معصوف اور ہمارا معاشرہ


پانچویں صدی قبل مسیح انسانی تہذیب کے ارتقاء میں ایک اہم حیثیت کی حامل ہے جب دنیا کی تین بڑی تہذیبوں، یونان، بھارت اور چین میں ایسی عظیم الشان شخصیات نے جنم لیا جن کے افکار آج بھی مہذب دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ایتھنز میں سقراط، بھارت میں سدھار تھا اور چین میں کنفیوشس نے انسانی سوچ کو مادی الائشوں سے ذہنی اور روحانی سکون اور اطمینان کی طرف منتقل کیا اور معاشرہ میں امن و سکون، ہمدردی اور رحم دلی کے ساتھ ایک دوسرے سے معاشرت کے اصول سکھائے۔ ان تینوں عظیم شخصیات کے اثرات سے انسانی تہذیب و تمدن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور سقراط کے بعد ان کے شاگرد افلاطون اور پھر ارسطو اور پھر ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے دنیا کے نقشہ پر نئے باب رقم کیے۔

بھارت میں سدھار تھا (گوتم بدھ) نے بھی انسانیت کو نئے دور سے روشناس کروایا اور ان تعلیمات کے نتیجہ میں بھارت میں چندر گپت موریا کی قائم کردہ موریہ سلطنت قائم کو اس کے پوتے اشوک نے ایک عظیم الشان سلطنت میں بدل دیا۔

چین میں بھی کنفیوشس کی تعلیمات کی روشنی میں ایک عظیم سلطنت قائم ہوئی جو دو ہزار سال تک کنفیوشس کی تعلیمات کی روشنی میں ترقی پذیر رہی۔

ان تعلیمات میں بنیادی اصول یہ تھا کہ دنیا کی مادی خواہشات سے قطع تعلق کر کے انسان اپنی پیدائش کے گہرے مطالب تلاش کرے اور اس جہان کو محض یہیں تک محدود نہ سمجھے بلکہ کائنات کے گہرے رازوں کا ادراک حاصل کرے اور دنیوی آسائش کو ایک ضمنی چیز سمجھا جائے۔ لیکن اس حوالہ سے بھی انسان افراط و تفریط کا شکار رہا۔

سقراط کے ایک پیرو دیو جانس کلبی نے اس حد تک ترک دنیا پر توجہ دی کہ اس نے لباس پہننا بھی ترک کر دیا۔ وہ دن کو چراغ لے کر گلیوں میں گھومتا کہ میں کسی ایماندار شخص کی تلاش میں ہوں۔ (آج کل کے حالات میں قابل غور) ۔ ترک دنیا کی یہ رسم بدھ بھکشووٴں اور عیسائی راہبوں میں شدت سے رواج پانے لگی اور اسے روحانیت کا اعلیٰ درجہ قرار دیا جانے لگا۔

مسلمانوں میں ترک دنیا کی یہ رسم اس شدت سے تو نہیں مگر ایک خاص طبقہ میں اعلیٰ روحانی اقدار کے حصول کے لیے دنیا کی محبت کو سرد کرنا اور روحانی مشقیں برداشت کرنا ضروری قرار دیا گیا۔ اس طبقہ کو صوفیاء یا فقیر کہا جاتا ہے اور ان کا زینہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا ادراک ہے۔ عالم اسلام میں بہت سے ایسے صوفیاء گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نمونہ سے لوگوں کی اصلاح کی اور ایسے مراکز قائم کیے جہاں لوگ ان کے فیض سے فائدہ اٹھاتے رہے۔

مگر جیسا کہ دستور ہے، رفتہ رفتہ ان کی مقبولیت سے متاثر ہو کر ایسے لوگوں نے بھی جن کو دنیا سے محبت تھی اور وہ جاہ و حشم کے دلدادہ تھے ان کے رنگ میں بظاہر رنگین ہو کر ظاہر میں وہی طریق اختیار کرنا شروع کر دیا جو ان صوفیا کا تھا، مگر باطنی طور پر ان کا مقصد مقبولیت حاصل کرنا اور دنیا کمانا تھا صوفیاء کی زبان میں ایسے افراد کے لیے معصوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی ایسا شخص جو جعلسازی سے خود کو صوفی قرار دے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرہ میں آپ کو زیادہ تر صوفیاء کا لبادہ اوڑھے معصوف نظر آئیں گے۔ ان کی شناخت کوئی مشکل امر نہیں۔ سوشل میڈیا پر عمدہ لباس پہنے، آپ کو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جو آپ کو ایسے وظائف بتائیں گے جن کے پڑھنے پر کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔ جنت کے وہ نقشے بیان کریں گے کہ جیسے خود وہاں سے سب کچھ دیکھ کر آئے ہوں۔ جنات کو قابو کر کے آپ کے تمام کام کرنے کا دعویٰ کریں گے اور اپنی اس صلاحیت کی تشہیر کے لیے خود بجائے جنات سے فائدہ اٹھا نے کے اخبارات کے اشتہارات کا سہارا لیں گے۔

ان میں سے کوئی ایک بھی آپ کو روحانی مشقتوں اور قربانیوں کی طرف راغب نہیں کرے گا۔ کسی اچھی بات کی ترغیب نہیں دے گا۔ اخلاقی حالتوں کی درستگی کی طرف آپ کو نہیں بلائے گا۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو منہ کی پھونکوں سے لوگوں کی بیماریاں دور کردینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب خود بیمار ہوں تو بہترین ڈاکٹروں سے مشورہ کرتے ہیں، اور لوگ ہیں کہ ان کے ڈیروں پر گھنٹوں انتظار میں بیٹھے اپنی صحت مندی کے متلاشی رہتے ہیں۔

خدارا اپنے معاشرے کو ان معصوفوں سے بچائیے انہیں پنپنے نہ دیجئے ورنہ یہ آئندہ نسلیں بھی برباد کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).