملاقات انھوں نے اپنی ایک پریشانی کا ذکر کیا۔ کہنے لگے کہ یہ واقعہ ان کی موجودگی میں ہوا، لیکن جب وہ سرگودھا کالج میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تو وہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ایک جید اور مستند عالم دین ایسی حرکت کس طرح کر سکتا ہے۔

میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ چودھری صاحب یہ بات سن کر آپ کا اصول درایت میری نظروں میں مشکوک ہو گیا ہے۔ قدرے حیران ہو کر کہنے لگے کہ وہ کس طرح؟ میں نے عرض کیا کہ انسان کے بارے میں یہ حکم لگانا ممکن ہی نہیں کہ وہ کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ انسان خواہ صدراول کے ہوں یا کسی اور دور کے، بہر حال بندہ بشر ہی ہوتے ہیں۔ اگر ہم عقیدت کی عینک لگا کر ان کی زندگیوں کا مطالعہ کریں گے تو بہت سے تاریخی حقائق مسخ ہو کر رہ جائیں گے۔ درست تاریخی تناظر کے لیے لازم ہے کہ انسانوں کو انسان سمجھ کر ہی ان کے حالات و معاملات کو سمجھنے اور بیان کرنے کی سعی کی جائے۔

 تاریخ کو بالعموم بڑے انسانوں کی سرگزشت تک محدود رکھا گیا ہے۔ لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ تاریخ نگاروں نے اپنے ذاتی یا قومی مقاصد کی خاطر قاتلوں اور مجرموں کو ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ انسانی معاشروں نے بہتری کی طرف سفر اسی وقت شروع کیا ہے جب انھوں نے لیڈر کے تصور سے نجات حاصل کی۔ افراد کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے بجائے عام آدمی کو خود اپنا رہنما بننا پڑے گا۔ جب عام انسانوں نے امانت، دیانت اور صداقت کے اصولوں کو زندگی کا شعار بنایا تو ان معاشروں میں فرد کی زندگی غیر مطلوب زنجیروں سے آزادی حاصل کرتی چلی گئی۔ جن کو تاریخ میں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ عام آدمی ہی کی طرح گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں، ان میں بھی ویسی ہی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ گوئٹے نے جب پلوٹارک کی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا تو یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ سب بھی انسان ہی تھے۔

And what was the lesson he did impart?

They were all human beings₋₋so much is plain.

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments