لیمپ۔ ایک روسی کہانی


لیمپ۔
چیبیکن روسٹیسلاو۔

جب گاؤں کے کونے کونے سے فساد اور قتل عام کی خبریں آنے لگیں تو میرے پر نانا نے میز پر بیٹھ کر مٹی کے تیل کا لیمپ جلایا اور تورات پڑھنے لگے۔ آخر وہ فساد ان کے گھر سے دو گھروں کے فاصلے پر آ کر رک گیا اور کسی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی اصل وجہ تورات نہیں بلکہ لیمپ ہے۔ تب سے نانا نے لیمپ کئی بار جلایا۔ یہاں تک کہ دن کے وقت بھی جب منظم قتل عام شروع ہوا اور ہر بار ان کا گھر بچا رہا۔

جب بالشویک پہنچے تو پر نانا نے دوبارہ لیمپ جلایا اور وہ نوجوان کمشنر کے دل میں احترام کے جذبات پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس نے پچھلے سربراہ کی جگہ، جسے انقلاب کے دشمن کے طور پر گولی مار دی گئی تھی۔ میرے پر نانا کو گاؤں کا سربراہ مقرر کیا۔

گاؤں میں کئی بار طاقت تبدیل ہوئی اور پرنانا ہر بار لیمپ جلاتے رہے۔ وہ اس کی معجزاتی خاصیت پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ نتیجتاً جب اجتماعی فارم کے لیے دوسروں سے زمین اور مویشی چھین لیے گئے تو ان کا فارم قائم رہا۔ ان کے فارم کی ضلعی حکام کی نظر میں اچھی حیثیت تھی اور انہیں کئی بار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

جب چمڑے کی جیکٹوں میں ملبوس اجنبی، گاڑی میں گاؤں پہنچے تو میرے پر نانا نے لیمپ نہیں جلایا۔ وہ غالباً اس کے بارے میں بھول گئے تھے۔ آخر گاؤں میں کئی سالوں سے بجلی موجود تھی۔

وہ بمشکل کچھ سادہ چیزیں اکٹھا کر سکے اور ہمیشہ کے لیے چھین لیے گئے۔
۔

جلد ہی میری پرنانی اور ان کی بیٹی ماسکو منتقل ہو گئیں۔ بیٹی نے لیمپ کے بارے میں اپنی والدہ کے عقیدت مندانہ رویے کو انقلاب سے پہلے کی تنگ نظری سمجھا اور پرنانی کو باقاعدہ مشورہ دیا کہ وہ اس پرانے اور کالک جمے لیمپ کو پھینک دیں۔ بہرحال پرنانی نے ان کی بات پر کان نہ دھرا اور جب بھی کوئی خوفناک سیاہ گاڑی عمارت تک آتی دیکھی تو لیمپ جلانا نہیں بھولیں اور چمڑے کی جیکٹ والے ہمیشہ کسی اور کو اپنے ساتھ لے جاتے رہے۔

صرف ایک بار میری پر نانی وقت پر لیمپ نہ جلا سکیں۔ کیوں کہ انہوں نے عمارت کے داخلی دروازے پر کالی گاڑی کو بعد میں دیکھا تھا۔ اس دوران جب برقی گھنٹی کے باوجود اپارٹمنٹ کے دروازے پر مسلسل اور زوردار دستک ہو رہی تھی۔ پرنانی عجلت میں لیمپ کی بتی ہلا رہی تھیں، نانی نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو چمڑے کی جیکٹوں میں ملبوس لوگ نظر آئے۔

”کیا شہری اورلوف یہاں رہتا ہے؟ ایک کرخت آواز نے پوچھا۔
”نہ۔ نہیں،“ نانی نے ہکلا کر جواب دیا۔ ”اورلوف اوپر کی منزل پر رہتے ہیں۔“

جیکٹوں میں ملبوس مردوں نے زور سے دروازہ بند کیا اور سیڑھیوں پر ان کے پیچھے ہٹتے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ نانی پلٹ کر کمرے میں بھاگی جہاں انہوں نے ماں کو دل پر ہاتھ رکھے فرش پر گرے ہوئے دیکھا۔ جب کہ میز پر مٹی کے تیل کا لیمپ پوری طاقت سے جل رہا تھا۔

جب پہلی بار ہوائی حملے کا سائرن بجا، نانی نے ماں کو جگایا اور پناہ گاہ کی طرف بھاگنا چاہا، لیکن شدید بیمار پرنانی بستر سے نہیں اٹھ سکتی تھی۔ نانی جانتی تھیں کہ یہاں رہنا بیوقوفی ہے۔ اگر گھر بم کی زد میں آ گیا تو وہ کوئی مدد نہیں کر پائے گی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے پڑوسیوں سے کہا کہ وہ پناہ گاہ میں چلے جائیں اور خود اپنی ماں کے بستر کے پاس بیٹھ گئیں اور دھیمی لو میں مٹی کے تیل کا لیمپ جلا لیا۔ یہ بات کئی بار دہرائی گئی۔ بموں نے ایک پڑوسی کا گھر تباہ کر دیا، دھماکوں سے شیشے ٹوٹ گئے اور بالکونیاں بھی منہدم ہو گئیں۔ میری پر نانی فتح کو دیکھنے کے لیے زندہ رہیں اور ماسکو پر شاندار آتش بازی دیکھی۔ اگلے دن انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔

”لیمپ جلاؤ۔“ پر نانی نے ڈاکٹروں سے سرگوشی کی، لیکن وہ اسے سمجھ نہیں پائے۔
۔

میری نانی کو اپنے باپ بالکل یاد نہیں تھے، جو محاذ پر مارے گئے تھے۔ جنگ کے فوراً بعد نانی نے ایک پارٹی ورکر سے شادی کرلی۔ وہ خود ایک سرخیل کارکن تھیں اور اس وقت کومسومول سیل کی سیکرٹری تھیں۔ ان کی جوانی برقی روشنیوں میں گزری جو کمیونزم کے طلوع کی علامت تھی۔

پارٹی کارکن کو ماسکو کے مضافات میں ایک نئی بلڈنگ میں علیحدہ اپارٹمنٹ ملا اور اس نے پختہ فیصلہ کیا کہ پرانے گھر سے کوئی بھی چیز وہاں منتقل نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ تمام چیزیں انقلاب سے پہلے کی بورژوا زندگی کو ظاہر کرتی تھیں۔ اس نے نیا فرنیچر، نئی کتابیں، ایک پیانو اور بہت سے برقی بلب خریدے۔ نئے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے گھروں، کارخانوں، پلوں اور میٹرو اسٹیشنوں کے لامتناہی تعمیراتی منصوبوں کو دیکھا جا سکتا تھا جو سوویت عوام کی نئی زندگی کو قریب لاتے تھے۔

ایک دن نانی اپنے شوہر سے چھپ کر پرانے اپارٹمنٹ میں گئیں اور وہاں سے مٹی کے تیل کا لیمپ لے آئیں اور اسے میزانائن پر سب سے آخری طاق پر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو لیمپ کے بارے میں کسی کو بتانے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ یہ عقیدہ، اشتراکیت کی تعلیم کے خلاف ہے۔

پارٹی کارکن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کام کرتا رہا۔ ایک دن وہ میٹنگ میں خلاف معمول طویل وقت تک ٹھہرا رہا۔ رات کے دس بجے نانی کو فکر ہونے لگی، ساڑھے بارہ بجے تک وہ جہاں جہاں فون کر سکتی تھیں، وہاں فون کیا اور آدھی رات کو وہ لیمپ لینے میزانین پر چڑھ گئیں۔

نانی کو وہ لیمپ وہاں نہیں ملا۔ وہ تمام شیلفوں میں ڈھونڈتی رہیں، پھر دوسرے کمرے میں تلاش کیا، باورچی خانے میں دیکھا اور صبح تک پورا اپارٹمنٹ چھان مارا، لیکن لیمپ کہیں نہیں ملا۔ صبح انہوں نے فون کیا تو بتایا گیا کہ رات پارٹی کارکن کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی ہے۔

نانی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی بیٹی پرانے لیمپ کو اپنے ساتھ چکوٹکا (ملک کے مشرقی حصے میں ایک چھوٹا قصبہ) لے گئی ہے۔ جہاں وہ کالج کے بعد ایک تفویض کردہ کارکن کے طور پر کام کرنے گئی تھی۔ وہاں وقفے وقفے سے بجلی فراہم کی جاتی تھی اور تیل کے لیمپ کے بغیر گزارہ کرنا ممکن نہیں تھا۔

۔

جب مچھلی پکڑنے والا جہاز جس پر ایگور ( میرے والد) کام کرتے تھے، سفر پر نکلا تو ماں کو قصبے کے مضافات میں ایک گھر میں اکیلا رہنا پڑا۔ ریٹا، ان کی سہیلی نے اپنے شوہر کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھر میں تفریحی پارٹیوں کا اہتمام کیا اور ماں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیا، لیکن ماں دن کے وقت کام پر جاتی اور شام کو گھر کی صفائی کرتی تھی۔ وہ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں پڑھتی اور اگور کو گھر کا مالک سمجھتی تھی۔ اس کی عدم موجودگی میں مہمانوں کو مدعو نہیں کر سکتی تھی۔

ایک ڈھلتی شام جب ماں پراودا کا تازہ شمارہ ختم کر رہی تھی، تیل کا روشن لیمپ اچانک پھڑپھڑایا۔ اسی لمحے ماں کو ناقابل فہم گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، لیکن وہاں گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور تین دن سے جاری تیز برفانی طوفان میں بمشکل کچھ نظر آ رہا تھا۔ ماں نے لیمپ بجھا کر سونے کی کوشش کی، لیکن اس کی پریشانی بڑھتی گئی۔ اپنی کیفیت کو نہ سمجھتے ہوئے ماں نے دوبارہ لیمپ جلایا اور صبح تک میز پر بیٹھی، دھندلے شیشے کے پیچھے ٹمٹماتی روشنی کو دیکھتی رہی۔

اگلے دن ماں نے سنا کہ گزشتہ رات ماہی گیری کا جہاز ”سمیلی“ کھلے سمندر میں ڈوب گیا۔ قصبے میں لوگوں نے دبی زبان میں اس کے بارے میں بات کی۔ ماں کو پتہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوا، لیکن جب شام کے قریب انہوں نے اسی دبی زبان اور سرگوشی میں کہنا شروع کیا کہ عملے کے ایک واحد زندہ بچ جانے والے رکن کو سمندر سے اٹھایا گیا ہے تو کسی وجہ سے ماں نے فوراً سوچا کہ وہ ایگور ہو گا۔ پھر معلوم ہوا کہ قریب سے گزرنے والے بحری جہازوں اور امدادی کشتیوں نے معجزانہ طور پر بچ جانے والے کئی ماہی گیروں کو برفیلے پانی سے باہر نکالا تھا، لیکن یہ ایگور ہی تھا جسے سب سے پہلے بچایا گیا تھا۔

۔

میری اسائنمنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ آ چکی تھی، لیکن کام مکمل نہ ہونے کی بناء پر سپروائزر نے کمال مہربانی سے مجھے دو دن اور دو راتیں مزید دے دیں تھیں۔ یہ دوسری رات تھی۔ میری دائیں آنکھ کمپیوٹر کی اسکرین پر جمی تھی جو حیرت انگیز طور پر آہستہ آہستہ ناقابل تصور گراف کھینچ رہا تھا اور بائیں آنکھ سے میں کتابچہ پڑھ رہا تھا اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میرے کام کا مقصد کیا ہے اور مجھے آگے کیا کرنا چاہیے۔

جب گراف درست حد پر آ گیا اور کمپیوٹر پیغام جاری کرنے ہی والا تھا کہ سب کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے تو گھر کی بجلی بند ہو گئی۔ چار گھنٹے کا قیمتی ڈیٹا ضائع ہو گیا تھا۔ اندھیرے کے باعث کتابچہ پڑھنا بھی انتہائی مشکل تھا۔

میں اٹھ کر دالان کی طرف بڑھا۔ جہاں ایسے مواقع کے لیے موم بتیاں رکھی جاتی تھیں۔ میں نے راستے میں سرہانے کی میز سے کتابوں کا ایک بڑا ڈھیر گرایا اور سوئی ہوئی بلی پر پاؤں رکھا، جس نے ہم دونوں کے موڈ خراب ہو گئے۔ دالان میں سڑک سے آتی بلب کی روشنی سے میرا کام قدرے آسان ہو گیا، میں نے آدھا دالان کھنگال ڈالا، لیکن کوئی موم بتی نہیں ملی۔ میں نے غصے میں اپنی مٹھی قریبی شیلف پر ماری، شیلف گر گیا اور کئی فالتو چیزوں کے ساتھ شیشے کی کوئی چیز بھی نیچے گری۔ میں کچھ حیران ہوا کہ وہ دالان کے پختہ فرش پر گری تھی، لیکن ٹوٹنے سے بچ گئی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا اور غور سے دیکھا۔ وہ مٹی کے تیل کا لیمپ تھا۔

مچھلی نہیں تو جھینگا ہی سہی کے مصداق، میں نے ماچس لی اور اس آلہ کو جلانے کی کوشش کی جسے میں نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں جلایا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب مجھے لیمپ کا کام کرنے والا اگنیشن الگورتھم بالکل آسانی سے مل گیا اور جلد ہی کمرہ ایک مدھم ٹمٹماتی روشنی سے روشن ہو گیا۔

میں نے مایوسی سے کتابچہ اٹھایا اور بے معنی باتیں پڑھنے لگا، اچانک میری توجہ دیواروں پر حرکت کرتے سایوں کی طرف مبذول ہوئی۔ میں نے دیکھا یہ سائے جلتے ہوئے لیمپ کے گرد پانچ یا چھ پتنگوں نے ڈالے ہیں۔ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے پہلے کبھی یا بعد میں اپنے اپارٹمنٹ میں کوئی کیڑا نہیں دیکھا تھا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ باہر سردی کا موسم تھا اور ان کے اندر آنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ کیڑے سرمئی نیلے رنگ کے تھے اور لیمپ کے اوپر ان کے چکر لگانے سے سکون کا حیرت انگیز احساس پیدا ہو رہا تھا۔ تمام گرافس اور مینول فوراً اپنے معنی کھو بیٹھے اور میرے ذہن میں کافی عجیب اور دلچسپ خیالات آنے لگے۔

لیمپ کی روشنی میں کمرہ زیادہ روشن نہیں تھا، پتنگے آہستہ آہستہ مجھے پرندے لگنے لگے۔ یہ کھارکوف کے آس پاس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پر منڈلاتے ابابیل تھے۔ دوپہر کا سورج چمک رہا تھا، چراگاہوں میں گائیں ڈکرا رہی تھیں، گندم کی بو آ رہی تھی اور میرے ہاتھ میں، ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پرانا کاغذ کا پلندا تھا۔ مزید غور کرنے پر وہ پلندا نہیں، بلکہ نرم کاغذ پر چھپا ”زمین کا حکم نامہ“ تھا۔ ہوا چل رہی تھی اور کہیں دور سے جانوروں کے کھروں کی آوازیں آ رہی تھیں۔

پھر دوپہر کا سورج بجلی کے بلب میں بدل گیا تھا جسے میں نے بڑے فخر سے گاؤں کے ہال میں چھت کے نیچے ساکٹ میں لگا دیا۔ کھیت سے نئے ٹریکٹروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ نہیں، یہ ٹریکٹروں کی آوازیں نہیں تھیں۔ یہ سیڑھیوں پر قدموں کی خوفناک آوازیں تھیں، بے ضرر اور معصوم بچوں کے ڈاکٹر اورلوف کی بیوی، چمڑے کی جیکٹ پکڑے روتے ہوئے چیخ رہی تھی کہ یہ ایک غلطی ہے، اس کے شوہر نے کوئی قصور نہیں کیا۔ اور اب یہ کوئی چیخ و پکار نہیں تھی، بلکہ ماسکو میں رات کے آسمان میں ایک ناقابل فہم گڑگڑاہٹ تھی۔

آسمان پر پھیلتی سرچ لائٹوں نے اوپر اڑتی ابابیلوں کو نمایاں کر دیا تھا، جو کالے بدنما طیاروں میں تبدیل ہو گئیں۔ پھر کالے طیاروں سے سیاہ سائے الگ ہو کر زمین پر گرنے لگے، لیکن وہ زمین تک نہیں پہنچے، وہ سفید بادلوں میں سارسوں میں بدلے اور ایک دور دراز سمندر کے کنارے واقع شہر پر برف بن کر برس گئے۔ جہاں پیاری لڑکی ریٹا جس سے اس کا شوہر جدا ہو گیا تھا، اپنے گھر میں رو رہی تھی۔

ریٹا، ماں سے حسد کرتی تھی، جن کے شوہر کو فش فارمنگ انسٹیٹیوٹ ماسکو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ماں نے لکھا کہ ان کے ساتھ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جس کا وزن چھتیس سو تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ بڑا ہو کر یقیناً موسیقار بنے گا۔ کیونکہ پیدائش کے فوراً بعد اس نے بالکل صاف لہجے میں ”اے“ کا نعرہ لگایا تھا۔ ماں لنگوٹ دھو رہی تھی، انسٹی ٹیوٹ آف فشریز میں لیبارٹری کے نائب سربراہ کے دفتر میں پنکھا شور مچا رہا تھا۔ اور صبح ہو رہی تھی۔

کمپیوٹر میں سرسراہٹ ہو رہی تھی اور یہ پیغام کہ شیڈول تیار ہے اسکرین پر کانپ رہا تھا۔ سورج کھڑکی میں چمک رہا تھا اور کتابچے میں لکھی ہوئی ہر چیز اتنی واضح لگ رہی تھی کہ میں فوراً اسی طرح کے مزید درجن بھر کتابچے لکھنا چاہتا تھا۔ میں نے گراف پرنٹ کیے اور محسوس کیا کہ اسائمنٹ کا کام جو کل بہت ٹائٹینک لگ رہا تھا، اب مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ بس جو باقی رہ گیا تھا وہ صفحات کو باہم جوڑنا تھا اور میں صبح جاکر سپروائزر کو اپنے علم کی گہرائی سے متاثر کر سکتا تھا۔

مجھے مٹی کے تیل کا لیمپ نہ تو میز پر ملا، نہ میزانین پر، نہ کہیں اور۔

ماں نے مجھے بتایا کہ دس سال پہلے وہ اسے اپنے ایک دوست کے پاس لے گئی تھی۔ جسے کچھ نیم پیشہ ور تھیٹر پروڈکشن کے لیے اس طرح کے لیمپ کی ضرورت تھی۔ پھر ماں اور اس کا دوست دونوں ہی لیمپ کے بارے میں بھول گئے۔ دوست کہیں جا چکا تھا۔ اب ہم نئی موم بتیوں کا ایک پورا ڈبہ دالان میں رکھتے ہیں۔ تاکہ روشنی بجھ جانے کی صورت میں دقت نہ ہو۔ موم بتیاں ہمیشہ قابل رسائی جگہ پر رکھی جاتی ہیں تاکہ اندھیرے میں آسانی سے مل جائیں۔

 

 
 

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments