دہشت گردی: منی سوٹا (امریکا) سے بلوچستان تک


چند روز قبل امریکہ کی ایک عدالت نے ایک پاکستانی ڈاکٹر محمد مسعود کو اٹھارہ سال کی قید کی سزا سنائی۔ یہ شخص راچسٹر (منی سوٹا) میں میڈیکل ریسرچ کے کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کر رہا تھا اور عرصہ پانچ سال سے امریکہ میں ہی مقیم تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک بیرونی دہشت گرد تنظیم کو معلومات مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد مسعود نے امریکہ میں قیام کے دوران ہی اسلامک سٹیٹ کے اہلکاروں سے رابطہ کر کے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ محاذ پر اس تنظیم کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ پہلے کووڈ کی وبا کے دوران یہ کوشش کی کہ امریکہ سے اردن جا کر، وہاں سے شام جائے لیکن چونکہ اردن نے وبا کی وجہ سے اپنی پروازیں منسوخ کر دی تھیں، اس لئے یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد یہ طے ہوا کہ وہ لاس اینجلس پہنچے اور وہاں سے اسلامک سٹیٹ کا ایک سہولت کار انہیں ایک بحری جہاز کے ذریعہ امریکہ سے نکال کر منزل تک پہنچائے گا لیکن لاس اینجلس جاتے ہوئے ایف بی آئی نے اس کو گرفتار کر لیا۔

یہ ایک مثال ہے۔ مجرم کوئی جاہل یا ان پڑھ نہیں تھا۔ اس کی پیدائش اور تعلیم پاکستان میں ہوئی تھی لیکن وہ گزشتہ چھ سال سے امریکہ میں مقیم تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایک دہشت گرد تنظیم کا شکار ہو گیا۔ جہاں بہت سے ایسے لوگ جو کہ کم تعلیم یافتہ تھے یا ان کی تعلیم مذہبی مدرسوں میں ہوئی تھی ایسی تنظیموں میں شامل ہوئے، وہاں دوسری طرف بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ اس موضوع پر نمایاں محقق ڈیگو گیمبیٹا (Diego Gambetta) نے اپنی کتاب انجینئرز آف جہاد میں بہت عمدہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردوں میں انجینئرز کافی زیادہ تعداد میں شامل تھے۔ پاکستان میں شاید صورت حال بالکل مختلف ہو۔

گو کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے مسلسل آپریشن بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن دہشت گردی ایسا مسئلہ نہیں جو صرف آپریشن کرنے سے حل ہو جائے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اس کا حقیقت پسندانہ اور علمی تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ملکی ادارے ہر وقت اپنی آنکھیں کھلی رکھیں کہ ملک میں کیا ہو رہا اور اب ان تنظیموں کا رخ کس طرف ہے؟

اس کے علاوہ اب اہل حل و عقد کو ایک اور غلط فہمی دور کر لینی چاہیے کہ اب صرف ایک یا دو دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اور نہ ہی ان سے معاہدہ کرنے سے امن قائم ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی بیسیوں تنظیمیں ہیں اور وہ آپس میں اتحاد بناتی بھی ہیں اور ضرورت پڑنے پر اتحاد ختم بھی کر دیتی ہیں۔ ان تنظیموں کے درمیان سرحدیں واضح نہیں ہیں۔ اگر حکومت ایک تنظیم سے معاہدہ یا مفاہمت کرے گی تو اس کے کئی دہشت گرد دوسری تنظیم کا رخ کر لیں گے۔ اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔

پہلے امریکہ میں کام کرنے والے ایک اکیلے ڈاکٹر کی مثال پیش کی گئی تھی، اب ہم اس کے برعکس مثال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ 12 جولائی کو ژوب میں دہشت گردوں نے پاک فوج پر حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں پاک فوج کے نو اہلکار شہید اور پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ ایک نئی دہشت گرد تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ کوئی پرانی تنظیم نہیں بلکہ اس تنظیم کا قیام اس سال فروری میں عمل میں آیا تھا اور تب سے یہ تنظیم خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں متعدد کارروائیاں کر چکی ہے۔

فروری میں اس کے ترجمان ملا قاسم نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس تنظیم کے سربراہ کا نام عبد اللہ یاغستانی ہے۔ اور اس نے کراچی کے جامعہ فاروقیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ مدرسہ دیوبندی خیالات کا مدرسہ ہے۔ اور اس تنظیم کا مقصد یہ بیان کیا گیا کہ چونکہ 75 سال بعد بھی شیخ الہند (مولانا محمود الحسن) کے نظریات کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں بن سکا اس لئے اب سوائے اس کے کہ مسلح کارروائیاں کی جائیں، پاکستان میں نفاذ اسلام کا کوئی راستہ نہیں بچا اور انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم سختی سے دیوبندی سوچ پر کاربند ہیں اور کہا کہ ہم برطانوی ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کے خلاف چلنے والی ریشمی رومال تحریک کا تسلسل ہیں۔ اور اسی بیان سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو کہ افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑ چکے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ اظہار کیا تھا کہ ہم آزاد گروہ ہیں اور افغان طالبان سمیت کسی اور تنظیم کے ماتحت نہیں ہیں۔ اس اعلان سے اب تک یہ گروہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پاک فوج کے جوانوں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

بعض ماہرین کے نزدیک اس گروہ کوئی علیحدہ گروہ نہیں ہے بلکہ پاکستانی طالبان نے ایک علیحدہ نام سے کارروائیاں کرنے کے لئے اس گروہ کو کھڑا کیا ہے تا کہ ایسے حملوں کے بعد لوگوں کے غیظ و غضب کا رخ ان کی طرف نہ ہو اور ایسی کارروائیاں بھی جاری رہیں۔

اپریل میں پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان نے ایک صحافی کو اطلاع دی تھی کہ یہ تنظیم پاکستانی طالبان کا حصہ نہیں ہے اور ایک ایسا گروہ معلوم ہو رہا ہے جس کا وجود صرف انٹرنیٹ پر ہی ہوتا ہے۔ ہم نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن بعد میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہ ایسا گروہ نہیں ہے جس کا وجود صرف سوشل میڈیا پر ہو۔

(TJP: A front group for the Pakistani Taliban. Terrorism Monitor Vol 21 Issue 17)
(Does Tehreek۔ e۔ Jihad Pakistan Actually Exist؟ Khorassan Diary، 29 th April 2023 )

اس کالم میں ماضی قریب سے دو مختلف قسم کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ تمام حالات کے مطالعہ سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مسلسل جائزہ لینا اور اس کی کارروائیوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اس ذہنی رو سے اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر مدرسوں کے فارغ التحصیل مولوی حضرات اور کم تعلیم یافتہ سب متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ مغربی ممالک میں بھی لوگوں کو اپنے دام میں پھنسا رہی ہے اور پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ کئی دہائیوں میں بیسیوں ایسی تنظیمیں قائم ہو چکی ہیں اور ماضی میں کئی مرتبہ یہ تنظیمیں آپس میں اتحاد بھی کرتی رہی ہیں اور بعض گروہوں کی اہمیت پہلے سے کافی کم بھی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی ایسی نئی تنظیمیں وجود میں آ کر اپنی کارروائیوں کا آغاز کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیمیں ماضی میں بننے والی تنظیموں کو اپنے ماڈل کے طور پر سامنے رکھتی ہیں اور کسی حد تک ان کی پیروی بھی کرتی ہیں۔ جس طرح تحریک جہاد پاکستان کی نظریاتی جڑیں برطانوی ہندوستان میں شروع ہونے والی ریشمی رومال کی تحریک میں معلوم ہوتی ہیں۔ اس لئے اس دور میں شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے اس قسم کی تنظیموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس قسم کی انتہا پسندی کے علاج کے لئے آپریشن تو کرنے پڑتے ہیں لیکن جب تک ان کے پھیلائے ہوئے نظریات کا رد نہ کیا جائے تب تک ان کا مکمل سد باب کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اور اس کے لئے سب سے پہلے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانی والی عظمت آباء کی تاریخ کو درست کرنا ضروری ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments