یہ صحافت نہیں، سنسنی خیزی ہے


پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کتنے مقدمات ہیں جنہوں نے قومی، سیاسی اور سماجی دھارے کا رخ بدل دیا اور کس سمت میں؟ جواب ہے ہمارا قومی، سیاسی اور سماجی زمانۂ حال۔ ان مقدمات کے فیصلے عدالتی نظائر کی تاریخ مرتب کرتے ہیں اور عدالتی کاروائی کی تفصیلات، منصفین کے تبصرے، سوالات، نکات اور بالآخر فیصلہ؛ان کی گونج کبھی ختم نہیں ہوتی، ہمیشہ سنی جا سکتی ہے بلکہ پیچھا بھی کرتی ہے۔

زمانہ ء حال میں ایک اہم مقدمہ عدالت عظمیٰ کی وسیع مسند سماعت کر رہی ہے۔ مدعیان میں ایک معتوب سیاست دان عمران خان، ایک مشہور قانون دان اعتزاز احسن اور ایک معروف وکیل و سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ ہیں۔ عدالتی اسلوب کا امتیازی وصف اس کا دو ٹوک ہونا ہے۔ لیکن جب کسی مقدمے کی خبریں اور ان خبروں کی سرخیاں بنتی ہیں تو یہاں سے کردار شروع ہوتا ہے اس ادارے کا جو جمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ ملکوں کی سیاسی تاریخ نے انہیں اسٹیک ہولڈر کا کردار ادا کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یہ عدالتی، سیاسی اور سماجی تاریخ اپنی اصل میں تہذیب کے سفر اور ارتقا کی داستان الف لیلہ ہے۔

عدالتی کارروائی کے تفصیلی متن میں سے منصف اعلیٰ و دیگر منصفین کا کون سا سوال یا تبصرہ شہ سرخی کے نمایاں الفاظ میں شائع ہو گا، کون سا بالائی و ذیلی سرخی بنے گا، ڈیک میں کیا ہو گا؟ ان سب کا تعلق اگر ایک طرف خبری قدروں سے ہے تو دوسری طرف اخبار کی حکمت عملی (پالیسی) سے اور سب سے اہم جہت کہ اگر اخبار خود کو سماج کا نمائندہ اور عوام کے حقوق کا ترجمان سمجھتا ہے۔ وگرنہ اخبار ات میں چھپنے والی شہ سرخیاں سنسنی خیزی سے بڑھ کر دہشت پھیلا سکتی ہیں اور وہ یہ کرتی ہیں۔

زیر موضوع مقدمے کی عدالتی کارروائی کی ایک دن کی سماعت کی اگلے دن چھپنے والی شہ سرخیاں و بینر لائن ملاحظہ کریں۔ مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر راقم نے بھی اپنے تبصرے اور نکات شامل کیے ہیں۔ مندرجہ ذیل پاکستان سے شائع ہونے والے اردو اخبارات کی سرخیاں 24 جو ن2023ء کی ہیں۔ ان سرخیوں کی ترتیب موضوعاتی ترکیب ہے۔

1۔ اگر کوئی قومی سلامتی کے خلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوج ٹرائل نہیں کر سکتی، چیف جسٹس (بینر لائن، روزنامہ جنگ)

خبر کی ابتدائی تفصیل میں۔ ”سویلینز کو فوجی عدالتوں میں لانے کا طریقہ کار دیکھنا ہو گا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

2۔ قومی سلامتی کے خلاف کوئی سازش کرے تو نہیں کہا جا سکتا فوج ٹرائل نہیں کر سکتی، چیف جسٹس (بینر لائن، روزنامہ ایکسپریس)

خبر کی ابتدائی تفصیل میں : لیکن طریقہ کار کیا ہو گا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ بھجوائے جائیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

3۔ قومی سلامتی کے خلاف سازش ہو تو فوج سویلین کا ٹرائل کر سکتی ہے، چیف جسٹس (شہ سرخی، روزنامہ جسارت)

9 مئی کے واقعات میں ملوث 102 افراد فوج کی حراست میں ہیں، کوئی خاتون شامل نہیں، اٹارنی جنرل (بالائی سرخی)

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ جسٹس عمر عطاء (تیسری ذیلی سرخی)

خبر کی انتہائی تفصیل میں : ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقۂ کار ہو گا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ بھجوائے جائیں گے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

منصف اعلیٰ کا وہ تبصرہ جو مساوی اہمیت کا حامل نکتہ تھا اس نے مندرجہ بالا تینوں اخبارات کی سرخیوں میں نہیں بلکہ خبر کی ابتدائی یا انتہائی تفصیل میں جگہ پائی کہ۔ ”طریقہ کار دیکھنا ہو گا“۔ یہی وہ نکتہ ہے جس میں گرفتار شہریوں اور ان کے گھر والوں کے لیے ہی سکون کا سانس نہیں ہے بلکہ یہ منصفانہ عدالتی نظام اور شہریوں کے بنیادی حقوق میں سماجی توازن کا عندیہ دیتا ہے۔ عدالتی نظام طبقاتی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ ”عدلیہ“ جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ مقننہ میں پہنچنے والے کو گنتی ضروری ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے جس کا منصب گننا نہیں تولنا ہے۔

مندرجہ ذیل سرخی دیکھیں :
4۔ مخصوص حالات میں آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ممکن، سپریم کورٹ (شہ سرخی، روزنامہ نوائے وقت)
قومی سلامتی کا معاملہ فوج براہ راست دیکھتی ہے (ابتدائی ڈیک)
قومی سلامتی کے خلاف کوئی سازش کرے تو یہ نہیں کہہ سکتے فوجی عدالت ٹرائل نہیں کرے گی (ذیلی سرخی)

خبر کی انتہائی تفصیل میں :خصوصی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں لانے کا کیا طریقۂ کار اپنایا گیا یہ دیکھنا ہو گا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

یہاں ’قومی سلامتی‘ کی جگہ الفاظ ’مخصوص حالات‘ ہیں اور ’چیف جسٹس‘ کی جگہ ’سپریم کورٹ‘ لکھا گیا ہے۔ ذیلی سرخی کی زبان کی باریکی توجہ طلب ہے ’یہ نہیں کہہ سکتے کہ فوجی عدالت ٹرائل نہیں کرے گی‘۔ ابلاغیات کے ایک نظریے ”ایجنڈا سیٹنگ“ کی یہ ذیلی سرخی آواز ہے تو ابلاغیات کے دوسرے نظریے ”سماجی ذمہ داری کا نظریہ“ کو یہ سرخی روند رہی ہے۔ شہریوں کی امید اس اخبار میں انتہائی تفصیل میں اپنی جگہ بنا سکی۔ حالاں کہ ”طریقۂ کار کا دیکھا جانا“ وہ نکتہ ہے جو مساوی نہیں بلکہ مساوی سے بڑھ کر قدر رکھتا ہے کیوں کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا ہی مقدمہ نہیں ہے بلکہ یہ اعلیٰ عدلیہ کے دائرۂ کار اور فوجی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں توازن کا مقدمہ بھی ہے۔

امت کی شہ سرخی کیا شعلہ بیانی ہے!
5۔ فوجی عدالت میں سویلین ٹرائل پر اعتراض مسترد (شہ سرخی، روزنامہ امت)

فوجی کو بغاوت پر اکسانے پر سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست کیوں نہیں دی گئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال (ذیلی سرخی)

ذیلی سرخی کا دوسرا جملہ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ اٹارنی جنرل سے سوال نہیں کر رہے بلکہ کسی اسکول کا ہیڈ ماسٹر چھٹی کی درخواست جمع نہ کرانے پر شاگرد سے استفسار و سرزنش نہیں کر رہا بلکہ گوشمالی کر رہا ہے۔ یہ سرخی منصف اعلیٰ کے غیر جانب دارانہ کردار کو مشکوک بنا رہی ہے، کیا یہ چیف جسٹس کی خواہش ہے؟

یہ زبان سیاہ پروپیگنڈا اور نفسیاتی جنگ جیسے ابلاغی نظریات کی باز گشت ہے۔

6۔ یہ کہنا درست نہیں کسی بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا ، چیف جسٹس (بینر لائن، روزنامہ پاکستان)

کوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکسائے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، جسٹس عمر عطاء بندیال (ذیلی سرخی)

روزنامہ نوائے وقت، امت اور پاکستان کی شہ سرخیوں کی زبان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان تینوں اخبارات کی پالیسی یکساں خطوط پر استوار ہے۔

مندرجہ ذیل سرخی کی نوعیت پر دھیان دیں :
7۔ قومی سلامتی معاملات آرمی کے تحت آتے ہیں، چیف جسٹس (بینر لائن روزنامہ آج )
روزنامہ آج نے فیصلہ دے دیا۔

8۔ قومی سلامتی کے خلاف سازش پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ، چیف جسٹس (روزنامہ 92 نیوز، صفحہ اول اوپری نصف دائیں طرف چار کالمی )

102 افراد فوج کی تحویل میں، اٹارنی جنرل
9۔ کوئی سویلین بغاوت پر اکسائے تو فوجی عدالت میں ٹرائل ممکن، چیف جسٹس (شہ سرخی، روزنامہ دنیا)
دیکھنا ہے کس بنیاد پر مقدمات ملٹری کورٹ بھیجے (ذیلی سرخی)
10۔ سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس (شہ سرخی، روزنامہ نئی بات )
ملکی سلامتی براہ راست فوج کے ماتحت (ڈیک)

9مئی واقعات، 6 ہزار سے زائد زیر حراست، پنجاب حکومت، 102 افراد فوج کے پاس، اٹارنی جنرل، 172 جوڈیشل تحویل، 70 بری ہو گئے، رپورٹ سپریم کورٹ جمع (بالائی سرخی)

ایسے کون سے حالات ہیں کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو، جسٹس عائشہ (ذیلی سرخی)
سول ٹرائل چل رہا تو فوج اس شخص کی حوالگی کا کیسے فیصلہ کر لیتی، جسٹس منصور (ذیلی سرخی دوسری سطر)
11۔ سویلیئنز کا آرمی ایکٹ سے ٹرائل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس (شہ سرخی، روزنامہ اساس)
سپریم کورٹ میں سویلیئنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت (ڈیک)

سیکرٹ ایکٹ لگانے کے لئے کوئی انکوائری یا انوسٹی گیشن تو ہونی چاہیے، یہ کہنا درست نہیں کہ سویلینز کا آرمی ایکٹ سے ٹرائل نہیں ہو سکتا ، اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال (ذیلی سرخی، دوسری سطر)

مندرجہ بالا روزناموں 92 نیوز، دنیا، نئی بات اور اساس کی شہ سرخیوں میں ”ہو سکتا“ اور ”ممکن“ کے الفاظ ہیں۔ ہو سکتا اور ممکن مطلب ”امکان“۔ امکان کی دنیا بہت وسیع ہے اور قانونی موشگافیاں اور باریکیاں کہ فل اسٹاپ اور کومہ بھی معنی رکھتا ہے۔

9۔ فوجی عدالتیں، قبل از عید فیصلہ کا عندیہ (شہ سرخی، روزنامہ اوصاف)

قومی سلامتی معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، یہ کہنا صحیح نہیں کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، چیف جسٹس (ڈیک)

اوصاف ڈیک کی زبان میں لفظ ’ہی‘ لگا کر ہاں اور نہیں کے مساوی امکانات میں اپنا وزن ’نہیں‘ میں ڈال رہا ہے۔ یہ مقتدرانہ نظریہ ابلاغ کی باقیات ہیں۔

ان ہی شہ سرخیوں میں ایک شہ سرخی سامنے آتی ہے۔ ہم معروضیت و موضوعیت میں نہ کسی ایک کے شیدائی ہوسکتے ہیں نہ کسی ایک سے بیر رکھ سکتے ہیں۔ صحافتی زبان کو بے لاگ، غیر جانب دارانہ اور دوستانہ ہونا چاہیے۔ یہ روزنامہ خبریں کی شہ سرخی ہے :

4۔ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل، طریقہ کار طے کرنا ہو گا، چیف جسٹس (شہ سرخی، روزنامہ خبریں )

فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت پیر تک ملتوی (بالائی سطر)

اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، ایسی صورتحال میں دونوں کے درمیان تفریق نہیں کی جا سکتی، عمر عطاء بندیال (ذیلی سرخی)

منصف اعلیٰ کے تبصرے کا جو حصہ دیگر اخبارات کی تفصیل میں بھی لے گئے تھے یعنی ”طریقہ کار“ اس کو اخبار نے شہ سرخی میں جگہ دی ہے، لفظ ’ٹرائل‘ کے بعد کومہ ہے، جیسے مقدمے کا موضوع بتایا گیا ہے۔ ’طریقہ کار طے کرنا ہو گا‘۔ مطلب کتنی جہتیں اور پہلو ہیں جو ابھی طے ہونا باقی ہیں اور ان کو طے کرنے کے لیے کتنی سماعتیں ہوں گی اور دو طرفہ دلائل سنے جائیں گے۔

بالائی سرخی بھی دیکھیں ’فوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر آئینی درخواستوں کی سماعت پیر تک ملتوی‘۔ لفظ ’کالعدم‘ کسی اخبار نے اپنی سرخیوں میں استعمال نہیں کیا۔

روزنامہ خبریں کی شہ سرخی انفرادی، سنجیدہ، پیشہ ورانہ اور عوام دوست صحافت کا شہ کار ہے۔ سماجی ذمہ دارانہ نظریہ ء ابلاغ کا عملی اظہاریہ۔

منصف اعلیٰ نے جس شاعر کا زبان زد خاص و عام مصرعے کا حوالہ عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت دیا کہ ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ وہی قید و بند جھیلنے والا شاعر یہ بھی کہہ گیا ہے کہ ’ہم دیکھیں گے‘۔ رہے نام اللہ کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments