بابا ریڑھی والا


آج اتوار کا دن تھا میں ابھی اپنے بستر پے لیٹا ہوا ہی تھا کہ باہر سے کسی پھیری والے کی آواز آئی کہ تازہ سبزی آ گئی تازہ سبزی آ گئی،

یہ آواز تو تقریبا ہر دوسرے دن ہی سننے کو ملتی ہے لیکن آج یہ آواز کانوں میں پڑی جیسے بچپن کی حسین یادیں آنکھوں کے سامنے آ گئیں، جب ہر اتوار چکوال شہر سے ایک بابا ریڑھی والا جو گدھا گاڑی پر ہمارے گاؤں آتا تھا جو مختلف قسم کے چھوٹے بڑے پلاسٹک کے کھلونے، پلاسٹک کے برتن، لوہے سٹیل کے بھی کچھ برتن اپنی ریڑھی پر سجائے ہمارے گاؤں بیچنے آتا تھا۔

بابا جی نے ایک مکمل روٹ بنایا ہوا تھا بابا جی تقریبا دس بجے کے قریب گاؤں پہنچ جاتے تھے بابا جی جیسے ہی گاؤں میں آتے ہمارے محلے سے شروع کرتے ہر گلی سے ہوتے ہوئے پھر گاؤں ریلوے لائن والے محلے میں جاتے اس کے بعد مکمل ترتیب سے پورے گاؤں کی ہر گلی محلے میں جاتے تھے۔

بابا جی اتوار کے دن لازمی ہی آتے بہکڑی گاؤں آتے تھے میرے خیال سے کوئی اتوار کا ایسا دن خالی نہیں ہوتا تھا جب بابا جی گاؤں نہیں آتے تھے کبھی کبھار اگر موسم خراب ہو یا بابا جی کی صحت ٹھیک ناں ہو تو چھٹی کرتے تھے ورنہ وہ ہر اتوار روٹین سے آتے تھے، بابا جی کا انتظار بھی پورے گاؤں والے کرتے تھے کہ بابا جی آئیں اور مختلف پرانے جوتے، فالتو لوہا، خشک روٹی کے بدلے چیزیں خریدتے تھے۔

خیر یہ تو بات تھی کہ بابا جی کے پاس جو جو فالتو سامان ہوتا دے کر نئی چیزیں خرید لیتے تھے، اگر کوئی پیسوں کی بھی چیزیں خریدنا چاہتا ہو تو وہ پیسوں سے بھی خرید سکتا تھا۔

ہم بہن بھائیوں کا ایک ہی مشن ہوتا کہ جمعہ اور ہفتے والے دن بس پورے گھر کو چھان مارنا کہ کوئی فالتو ٹوٹا پھوٹا سامان مل جائے جو بابا جی کو دے کر یا تو ان کے پاس کھانے کے لیے پیلی کشمیر گھی والی بالٹی جو شاید پانچ کلو والی ہی ہوتی تھی اس میں خاص قسم کا پتیسہ ہوا کرتا تھا۔ اگر تھوڑے پیسے بنتے تو اکثر بابا جی بس سارے بہن بھائیوں کو تھوڑا تھوڑا پتیسہ دے کر ہی ٹرخا دیتے تھے جو اخبار کے کسی صفحے پر رکھ کر دیتے تھے لیکن وہ پتیسہ ہوتا بڑا مزیدار تھا

کبھی کبھار تو پورا پورا ہفتہ پرانا سامان اکٹھے کرتے رہتے تھے جس دن کچھ زیادہ وزن یا پیسے بن جاتے تو پلاسٹک کے بنے کھلونے لے لیتے تھے میرا پسندیدہ کھلونا ٹریکٹر ٹرالی ہوتا تھا جب میں وہ لے لیتا تو پھر سارا ٹریکٹر پر کھانے والی چمچ سے مٹی لوڈ کر کے کبھی ادھر کبھی ادھر بس ایسے ہی پورا دن مٹی میں کھیلتے رہتے کبھی ایک بڑی اینٹ درمیان میں رکھ کر اور دو اینٹیں سائیڈ پے کھڑی کر کے پل بناتے تھے اور خوب کھیلتے تھے محلے کے بھی باقی دوست ساتھ ہی کھیلتے تھے۔

یہ تو تھا کھلونوں کا ذکر اور بابا جی کی ریڑھی کی سب سے خاص بات تھی وہ انعامی لاٹری تھی جس میں مختلف چھوٹے انعام ہوا کرتے تھے، شاید وہ دو روپے کی تھی ایک گتے پر سکریچ کر کے نیچے نمبر ہوتا تھا اور ہر انعام پر نمبر درج ہوتا تھا جو جیتنے والے کو دیا جاتا تھا،

آج کل تو ان مختلف انعامی سکیموں نے عوام کو خوب دھوکہ دیا ہوا اور مختلف قسم کے حیلے بہانے سے سادہ لوح لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں۔

بابا جی اخلاق کے بہت اچھے تھے کسی سے فالتو کوئی بحث نہیں کرتے تھے گاؤں کی خواتین کو بیٹیوں کی نگاہ سے دیکھتے تھے بچوں سے بھی بڑے اچھے انداز سے پیش آتے تھے بابا جی نے داڑھی رکھی ہوئی تھی لیکن زیادہ تر بال سفید ہی تھے

بابا ریڑھی والے کا اتنا شدت سے انتظار کرتے تھے کہ کیا بتاؤں کبھی کبھار تو صبر جواب دے جاتا تو بڑی سڑک کے کنارے آ جاتے اس وقت مندرہ چکوال روڈ ڈبل نہیں ہوا تھا تو ایک کچے راستے کے ساتھ لگے بیری کے ایک پرانے درخت کے پاس آ کے دور دور تک نظر دوڑاتے کہ کہیں بابا جی نظر آ جائیں کہ آ رہے ہیں۔

کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ ہم پورا پورا ہفتہ پرانی چیزیں خشک روٹی وغیرہ اکٹھی کرتے رہتے تو اس اتوار بابا جی گاؤں آتے ہی نہیں تھے تو یقین کریں کہ دل اتنا اداس ہوتا کہ بابا جی پتہ نہیں کیوں نہیں آئے۔

بابا جی سے گاؤں کے لوگوں کا اتنا لگاؤ تھا کہ دن بھر پھیری کرتے اور پورے گاؤں کا چکر لگاتے تھے اور اکثر کھانا گاؤں کے ہی کسی گھر میں کھاتے تھے۔

اب تو واٹر کولر آ گئے ہیں اس وقت مجھے یاد ہے کہ ہمارے برآمدے میں مٹی کا گھڑا پڑا ہوتا تھا جس کے اور سٹیل کا بڑا سا گلاس بھی ہوتا جو بھر کے بابا جی کو دیتے تھے

کبھی کبھار اماں جی بابا سے گھر کے لیے ضروری کچھ برتن اور ہمارے کھانے کے لیے پتیسہ یا کھلونے لے دیتی تھیں۔

کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ ہم صبح صبح کہیں گئے ہوئے ہوں تو بابا جی محلے سے ہو جاتے تھے تو پھر شام مغرب تک گاؤں کی مین گلی کو دیکھتے رہتے تھے کہ اب آتے ہیں بابا اب آتے ہیں لیکن کئی بار وہ دوبارہ ریلوے لائن سے کچے راستے سے وہ واپس چکوال شہر کی طرف نکل جاتے تھے

میرے خیال سے بابا جی بتاتے تھے کہ میرا گھر اشرف ٹاؤن کے پاس ہے لیکن اس وقت اشرف ٹاؤن میں اتنی آبادی نہیں تھی جتنی اب ہو گی ہے۔

اب تو خیر میرا گاؤں بھی شہر کا ایک محلہ ہی لگتا ہے شہری آبادی اب گاؤں کے بالکل قریب ہی پہنچ گئی ہے۔ اب گاؤں اور شہر میں بالکل فرق نہیں رہا۔

بابا جی کے ساتھ ہماری بہت ہی حسین یادیں وابستہ ہیں بلکہ پورے گاؤں کے لوگوں کو بابا جی یقیناً یاد ہی ہوں گے۔ آج بھی جب کبھی وہ بچپن کے دن یاد کرتا ہوں تو بہت ہی اچھا لگتا ہے کہ کتنے خوبصورت دن ہوا کرتے تھے جب کوئی فکر نہیں ہوا کرتی تھی، سارا سارا دن خوب کھیل کود کرتے تھے کرکٹ میرا پسندیدہ کھیل تھا کسی دن کرکٹ کے متعلق بھی تفصیل سے لکھوں گا اب تو بیٹ بال کو ہاتھ لگائے بھی عرصہ ہو گیا ہے بس روزگار کے سلسلے میں ایسے پھنسے ہیں کہ بس سب کھیل بھول گئے۔

بابا جی کو بہت عرصہ ہو گیا ہے پھر نہیں دیکھا پتہ نہیں اب کسی حالت میں ہیں، میں نے کوئی تقریبا پندرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے میں نے ان کو دوبارہ کہیں نہیں دیکھا،

اگر تو وہ حیات ہیں تو خدا ان کو صحت کاملہ دے اور اگر تو اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو خدا ان کا جنتوں میں گھر کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments