آزاد جرگے اور دینی مدارس کے بچوں کا مستقبل


ہمارا معاشرہ بہت دین دار ہے۔ لوگوں میں علمائے کرام کا اثر و رسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے غصّہ تھوک دیجئے۔ لعنتیں بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں۔ زمانہ ہی برا ہے، اور قیامت آنے والی ہے، جیسے جملے بھی اس مسئلے کو حل نہیں کر پائیں گے۔

مبینہ طور پر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھائی نے اپنے والد کی مدد سے بائیس سالہ بہن کو گلا دبا کر قتل کر دیا۔ قتل کے وقت کمرے میں باپ اور بھابھی اور دوسرا بھائی بھی موجود تھا۔ قتل کر کے خاموشی سے تدفین کردی گئی تھی۔ بعد ازاں مقتولہ کے بھائی شہباز اور بھابھی نے انکشاف کیا کہ قاتل اپنی بہن کے ساتھ زیادتی کا مرتکب بھی ہوتا رہا۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہوا ہو جیسا کہ باپ کے بارے میں بھی ایسا ہی سُننے میں آ رہا ہے۔ اہلِ خانہ نے یہ سب اپنے سامنے باآسانی ہونے دیا۔ گھر والے آخر کیوں خاموش رہے؟

17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب یہ المیّہ ہوا۔ تدفین کے ایک ہفتے کے بعد پولیس کو اطلاع ملی۔ تعجب ہے کہ اس ایک ہفتے میں اہل علاقہ میں سے بھی کسی نے چُپ کا روزہ نہیں توڑا۔ لوگوں نے سوچا ہو گا کہ کہیں ہمارے بولنے سے مقدسات کی توہین ہی نہ ہو جائے۔ مقدسات کو بچانے کے لئے گزشتہ روز مولانا ابتسام الہی ظہیر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ تاندلیانوالہ میں پہنچے۔ وہاں انہوں نے قاری ابوبکر صدیق معاویہ کے ایک بچے کے ساتھ جنسی زیادتی والے مسئلے کو حل کروا کے فریقین کو بھائی بھائی بنا دیا۔ یوں مقدسات کی توہین ہوتے ہوتے بچ گئی۔

جب بھی کہیں ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اصلاح احوال کے حوالے سے سب سے پہلے توجہ دینی مدارس اور علمائے کرام کی طرف ہی جاتی ہے۔ دینی مدارس بچوں کے لئے مفت تعلیم، غذا اور رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔ اسی لئے لوگ انہیں چندہ، فطرانہ اور ڈونیشن دیتے ہیں۔ ان پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ لوگ آنکھیں بند کروا کے اپنے لختِ جگر ان میں تعلیم و تربیّت کے لئے داخل کروا دیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کے تربیتی مراکز در اصل یہی دینی مدارس ہیں۔ ہمارے ہاں شدّت پسندی کو بھی اُس وقت تک عروج نہیں ملا جب تک کچھ دینی مدارس اس میں ملوث نہیں ہوئے۔ شدت پسندی کے ساتھ ساتھ اب آئے روز ہمارے سماج میں جنسی درندگی کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسری طرف آپ صرف گزشتہ چند مہینوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو پے درپے دینی مدارس کے حوالے ایسی افسوسناک خبریں ملیں گی، جیسے :

اسلام آباد تھانہ رمنا کے علاقے میں دینی مدرسہ میں زیر تعلیم طالبہ لاپتہ ہو گئی۔ دریں اثنا نئی آباد علی پور میں واقع مدرسہ کے قاری کی طرف سے بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرنے پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ تھانہ شہزاد ٹاؤن میں ناصر نے مقدمہ درج کروایا کہ قاری عبدالرحمن نے اس کے بیٹے کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کیں، مدرسہ کے دیگر دو طلبا نے بھی بتایا کہ قاری ان کے ساتھ بھی غلط حرکات کر چکا ہے۔ چکوال میں دینی تعلیم کے مدرسہ میں طالب علموں سے زیادتی کا افسوس ناک واقعہ سامنے آ گیا۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے ایک طالب علم کے والد میں تھانہ میں مدرسہ کے دو اساتذہ کے خلاف درخواست دے دی۔ چکوال میں 14 طلباء کو مدرسہ کے اساتذہ زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ متاثرہ تمام طلباء کی عمریں 12 اور 14 سال کے درمیان ہیں۔ ملزمان بچوں کو چاقو سے ڈراتے اور ان کے جسم پر Z کا نشان بناتے تھے۔

حالات اتنے سنگین ہیں کہ تھانہ نارتھ کینٹ لاہور میں ایک طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ لاہور کے رہائشی ایک مفتی صاحب تین سال سے اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ کسی چھوٹے موٹے یا نوجوان مفتی کی بات نہیں ہو رہی۔ موصوف گزشتہ تقریباً 25 سال سے مدرسہ منظور الاسلامیہ میں بطور معلم کام کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مذہبی جماعت جمعیت علما اسلام کے لاہور سے رکن بھی تھے۔

طالب علم کا کہنا تھا کہ جب وہ درجہ رابعہ یعنی چہارم میں پہنچے تو امتحانات کے دوران اس وقت کے نگران مفتی نے ایک اور طالب علم سمیت ان پر امتحانات میں نقل کا الزام عائد کرتے ہوئے تین برس کے لیے ان کے وفاق المدارس کے امتحانات پر بیٹھنے پر پابندی عائد کر دی۔

طالب علم نے پولیس کو مزید بتایا کہ مفتی نے ان سے کہا کہ اگر ’وہ انھیں خوش کر دیا کریں گے تو میں وفاق المدارس والی پابندی بھی ہٹوا دوں گا اور امتحانات میں بھی پاس کروا دوں گا۔‘ طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ اس کے بعد مفتی ہر جمعہ کے روز تقریباً 10 یا 11 بجے انھیں طلب کرتے تھے اور ان کے ساتھ غلط کاری کرتے تھے۔

تین سال تک بلیک میل ہونے کے بعد تنگ آ کر طالب علم نے مدرسہ انتظامیہ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مفتی کے خلاف شکایت کی۔ مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مفتی صاحب بزرگ اور نیک آدمی ہیں وہ ایسا فعل نہیں کر سکتے۔

طالبِ علم کے مطابق اس پر ’مایوس ہو کر اس نے خود اس واقع کی ویڈیوز چوری بنانا شروع کیں۔ ‘ طالب علم نے پولیس کو بتایا کہ یہ ثبوت اس نے وفاق المدارس العربیہ کے ناظم مولانا حفیظ جالندھری کو بھی پیش کیے۔ اس نے پولیس کو چند آڈیو کالز کی ریکارڈنگ بھی ثبوت کے طور پر فراہم کی جن سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ کس طرح مفتی نے مسلسل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

یہ تو کچھ بھی نہیں، اس سے کئی گنا زیادہ ایسی خبریں گوگل پر سرچ کر کے دیکھ لیجیے۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس کو سماج کی تربیّت کے حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ شدّت پسندی ہو یا جنسی بے راہروی اس کے ڈانڈے جا کر کچھ دینی مدارس سے ہی ملتے ہیں۔ مدارس لوگوں کو جیسے ترغیب دیتے ہیں لوگ وہی کچھ کرتے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں جنوری سے جون 2023 تک اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

ہمیں مولانا ابتسام الہی ظہیر صاحب کے حُسنِ نیّت سے انکار نہیں۔ لیکن انہوں نے طالبان کی طرح تاندلیانوالہ میں جو اپنا جرگہ لگا کر ماورائے عدالت جو کچھ کیا ہے، اس میں قوم کے نونہالوں اور معصوم طالب علموں کے لئے مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ قانون سے ماورا ایسے جرگے دینی مدارس اور معاشرے میں جنسی جرائم کے مزید فروغ کا باعث بنیں گے۔ ہماری دانست میں ایسے واقعات کی قانونی طور پر تحقیقات ضروری ہیں، اسی میں دینی مدارس اور معاشرے کی بھلائی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments