سلیم صافی صاحب کا پروگرام: کیا مظلوم گونگے ہیں؟


جڑانوالہ کا سانحہ ہوا اور بیس سے زیادہ گرجا گھر جلا دیے گئے تو گویا پاکستان میں سب کی آنکھوں سے پردے اٹھ گئے۔ جس کو دیکھو وہ مذہبی آہنگی کو فروغ دینے کے لئے کوشاں نظر آ رہا ہے۔ جس کو سنو وہ اس سانحہ پر اپنے دلی دکھ کا اظہار اس طریق پر کر رہا ہے کہ واقعی رونا آتا ہے۔ اور تو اور وہ میڈیا بھی جو کہ مین سٹریم میڈیا کہلاتا ہے اور جسے اس مسئلہ پر کبھی دو حرف کہنے کی توفیق نہیں ہوتی تھی، اب اظہار تشویش کر رہا ہے۔

ایک دو روز قبل جیو نیوز پر سلیم صافی صاحب کا پروگرام ’جرگہ‘ سنا۔ یہ پروگرام جڑانوالہ کے سانحہ پر تھا۔ اور موضوع یہ تھا کہ کیا اقدامات کیے جائیں کہ ایسے واقعات کا سلسلہ رک جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی اکیلا واقعہ نہیں ہوا۔ بد قسمتی سے کئی دہائیوں سے ایسے واقعات پاکستان میں ہو رہے ہیں اور ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے کہ یہ منحوس سلسلہ اب ختم ہو جائے گا۔

لیکن یہ سلسلہ کس طرح رک سکتا ہے؟ ملاحظہ فرمائیں کہ سلیم صافی کے اس پروگرام میں صرف علماء کو مدعو کیا گیا تھا۔ کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھائیں کہ کس طرح یہ سلسلہ رک سکتا ہے؟ سلیم صافی صاحب بہت تجربہ کار صحافی ہیں۔ کیا انہوں نے اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی کہ جن مسالک و مذاہب سے وابستہ افراد کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی عبادت گاہوں اور گھروں اور دیگر املاک پر حملے کر انہیں نقصان پہنچایا جاتا ہے، ان کے کسی نمائندے کو مدعو کر کے یہ سوال کیا جاتا کہ انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ آخر ان پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ رک کیوں نہیں رہا؟

اس پروگرام میں پاکستان کی ہندو برادری کے کسی نمائندہ کو نہیں بلایا گیا کہ وہ یہ بتائیں کہ ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سلیم صافی صاحب نے مسیحی برادری کے کسی صاحب کو مدعو نہیں کیا کہ وہ اپنے پر ہونے والے مظالم کی تفصیلات بیان کریں۔ اور یہ توقع عبث تھی کہ سلیم صافی صاحب کسی احمدی کو اظہار خیال کے لئے دعوت دیتے کہ وہ بیان کریں کہ کس طرح ہر چند روز بعد احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملہ ہوتا ہے، اس کے بعد ان ہی کے خلاف مقدمات قائم کر دیے جاتے ہیں۔

اس پروگرام کے آغاز میں قبلہ ایاز صاحب نے برملا اعتراف کیا کہ اصل میں کسی پلاٹ یا دکان یا شراب کے کاروبار پر جھگڑا ہوتا ہے اور اس کا بدلہ چکانے کے لئے توہین مذہب اور توہین قرآن جیسے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس پروگرام میں شریک ہونے والے کچھ علماء نے اس بات پر اظہار تشویش کیا کہ صرف یہی مسئلہ نہیں ہے کہ مسیحی افراد کے گھروں اور گرجا گھروں کو جلایا گیا ہے بلکہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ جب توہین قرآن یا توہین مذہب جیسے واقعات ہوتے ہیں تو نظام حرکت میں نہیں آتا اور لوگوں میں اشتعال پھیلتا ہے اور اس قسم کے واقعات کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگوں پر اس قسم کے الزامات لگائے گئے اور انہیں کئی برس قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، پھر آخر کار کسی اعلیٰ عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دے کر رہا کر دیا۔ لیکن کیا اس سے ان کی زندگی کے ضائع ہونے والے سال واپس آ گئے؟

اسی پروگرام میں طاہر اشرفی صاحب بھی شامل ہوئے انہوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ اس قسم کے مجرمانہ واقعات سے ان کا دین اور ان کا وطن بدنام ہو رہا ہے۔ اور کہا کہ میں کہاں جاؤں کس کے آگے فریاد کروں؟ اس کا جواب تو بہت آسان تھا۔ خود طاہر اشرفی صاحب کے بھائی حسن معاویہ صاحب نے توہین مذہب جیسے الزامات پر مبنی بہت سے مقدمات درج کروائے ہیں۔ طاہر اشرفی صاحب کم از کم ان کے آگے ہی یہ اظہار کر لیتے۔

طاہر اشرفی صاحب کے بعد سلیم صافی نے تحریک لبیک خیبر پختون خوا کہ صدر شفیق امینی صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ کم از کم میں سلیم صافی صاحب کی معصومیت سے بہت متاثر ہوا کیونکہ انہوں نے تحریک لبیک کے لیڈر ہی سے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں ایسا واقعہ کیوں ہو جاتا ہے؟ حیرت ہے کہ سلیم صافی صاحب جیسے جہاندیدہ صحافی کو اب تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ تحریک لبیک ہی اس قسم کے واقعات کو انگیخت کرتی رہی ہے۔ بہرحال شفیق امینی صاحب نے بھی نہلے پر دہلا مارا اور سننے والوں کو یہ خوش خبری سنائی کہ پاکستان اقلیتوں کے لئے سب سے محفوظ ملک ہے۔ اور یہاں کی اقلیت خوش نصیب ہے۔ اور اگر پاکستان میں اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تو اس پر بھرپور طریق پر آواز اٹھتی ہے جبکہ بھارت میں مسیحی برادری کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔

یہ تبصرہ سن کر سمجھ میں نہیں آتی کہ شفیق امینی صاحب کس پاکستان کی بات کر رہے تھے اور اس بندہ عاجز نے اپنی زندگی کس پاکستان میں گزاری ہے؟ اس کے جواب میں سلیم صافی صاحب صرف یہ کہہ پائے کہ ہمارے لئے پڑوسی ملک تو نمونہ نہیں بلکہ ہمارے لئے تو رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس نمونہ ہے۔ لیکن اس قسم کے دلائل امینی صاحب پر کوئی اثر نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے صافی صاحب کو پروگرام میں ایک وقفہ کرنا پڑا۔ مناسب ہوتا اگر وہ وقفہ کرنے کی بجائے امینی صاحب کو تحریک لبیک کی تاریخ یاد کراتے۔ اس پروگرام میں یہ بات بھی سننے میں آئی کہ اس واقعہ کی جامع تحقیقات ہونی ضروری ہیں۔ شاید سلیم صافی صاحب کو بھی یاد ہو کہ جب نواز شریف صاحب کے دور میں تحریک لبیک نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تو سپریم کورٹ نے ان واقعات کا از خود نوٹس لے کر تحقیقات کی تھیں۔ ان تحقیقات کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے جو فیصلہ تحریر کیا تھا۔ اس کے چند اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

” آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کی عظمت کو بدنام کیا جائے۔ جب ایک ہجوم بظاہر اسلام کے نام پر گالی گلوچ کرتا ہے، دھمکیاں دیتا ہے اور تشدد پر اتر آتا ہے تو وہ یہی کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقی مومن اس عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کیا جا رہا ہے۔ اور ان مسلمانوں کی آواز کو جو اخلاق اور آداب کی رعایت رکھتے ہیں دبایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے بدترین بدگوئی اور تشدد کو اسلام اور مسلمانوں کا نمایندہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اور یہ طرز عمل رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے سراسر خلاف ہے۔“ (عدالتی فیصلہ صفحہ 37)

اسی عدالتی فیصلہ میں تحریک لبیک کے دھرنے کے بارے میں یہ تبصرے کیے گئے۔

گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہوئے اور حملے کرتے ہوئے یہ لوگ دوسروں کے ’باوقار‘ زندگی گزارنے کے حق کو بھی مجروح کرتے ہیں [اس کی ضمانت آئین کی شق 14 ( 1 ) میں دی گئی ہے ] جو کہ نافذ کیے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ (صفحہ 10) اور اس سیاسی جماعت کا رویہ ایسا تھا کہ جو بھی ایسا رویہ اپنائے گا وہ بغاوت کا مرتکب ہو گا۔ جس کی سزا عمر قید ہے۔ (عدالتی فیصلہ صفحہ 22)

میری عاجزانہ رائے میں اگر اس قسم کے پروگرام کرنے ہیں تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو ان کا نکتہ نظر سنا جائے جن کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے مظلوم گونگے بہر حال نہیں ہیں۔ جڑانوالہ کے واقعات پر جامع تحقیق تو ضرور کریں لیکن اس کے ساتھ یہ جائزہ بھی لیں کہ جو تحقیقات پہلے ہوئی تھیں کیا ان کے مطابق کوئی کارروائی کی گئی۔ یا اور کچھ نہیں تو ان سے کوئی سبق حاصل کیا گیا۔ اس قسم کے واقعات میں بالعموم الیکٹرانک میڈیا کا کیا کردار ہوتا ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں لکھا ہے :

” الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جو نفرت پھیلائی گئی اور لوگوں کو جو تشدد پر اکسایا گیا، معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سزا دینا تو درکنار اس کی تحقیقات بھی نہیں کی گئیں۔ اگر قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو قانون کا احترام اور افادیت ختم ہو جاتی ہے۔“ (صفحہ 28)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments