عوام کا استحصال کب تک!


ملک میں نئے الیکشن کی تیاریاں ہو نے لگی ہیں، اہل سیاست بھی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف نظر آنے لگے ہیں ؛ لیکن عام آدمی تاریخی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال ہی دکھائی دیے رہا ہے، اسے الیکشن کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی الیکشن کی تیاریوں سے کوئی غرض ہے، یہاں ہر کوئی ملک سے بھاگنے کے راستے تلاش کرتا پھر رہا ہے، لیکن اس ملک سے بھاگ وہی سکتا ہے کہ جس کے پاس وسائل ہیں، اگر اس ملک کے غریبوں کے پاس ملک کو چھوڑ جانے کے وسائل ہوتے تو یہ ملک کب کا خالی ہو چکا ہوتا، اس ملک میں جس طرح کا ظالمانہ استحصال غریبوں کا ہو رہا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ہو رہا ہے، لیکن یہاں غریب کا احساس کر نے والوں کو اقتدار کی ہی فکر کھائے جا رہی ہے، ایک چوتھی بار وزیر اعظم بنا چاہتا ہے تو دوسرا اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے، جبکہ اس اقتدار کی بندر بانٹ میں عوام ذلیل و خوار ہی ہونے کے لئے رہ گئے ہیں۔

اس وقت ملک میں نگراں حکومت قائم ہے اور اس نگران حکومت ہی کی نگرانی میں نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں، نگران حکومت دعویدار ہے کہ آزادانہ شفاف انتخابات کرائے گی، لیکن آزادانہ شفاف انتخابات دور دور تک ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں، اس نگران حکومت میں ایک طرف انتخابات کا بگل بجایا جا رہا ہے تو دوسری جانب ایک لاڈلے کو کراچی سے خیبر تک ہر طرح سے پر موٹ کیا جا رہا ہے، نگران حکومت پوری طرح سے ایک سیاسی جماعت کے لئے متحرک ہے، جبکہ دوسری سیاسی جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا شکوہ کرتی ہی دکھائی دیتی ہیں، اس ماحول میں کیسے آزادانہ شفاف انتخابات ہوں گے اور اس کے نتائج کو کون مانے گا ، لیکن اس کی نگران حکومت کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی اس پر الیکشن کمیشن فکر مند دکھائی دیتا ہے۔

یہ سب کچھ ملی بھگت کے تحت ہو رہا ہے کہ ایک ڈیل کے تحت، لیکن اس کے نتائج اچھے نکلتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں، اگر اس طرح کوئی اقتدار میں آ بھی گیا تو حکومت کیسے چلائے گا، جبکہ اس طرح آنے والوں کے پاس کوئی منشور ہے نہ ہی کوئی ایسا پروگرام ہے کہ جس کے ذریعے ملک کو در پش بحرانوں سے نجات دلائی جا سکے، یہ سارے ہی آزمائے ہوئے لوگ ہیں، یہ بار ہا بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے، انہوں نے خود کو بنانے اور بچانے کے علاوہ کچھ کیا نہ ہی آئندہ کچھ کر نے والے ہیں، اس کے باوجود فیصلہ ساز بضد ہیں تو اس کا خمیازہ پہلے بھی عوام نے ہی بھگتا ہے، آئندہ بھی عوام ہی بھگتیں گے۔

عوام کا کوئی پر سان حال نہیں، عوام جائیں تو جائیں کہاں، کس کے در پر صدا لگائیں، کہاں فریاد کریں، عوام کی صدائیں سننے والا ہے نہ ہی کوئی دادرسی کرنے والا دکھائی دیتا ہے، عوام کو حق رائے دہی دیا جا رہا ہے نہ ہی فیصلہ سازی میں شامل کیا جا رہا ہے، عوام پر بند کمروں کے فیصلوں کو ہی بار بار مسلط کیا جا رہا ہے، عوام بند کمروں کے فیصلوں سے نجات چاہتے ہیں، عوام اپنے فیصلے خود کر نا چاہتے ہیں، مگر انہیں بند کمروں کے ہی فیصلے ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے، آزمائے کو ہی آزمانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، لیکن یہ سب کچھ اب زیادہ دیر تک نہیں چلے گا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو نے لگا ہے، سیاست کی ہواؤں کا رخ بدلے نہ بدلے، لیکن عوام کی سوچ کا رخ ضرور بدلنے لگا ہے، عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کر لے، اس بار آزمائے کو دوبارہ نہیں آزمائیں گے۔

یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف عوام کو ہی طاقت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے تو دوسری جانب عوام کے ہی من منشاء کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں، عوام کا استحصال روکا جا رہا ہے نہ ہی عوام کی زندگی آسان بنائی جا رہی ہے، اللہ تعالی ہی اس ملک کے عوام پر رحم کھائے اور ان کی حالت کو بہتری کی جانب نہ صرف گامزن کر دے، بلکہ فیصلہ سازوں کے دل میں بھی عوام کی تھوڑی محبت ڈال دے، اس کی امید کم ہی نظر آتی ہے، اس لیے اداروں سے بھی عوام مایوس نظر آنے لگے ہیں، جو کہ کسی طرح بھی اچھا شگون نہیں ہے، اس صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک کے اداروں کو، جنہیں عوام ابھی تک اپنا ہمدرد ہی سمجھتے ہیں، کچھ آگے بڑھ کر ملکی حالات کو نہ صرف سنبھالنا چاہیے، بلکہ عوامی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنے کا حق دینا چاہیے، اس میں ملک و عوام کے ساتھ سب کی ہی بہتری ہے، بصورت دیگر ملک میں نہ صرف انتشار بڑھتا دکھائی دیتا ہے، بلکہ حالات بھی ایسے بے قابو ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں کہ جنہیں کوئی قابو کر ہی نہیں پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments