سیاست کی ڈگڈگی


8 فروری قریب ہے، انتخابی دنگل اپنے عروج پر ہے۔ امیدوار جھوٹے وعدوں، سبز باغوں، بلند بانگ دعوؤں کے رنگ برنگے لنگوٹ کسے سیاسی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اس سیاسی دنگل اپنے ریفری اتار نے کو تیار بیٹھا ہے لیکن لیول پلیئنگ فیلڈ پہ کافی شد و مد سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ ایک سیاسی دنگل ہونے کے ناتے اس میں جسمانی کی بجائے دماغی اور ذہنی طور پر مضبوط امیدوار شطرنج کی بساط بچھائے حلوے سے بھی میٹھے منصوبہ جات ہاتھی کے دانت کی طرح کھانے اور دکھانے کو بے چین ہے۔

اس الیکشن میں بھی مجھے کوئی خاص مزہ نہیں آ رہا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں بس اپنی لفاظی کے جال بچھا کر ووٹرز کو مطمئن کرنے میں مگن ہیں۔ سیاسی مداری ڈگڈگی ہاتھ میں پکڑے اپنے اپنے بچے جمہورے لئے عوام کے سامنے اپنے اپنے تصوراتی کرشمے بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ بچے جمہورے تو منہ پہ رنگ و روغن کرتے ہیں لیکن سیاسی جمہوروں نے اپنی اپنی کروڑوں کی گاڑیوں کو رنگ و روغن کر لیا ہے۔ اپنے اپنے رہنما کی نظر میں شرف قبولیت حاصل کرنے کے لئے دن رات، آگے پیچھے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ امیدوار کا ایک پیر ایک بچے جمہورے کی گاڑی میں ہوتا ہے تو دوسرا پیر کسی اور مرید کی گاڑی میں، کوئی امیدواران کے ہاتھ چومنے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی پھولوں کی مالا ایسے ڈال رہا ہے جیسے یہ امیدوار نہیں کوئی نیا نویلا دولہا ہو، کوئی ایسے بھی ہیں جو اپنے من پسند لیڈر کو کندھے پہ بٹھا کے جلسہ گاہ میں پہنچا رہے ہیں۔ میں نے ایک مخدوم کی کارنر میٹنگ کی ویڈیو دیکھی کہ اس کے ریڈ کارپٹ استقبال کی خاطر مریدین نے 200 فٹ مقامی دست کاروں کی تیار شدہ ”رلی“ ( رنگین کپڑوں کے ٹکڑوں سے تیار شدہ مقامی بیڈ شیٹ ) بچھا رکھی تھی۔

حالت یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے ابھی تک ملک کے معاشی، تعلیمی اور معاشرتی مسائل سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل پیش نہیں کیا۔ ملکی سیاسی صورت حال اس وقت یک طرفہ نظر آ رہی ہے۔ نامی گرامی سیاسی پہلوان یا تو خود میدان میں اتر چکے ہیں اپنے شاگردان عزیز یعنی اپنی اولاد کی سیاسی راہ ہموار کرنے میں لگا ہے۔ میں بھی ضیاء الحق اور مشرف کے ریفرنڈم کے علاوہ 1985 ء سے 2024 ء تک منعقد ہونے والے تمام انتخابات کا عینی شاہد ہوں اور اتنا جانتا ہوں کہ ہماری عوام کو جھوٹے وعدوں اور دعوؤں سے بہلانا بہت آسان ہے۔ انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت کے نمائندوں میں تعلیم کی شعور کی کمی تو ہو سکتی ہے لیکن عوام کو بہلانے کے گر اسے ازبر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کسی بھی جماعت کو کامیاب کروانے میں اہم کردار ادا کرتا آیا ہے۔

میں جمہوریت سے اس قدر واقف ہوں جتنا مجھے شاعر مشرق نے بتایا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت ہے جس میں میں کسی بھی فرد کی بلوغت، نظریات اور شعور کی پیمائش کرنے کی بجائے افراد کی اکثریت اور اقلیت کو پیمانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں موجود افراد کی اکثریت نظریاتی اور شعوری طور پر کمزور ہے، تو وہ اپنے بنیادی حقوق سے نابلد ہونے کی وجہ سے ایسے جمہوری نمائندے منتخب کریں گے جو ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے، انہیں اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے میں کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے، اسے دوسرے الفاظ میں ہم ہارس ٹریڈنگ یا لوٹا کریسی کا نام دیتے ہیں۔

افسر شاہی، مقتدرہ اور عدلیہ کی چیرہ دستیوں کی داستانیں تو سب سنتے آئے ہیں لیکن کسی نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ان عدلیہ، افسر شاہی اور مقتدرہ کے ایوان میں پہنچنے کے لئے کوئی میرٹ ہوتا ہے اور ہر شخص اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر ہی کوئی مقام حاصل کرتا ہے لیکن صرف سیاست ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس کے لئے کسی میرٹ اور محنت کی ضرورت نہیں ہے، بس اپنی لچھے دار باتوں سے عوام کو بے وقف بنائیں، چند ٹاؤٹ اور چٹی دلال ساتھ رکھیں، یا اپنے حلقے سے ایسے سادہ لوح افراد کا انتخاب کریں جن کو عوامی خدمت کا شوق چرایا ہو۔

قسمت چاہے ساتھ دے یا نہ دے، آپ کے ارد گرد ایسے مفاد پرست عناصر کا تانتا بندھ جائے گا جو سستی شہرت کے ساتھ ساتھ، آپ کی مقبولیت کو مختلف دفاتر میں کیش کروانے کا کام کرتے ہیں۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو آپ کے پاس ایک جھنڈا لگی گاڑی کے ساتھ ساتھ ہوائی سفری سہولیات اور دوران سفر یا تقریب وی آئی پی پروٹوکول مفت میں دستیاب ہو گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم جو نمائندے منتخب کرتے ہیں ان کا حقیقی کام قانون سازی ہے ور اسی کام کا وہ ایک بھاری معاوضہ لینے کے ساتھ ساتھ ایک پر تعیش سہولیات بھی حاصل کرتے ہیں لیکن اپنے حلقے میں ہونے والے ہر ترقیاتی کام کی افتتاحی اینٹ اور تختی پر ان کا نام کیوں کندہ کروایا جاتا ہے؟

ہر محکمے میں ہونے والی کسی خاص تقریب میں انہیں مہمان اعزاز کیوں بنایا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ یہ مقامی بادشاہ اپنے بڑے کی سیاسی جماعت کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ میں نے اب بھی اپنے حلقے کے تمام امیدواران کے سامنے فرشی سلام کرتے اور گھٹنے چھوتے لوگوں کی کئی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ ان گھٹنے چھونے والوں کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ مرکز میں جا کر ان کے نمائندے ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی بجائے انہی کی مانند اپنی جماعت کے کسی بڑے کے گھٹنے چھوتے ہیں۔

میرے حلقہ کے کئی امیدوار آج بھی اپنے اپنے سیاسی جلسوں میں دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ میں نے اپنے سابقہ دور میں فلاں علاقے کو فلاں ترقیاتی منصوبہ دیا، لیکن آپ میں سے کوئی مجھے اس بات کی وضاحت کرے گا کہ کیا کسی امیدوار نے اپنی جیب سے ایک فلٹریشن پلانٹ نصب کروایا ہے؟ کسی بیوہ کی مدد کی ہو یا مسجد و جنازہ گاہ کی تعمیر کے لئے اپنی جیب خاص سے کچھ عطا کیا ہو۔ لیکن ہمارے ٹیکس سے عیاشیاں کرنے والے یہ تمام سیاستدان مقننہ کے ایوان میں آپ کے حقوق کی جنگ لڑنے کی بجائے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں یاد رہے کہ ہر اجلاس کے لئے بھاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ ان کو بھاری ٹی اے /ڈی اے بھی دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 15 ویں قومی اسمبلی نے 322 قوانین پاس کیے ، اس اسمبلی نے بہت بڑی تعداد میں نجی بل بھی پاس کیے ، نجی اراکین کے پاس کردہ بلوں کی تعداد 99 رہی۔ دیکھا جائے پانچ سالوں کے 60 کے دوران ہر ماہ صرف پانچ سے چھ قوانین ہی پاس ہوئے ہیں اور اگر مزید چھان بین کی جائے تو ان میں سے چند قوانین ہی مفاد عامہ کے لئے منظور کیے گئے ہیں، اور اس پہ اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ اربوں میں ہو گا۔

حالیہ انتخابات میں ابھی تک سوائے نعروں کی تبدیلی کے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنا منشور پیش نہیں کر سکی، عوام ان سیاسی مداریوں کی سحر کاریوں میں اتنی جکڑی ہوئی ہے کہ ہر جماعت کے مرکزی رہنما کو اپنا نجات دھندا سمجھتے ہوئے دن رات اپنے اپنے آئیڈیل کے گن گاتی نظر آئی گی، حالانکہ تمام جماعتوں کی سابقہ کار کردگی ہماری عوام کے سامنے ہے۔ میں نے اک محفل میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس الیکشن میں جو بھی جماعت اقتدار میں آئے گی، ہارنے والی جماعت نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے، پہلے دن سے ہی اسمبلیاں توڑنے سے کم بات پہ راضی نہیں ہونا اور جو سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی، اس نے کون سا مستقبل کے لئے لائحہ عمل بنایا ہوا ہے؟

اس جماعت نے بھی قومی خزانے پہ ہاتھ صاف کرنے، اغیار کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ملک چلانے اور عوام کو سبسڈی کے نام پر بے وقوف بنانے کے کوئی کام نہیں کر نا۔ مجھے کسی ایسے فرد کا بتا دیں جس نے ہماری قوم کے لئے دن رات ایک کر کے ایسا طویل المدتی منصوبہ بنایا ہو، جس سے ہم بھک منگے کی بجائے ایک عظیم قوم بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments