معیشت اور اشرافیہ: قرض کی پیتے تھے مے


ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کی حالت تشویش ناک ہے۔ زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر فوری ٹیکس اقدامات کیے جائیں اور معاشی استحکام کے لیے جی ڈی پی کے سات فیصد کے برابر مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے بے جا اخراجات کم کیے جائیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ مالی سال میں غربت 39.04 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو پچھلے برس 34.02 فیصد تھی۔ ان خراب معاشی حالات نے مزید سوا کروڑ افراد غربت کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ تقریباً ساڑھے نو کروڑ پاکستانی اس وقت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب کہ پچھلے برس یہ تعداد سات کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا تباہ شدہ معاشی ماڈل ایک بڑی سرجری کا تقاضا کرتا ہے۔

عالمی بینک نے پاکستان میں مہنگائی کے حوالے سے رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ دنیا بھر میں اجناس سستی اور پاکستان میں کیوں مہنگی ہیں۔ بینک نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں اشیاء سستی ہونے کا فائدہ صارفین کو نہیں پہنچایا جاتا جبکہ مہنگی ہونے پر فوراً صارفین پر بوجھ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اگر قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کرانا چاہے بھی تب بھی مفاد پرست حلقے ایسا نہیں کرنے دیتے اور حکومت ایسے طبقے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتی ہے۔ پاکستانی

وزارت خزانہ کی جاری کردہ رواں سال کی مالیاتی رسک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران افراط زر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے جبکہ مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ قرضوں پر سود کی ادائیگی مالی خسارے میں کمی میں راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس رپورٹ سے ملک کو درپیش مالیاتی مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں۔

جن کے باعث قوت خرید کی کمی کے ساتھ گھریلو بجٹ دباؤ کا شکار ہے۔ کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے۔ پاکستان میں پیٹرول، آٹا اور چینی مافیا الگ الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مگر کسی ایک کے خلاف بھی کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہوئی۔

عالمی بینک کی جاری کردہ پالیسی کے مسودہ میں کم انسانی ترقی، غیر پائیدار مالیاتی صورتحال، زراعت، توانائی اور نجی شعبہ جات کو ضابطہ میں لانا اور ان شعبوں میں اصلاحات، اسی طرح جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس میں فوری طور پر پانچ فیصد اضافہ اور اخراجات کو جی ڈی پی کے تقریباً 2.07 فیصد تک کم کرنے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں گویا پاکستانی معیشت کی بحالی ایک بڑی تبدیلی کی متقاضی ہے۔ جو غیر معمولی نوعیت پر مبنی اقدامات کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

ماہرین کے مطابق معاشی درستگی کے عمل میں خارجی و داخلی دونوں محاذوں پر اصلاحات کے ساتھ اس خوش فہمی سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی میں باہر کی دنیا ہماری مدد میں پیش پیش ہوگی۔ یہی حکمت عملی ہماری ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ہماری اشرافیہ سخت گیر اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں معاشی ترقی یا معاشی بدحالی سے نکلنے کی خواہش دیوانے کا خواب ہو سکتی ہے حقیقت نہیں۔ معاشی بہتری کے لیے ان سخت گیر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔

1۔ معاشی ترقی کے لیے طویل، وسط اور مختصر المیعاد بنیادوں پر منصوبہ بندی۔ 2۔ معیشت اور سیاست کے استحکام کا فریم ورک۔ 3۔ نظام میں خود احتسابی اور شفافیت کا یقینی عمل۔ 4۔ داخلی اور خارجی سرمایہ کاری اور اس کے لیے دو طرفہ سازگار ماحول کی فراہمی۔ 5۔ ادارہ جاتی اصلاحات میں جدیدیت کی بنیاد پر تبدیلیاں۔ 6۔ معیشت اور عام آدمی کے مفادات میں ہم آہنگی اور توازن۔ 7۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا اور بالخصوص طاقت ور طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانا 8۔

چھوٹی صنعتوں کا فروغ اور معاشرے کے مجموعی مزاج کو معاشی امور سے جوڑنا۔ 9۔ گڈگورننس اور نظم حکمرانی میں شفافیت لانا۔ 10۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور مقامی صنعت کا فروغ۔ 11۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ جو معاشی عدم استحکام کا سبب ہے۔ ، 12۔ سیاسی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف معیشت کی بحالی کے حل کی غلط حکمت عملی سے نجات۔ کیونکہ سیاست اور معیشت کی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ 13۔ سیاسی اور معاشی پالیسیاں، قوانین یا ادارہ جاتی تبدیلیاں ذاتی مفادات کی فکر سے بالاتر ہو کرنا۔

14۔ علاقائی ممالک میں نئی سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات متعین کرنا۔ 15۔ خطے کی سیاست میں معیشت کی ترقی کے لیے نئے امکانات تلاش کرنا، جو ہمیں علاقائی معیشت سے جوڑ سکے۔ 16۔ داخلی مسائل کا تفصیلی تجزیہ اور ایسی متبادل پالیسی کی تشکیل جو ہمیں داخلی سطح پر مضبوط کرسکے۔

17۔ داخلی محاذ پر مافیاز پر مبنی گٹھ جوڑ توڑنا جو ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ 18۔ طاقتوروں کو آئین، قانون اور ادارہ جاتی عمل کی سطح پر جواب دہ بنایا جائے۔ 19۔ قرض کے حصول کے بعد اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے۔ 20۔ توانائی سیکٹر کا خسارہ پانچ ہزار ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔ ریلوے، سٹیل ملز، پی آئی اے سمیت دو تہائی حکومت ادارے خسارے میں جا رہے ہیں جبکہ ان اداروں کی افسر شاہی اربوں روپے کی مراعات لے رہی ہے۔

معیشت کا خون چوسنے والے اداروں اور افسر شاہی سے نجات حاصل کی جائے۔ ان اقدامات کے بغیر معاشی اصلاح کے امکانات مخدوش ہیں۔ اس بار پھر معیشت ٹھیک کرنے کے لئے امپورٹڈ وزرائے خزانہ لانے کی پرانی روایت دہرائی جا رہی ہے۔ ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب ہوں یا جنرل پرویز مشرف کے شوکت عزیز، کوئی تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ نیدرلینڈ سے کامیاب بینکر اورنگ زیب وزیر خزانہ بنائے گئے ہیں جنہوں نے وفاقی وزیر کا حلف لینے کے بعد پاکستانی شہریت کے حصول کی درخواست دی۔

وہ ماہانہ تین کروڑ روپے تنخواہ چھوڑ کر آئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ بہت قابل اور تجربہ کار شخص ہیں، معیشت کی کایا پلٹ دیں گے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہو گا لیکن تجربات بتاتے ہیں کہ محمد اورنگ زیب جیسے ماہرین کو یہ تاثر دینے کے لئے بلایا جاتا ہے کہ اب ہم معاشی اصلاحات سے متعلق سنجیدہ ہیں۔ حالانکہ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب بھی ٹیکس کے نظام میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی مختلف سمتوں سے دباؤ آیا۔ کسی بھی سنجیدہ کوشش پر تاجر سڑکوں پر نکل آتے ہیں، اپوزیشن بھی ان کے ساتھ دھرنا دے کر بیٹھ جاتی ہے۔ ہر سیکٹر جسے ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی جائے، وہ کارٹل بنا کر بلیک میلنگ پر اتر آتا ہے اور مصنوعی بحران پیدا کر کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

شہباز شریف حکومت آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے مزید پیکج کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ جبکہ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات کا مجموعی حجم 77.66 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ پاکستان کا فی کس قرضہ سال 2011 میں 823 ڈالر تھا، بڑھ کر 2023 میں 1122 ڈالر فی کس ہو گیا ہے۔ جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے، ملک کا قرض اس کی آمدنی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات بڑھانے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اور صدر نے تنخواہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جو اچھی بات ہے مگر کیا اس سے ملک کے مسائل حل ہو جائیں گے اس وقت ملک کو اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے؟ پاکستان کا مسئلہ قرض کا حصول ہے یا قرض سے نجات؟ قوم کو کب تک قرض کی مے سے ترقی کے جھوٹے خواب دکھائے جاتے رہیں گے؟ غالب نے کہا تھا:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جب تک تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر معیشت کی بحالی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق نہیں ہو جاتے، موجودہ وزیر خزانہ تو کیا دنیا بھر کے معاشی ماہرین مل کر بھی پاکستانی معیشت کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments