تعلیمی ایمرجنسی، حکومت اور والدین


آج صبح صبح ایک اہم خبر میری منتظر تھی کہ حکومت پاکستان نے آئندہ چار سالوں کے لئے تعلیمی ایمرجنسی نافد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے تعلیمی بجٹ کو صفر اشاریہ پانچ ( 0.5 ) سے بڑھا کر آئندہ چار سالوں میں 5 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کے بیان کے مطابق پاکستان میں آؤٹ آف سکول بچوں کی تعداد 2 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ ہے۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ چار سالوں میں یہ تعداد کم کر کے 90 لاکھ تک لایا جائے گا عرصہ 25 سال سے درس و تدریس کے ساتھ وابستہ ہونے کی بنا پر تعلیمی مسائل میرے کالم کا ہمیشہ اہم موضوع رہا ہے۔

کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم کی موجودہ صورت حال کی درست اور واضح تصویر قارئین کے سامنے پیش کر سکوں تاکہ عوام اور اہل سیاست کے ساتھ منتظمین تعلیم بھی اس سے بہرہ مند ہو سکیں۔ پرویز مشرف کے دور سے لے کر عثمان بزدار کے دور تک، ایک شعبہ تعلیم ہی ایسا ہے جو تختہ ستم بن رہا ہے۔ سکول نہ جانے والے اور سکول چھوڑ کر جانے والے بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم دن بدن تعلیمی پستی کا شکار ہیں۔

2016 ء میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر رپورٹ جاری کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے۔ یونیسف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق۔ ”پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دنیا میں دوسری سب سے زیادہ تعداد (آؤٹ آف سکول چلڈرن) ہے جس کے اندازے کے مطابق 5۔ 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جاتے، جو اس عمر کے گروپ کی کل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔ 5 سے 9 سال کی عمر کے گروپ میں، 5 ملین بچے اسکولوں میں داخل نہیں ہیں اور پرائمری اسکول کی عمر کے بعد ، آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد دوگنی ہوجاتی ہے، 10 سے 14 سال کی عمر کے 11.4 ملین نوجوان رسمی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ جنس، سماجی و اقتصادی حیثیت اور جغرافیہ کی بنیاد پر تفاوت نمایاں ہیں۔ سندھ میں، 52 فیصد غریب ترین بچے ( 58 فیصد لڑکیاں ) اسکول سے باہر ہیں، اور بلوچستان میں، 78 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔ میں اس امر کا شاہد ہوں کہ حکومت پاکستان سکول نہ جانے والے بچوں کے لئے وقتاً فوقتاً ایسے منصوبہ جات شروع کرتی رہتی ہے جس کی بنا پر والدین بچوں کو سکول بھیجنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

مختلف کمیونٹی سکول، طلبہ و طالبات کے لئے تعلیمی وظائف کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لئے ہنر سکھانے کے مختلف پروگرام اور سکولوں میں ناشتہ کی فراہمی اور نجی سکولوں کے اشتراک کی مدد سے مفت تعلیم کے کے علاوہ“ وسیلہ تعلیم پروگرام۔ ماہانہ وظائف ”اس سلسلے کی اہم کڑی ہیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات، سیاسی کرپشن اور حکومتی ترجیحات اور مفادات کی تبدیلی کی وجہ سے یہ تمام پروگرام اکثر و بیشتر تعطل کا شکار ہی رہتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام اقدامات کے باوجود حکومت ابھی تک اپنے اہداف پورا کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو بچوں کو سکول نہ بھیجنے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہے۔ ریاست کسی بھی بچے کے لئے تعلیم کا بندوبست تو کرتی ہے لیکن بچے کو مدرسے میں بھیجنے کا سب سے اہم فریضہ والدین کا ہوتا ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کا فائدہ اس وقت ہو گا جب والدین کو مجبور کیا جائے کہ وہ ہر حال میں اپنے بچے کو سکول بھیجیں، اس مقصد کے حصول کے لئے ریاست کو قانون سازی کرنی چاہیے۔

اگر والدین اپنے بچے کو مدرسے یعنی سکول نہیں بھیجتے تو بزور طاقت انہیں سرزنش یا سزا کے ذریعے پابند کیا جائے کہ وہ ہر حال میں اپنے بچے کو سکول بھیجیں۔ رہی بات ان تمام طلباء و طالبات کی جو دوران تعلیم، سکول کو خیر باد کہہ جاتے ہیں تو اس میں سب سے اہم عنصر مناسب امتحانی نظام کی کمی اور بچوں کی تعلیم میں عدم دلچسپی ہے۔ جس میں سب سے اہم کردار اساتذہ کے ساتھ ساتھ ریاست کا ہوتا ہے۔ اگر ریاست ایسے اقدامات کرے کہ ہر فارغ التحصیل طالب علم کو کسی نہ کسی شعبہ میں کھپانے اور اس کے ذہنی رجحان کو دیکھتے ہوئے مناسب شعبہ اختیار کرنے کا حق دیا جائے تو طلباء کی تعلیم میں دلچسپی بڑھے گی اور وہ لامحالہ سکول چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کریں گے۔

انسانی نفسیات ہے کہ وہ ذہنی آزادی بھی چاہتا ہے اس لئے میرے ذاتی خیال میں بچے کو پانچویں جماعت کے بعد اپنی پسند کے مضمون میں داخلہ دیا جائے اور اس کو انگریزی، مطالعہ پاکستان، جغرافیہ، تاریخ اور اردو جیسے ان تمام لازمی مضامین سے جان چھڑوائی جائے، جن کا واحد مقصد بچے کے بستے کا بوجھ بڑھانا ہے۔ سیکنڈری اور ایلیمنٹری جماعتوں کے اکثر طالب علم صرف انگلش اور ریاضی میں عدم دلچسپی کی وجہ سے امتحان میں ناکام ہو جاتے ہیں، اگر ایک طالب علم انگلش میں ناکام ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے اس کی دلچسپی کسی اور مضمون میں ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انجینئر کی بجائے ڈاکٹر بننا چاہتا ہو لیکن ہمارا نصاب اسے ہر حال میں میٹرک تک، یعنی کم از کم 13 سال تک اسے ریاضی جیسا خشک مضمون سمجھنے، پڑھنے اور ذہن نشین کرنے پر مجبور کرتا ہے اور یہی حال انگریزی کا ہے۔

دیکھا جائے تو آج کے اس دور جدید میں ایک غیر تعلیم یافتہ شخص بھی بخوبی ٹرانسلیٹر ایپ، سافٹ وئیر یا ویب سائٹس کی مدد سے ایک مکمل مضمون کا با آسانی اپنی مادری زبان میں ترجمہ کر سکتا ہے اور اپنی مقامی زبان کے مضمون کو انگریزی میں تبدیل کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے نظام تعلیم کی سب سے بڑی خامی بھی یہی ہے کہ یہ طالب علم کی موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کی بجائے اس کو تعلیمی اخراجات کی رسید دینے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔

بچہ سکول سے اس وقت بھاگتا ہے، جب اس کو والدین یا ماحول مجبور کرتا ہے۔ والدین کا اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا بچہ جلد از جلد با روزگار ہو کر والد کا بوجھ بانٹ سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے والدین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کسی ہوٹل، دفتر یا ورکشاپ پر بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ دیکھا جائے تو ارزاں اشیاء کی فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دن بدن بڑھتی ہوئی آسائشی اشیاء اور معاشرے میں مقابلے کے رجحان کی وجہ سے معاشرے کا ہر شہری پریشان ہے لیکن قناعت اور بچت پر کوئی اکتفا نہیں کرتا۔

شاید ہم میں سے چند افراد نے غور کیا ہو گا کہ کسی بھی کم عمر بچے کی پہلی کمائی کا سب سے بڑا حصہ سمارٹ فون خریدنے پر صرف ہو جاتا ہے۔ آپ غور کریں کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں گھر کا چاہے چولہا جلے یا نہ جلے، گھر ہو یا نہ ہو لیکن ہر گھر میں ہر بالغ فرد ایک عدد سمارٹ فون کا مالک ضرور ہو گا۔ ظاہر ہے اگر کسی گھر میں تین سے چار موبائل ہوں گے تو ہر ماہ کم از کم موبائل اور نیٹ پیکج پر بھی چار سے پانچ ہزار خرچ آئے گا۔

بچہ سکول سے اس وقت بھی بھاگتا ہے جب اس کا رہنما اس پر مکمل توجہ نہیں دیتا، میرے خیال میں بلوغت سے پہلے بچے کے دو اہم رہنما والدین اور اساتذہ ہیں اگر یہ دونوں ہستیاں اپنے اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیں تو ہمارے معاشرے کا ہر بچہ اپنی تعلیم لازمی مکمل کرے گا۔ ہمارے معاشرے کا تعلیم کا سب سے بڑا بوجھ استاد کے نازک کاندھوں پر ہے۔ اگر بچہ سکول میں ابھی تک داخل نہیں ہوا تو اساتذہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اس کے گھر جائیں اور والدین کی منت ترلا کر کے بچے کو داخل کریں اور اگر سکول چھوڑ گیا ہے تو اسے واپس لایا جائے۔

اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے اساتذہ خود بچے کا نام ہی خارج نہیں کرتے، جس کی بنا پر بوگس حاضری کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اساتذہ کی غیر تدریسی ڈیوٹیاں (پولیو، مردم شماری، راشن تقسیم، انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال، امتحانی مراکز پر) نہیں ہونی چاہیئیں تاکہ وہ مکمل تندہی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کر سکیں۔ میری محترم وزیر اعظم اور تمام صوبوں کے وزراء تعلیم سے خصوصی گزارش ہے کہ تعلیمی بجٹ کو ان وجوہات کا تدارک کرنے پر صرف کیا جائے جن کی وجہ سے بچے سکول نہیں آتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments