صحت کے مسائل اور گنگچھے


آپ لوگوں نے ایک مقولہ سنا ہو گا کہ دانہ کھا کر مرغی پرائے گھر انڈے دیتی ہے یعنی کھاتے کہیں اور ہیں جبکہ فائدہ مالک کے بجائے کسی اور کو دیتا ہے، ایسی مرغیوں کا علاج یا تو ڈربے میں بند رکھ کر ممکن ہے یا پھر چھری پھیر کر کام تمام کر کے کیا جاتا ہے تاکہ دانہ بھی بچت ہو اور متبادل مرغیاں رکھ کر فائدہ بھی حاصل کیا جا سکے۔

یہ صرف مرغیوں کی عادتیں نہیں ہے بلکہ کچھ چوپائے بھی ایسا کرتے ہیں اور کچھ اولاد آدم بھی ایسے افعال کے مرتکب نظر آتے ہیں، حل سب کا یہی مذکورہ آزمودہ فارمولا ہے۔ ضلع گنگچھے کے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور عوام کے ساتھ بھی یہی دھوکہ ہوا ہے۔ پورے ضلع میں صرف ایک بڑا ہسپتال ہے بظاہر تو ڈی ایچ کیو ہے اور کاغذی کارروائیوں کے مطابق یہاں ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں، اس ضلع میں دوسرے اضلاع کی طرح مستقل ڈاکٹرز بھی ہیں اور نئے ڈاکٹرز کے لئے کوئی اسامی خالی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت حال ان مفروضوں کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں صحت کے بنیادی سہولیات مفقود ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹرز کی بات ہے تو ڈی ایچ کیو میں نہ گائناکالوجسٹ ہے نہ آرتھوپیڈک سرجن، نہ ڈرماٹولوجسٹ ہے نہ یورولوجسٹ، نہ نیفرولوجسٹ ہے نہ نیورولوجسٹ، نہ گیسٹروانٹرولوجسٹ ہے نہ پیتھولوجسٹ، نہ آئی سپیشلسٹ ہے نہ ای این ٹی سپیلشلسٹ، اور تو اور پورا ہسپتال صرف ایک عدد میڈیکل سپیشلسٹ پر منحصر ہوتا ہے اور ان کا بھی تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

ڈاکٹرز کی تعداد کی یہ صورتحال ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ڈی ایچ کیو میں ڈاکٹرز کیوں موجود نہیں؟ کیا ضلع میں کوئی متبادل پراؤیٹ یا ملٹری بیسڈ ہسپتال وغیرہ ہے؟ اگر نہیں تو عوام کہاں جائے؟ کیا عوام کی صحت کا تحفظ سرکار کے ذمہ نہیں ہے؟ کیا سرکاری انتظامیہ نے اس کے لئے کچھ نہیں کیا؟ کیا عوامی منتخب نمائندوں نے اس حساس مسئلے کی حل کے لئے ایوانوں میں بات نہیں کی؟

جی ہاں ان تمام سوالوں کے جوابات انتہائی مایوس کن ہے۔ ضلع گنگچھے کے پے رول سلپ میں موجود 19 ڈاکٹرز تنخواہ یہاں سے لے رہے ہیں اور ڈیوٹی اپنی من پسند جگہوں، سکردو، گلگت، ہنزہ اور دیگر اضلاع میں دے رہے ہیں، یہ لوگ نہ یہاں ڈیوٹی دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ استعفوں کے لئے راضی ہے جس کے سبب یہاں نئے اسامی خالی بھی نہیں ہے جبکہ اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز یا تو بے روزگار ہیں یا دوسرے اضلاع میں اٹیچ ہونے پر مجبور ہیں۔

مذکورہ 19 ڈاکٹرز کے متعلق یہاں کی پبلک نے بار بار احتجاجی دھرنوں اور ریلیوں کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو واپس اسی ضلع میں بلائیں اگر وہ یہاں ڈیوٹی نہیں دینا چاہتے تو انہیں فارغ کر کے ضلع گنگچھے کے پے رول سلپ سے نکال دیں اور نئے ڈاکٹرز کے لئے ٹیسٹ انٹرویو کا اہتمام کریں لیکن سال گزرنے کے باوجود محکمہ صحت کے وعدے پورے نہیں ہوئے اور گنگچھے میں صحت کی وہی دگرگوں صورتحال ہے۔ آخر کون ہے ان گنے چنے ڈاکٹر مافیاز کے پیچھے جن کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران بھی فارغ نہ کر سکے نا ہی ضلع کے چار منتخب نمائندے ان کے خلاف ایکشن لے سکے!

اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ منتخب نمائندوں کی کیا کارکردگی رہی ہے حالانکہ یہی اصحاب تھے اور ان کی یہی زبان تھی جو کہتے تھے کہ ہم نے سب سے پہلے صحت کے مسائل حل کرنا ہے۔ عوام کو امروز کی صورتحال سے کچھ سیکھ کر مستقبل میں سوچ سمجھ کر چناؤ کرنے کے واسطے سوچنا چاہیے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ خطہ سٹریٹیجک بنیادوں پر بھی انتہائی حساس زون ہے کیونکہ پاکستان آرمی کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹر گوما، اور پاکستان آرمی کا گیاری سیکٹر بٹالین ہیڈ کوارٹر سیاچن گلیشیر سے 20 میل ( 32 کلومیٹر) مغرب میں واقع ہے جو کہ اسی ضلع میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں ایکچوئل گراؤنڈ پوزیشن لائن (اے جی پی ایل) سلترو بھی اسی ضلع کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اے جی پی ایل کا مشرقی علاقہ اس وقت بھارت کے زیر کنٹرول ہے۔ اس تناظر میں کسی بھی ایمرجنسی صورتحال میں صحت اور علاج کے کرائسز جنم لے سکتے ہیں لہذا اس ضلع میں ملٹری بیسڈ ہسپتال کا ہونا انتہائی ناگزیر ہے جو کہ فی الحال مفقود ہے، ارباب بست و کشاد ان خدشات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں کی ہیلتھ فیسیلیٹیز کے بارے سوچ سکتے ہیں۔

یہ ضلع ٹورازم کے حوالے سے بھی سیاحوں کی نظر میں ہے، جہاں دنیا کے بڑے بڑے پہاڑی سلسلے مشا بروم اور سیاچن گلیشیئرز اس ضلع میں موجود ہے وہاں قدرتی حسن سے مالا مال ٹورسٹ پوائنٹس بھی ہیں جن میں سر فہرست شاہی قلعہ خپلو، تھوقسی کھر، مسجد چقچن، مسجد، سلترو بیس کیمپ، دم سم میڈوز، ہوشے کونز، گرم چشمہ خرکوندوس، چھوربٹ پاک انڈیا بارڈر ایریاز، سوغا جھیل، سیلینگ میڈوز، تھلے وادی، ست رنگی جھیل براہ، بلغار میڈوز، کھرفق جھیل، یوگو ویلی اور کھشل ایگری ٹورازم پارک، اور وادی کریس مشہور ہیں۔ ان قدرتی نظاروں کو دیکھنے بین الاقوامی سیاحوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف گرم علاقوں سے لوکل سیاح جوق در جوق یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ٹورازم کے لئے دوسرے سہولیات کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں بھی ریفارمز لانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ خدانخواستہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے پیدا ہونے پر اس سے نمٹا جا سکے۔

ضلع گنگچھے کے ہسپتالوں میں جدید میڈیکل آلات کی غیر موجودگی کے بحث کے لئے یہی کافی ہے کہ پورے ضلع میں کہیں بھی MRI، CT مشین نہیں حالانکہ رقبے کے لحاظ سے یہ گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور اس کی جیوگرافیکل اہمیت اوپر بیان ہو چکی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قدر اہم اور حساس علاقہ کس قدر محرومیوں کا شکار ہے۔

پورے ضلع میں ایک عدد گائناکالوجسٹ نہیں ہے جس کے سبب زچہ دوسرے اضلاع ریفر کیا جاتا ہے نتیجتاً جوان مائیں روزانہ کی بنیاد پر یا تو اس کریٹیکل صورتحال میں سفری مشکلات برداشت نہ ہونے کی وجہ سے یا زچگی کے تکالیف سے خود لقمہ اجل بن جاتی ہیں یا نومولود بچہ آنکھ کھولنے سے پہلے ہی دم توڑ لیتا ہے، حال ہی میں اسی ضلع کے ایک دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی خاتون کو حسب معمول ڈی ایچ کیو ہسپتال خپلو سے ڈی ایچ کیو سکردو ریفر کیا گیا، سکردو پہنچ کر چیک اپ کے بعد کہا گیا کہ ان کا بیٹا مر چکا ہے۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اب تو یہاں کا معمول بن چکا ہے۔ گائناکالوجسٹ کی عدم تقرری کے خلاف پچھلے سال سول سوسائٹی کے زیر اہتمام کئی روز دھرنا دیا تھا لیکن اس وقت ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران نے وعدے کر کے دھرنا ختم کروایا تھا وہ تو بعد میں پتا چلا کہ کھلونے دے کے بہلائے گئے تھے، ابھی تک ڈی ایچ کیو خپلو ضلع گانچھے میں گائناکالوجسٹ غائب ہے اور نا ہی وہ 19 ڈاکٹرز واپس آئے یا انہیں فارغ کیے ہیں۔ عوام کا مطالبہ صرف یہی ہے کہ سب سے پہلے یہاں مستقل بنیادوں پر کم از کم دو گائناکالوجسٹ تعینات کیے جائیں اور جو 19 عدد ڈاکٹرز یہاں سے کھا رہے ہیں انہیں فوری واپس لائیں یا ان کو فارغ کر کے نئے ڈاکٹرز کے لئے ٹیسٹ انٹرویو کا اہتمام کرائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments