گندم کی بالیاں، سورج کی کرنیں اور چرچل


” اقتدار بدمعاشوں، لچوں لفنگوں اور مفت خوروں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ تمام ہندوستانی سیاسی رہنما ناکارہ اور ایسے پست ذہنیت والے لوگ ہوں گے جن کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہو گا۔ یہ میٹھی اور چرب زبان والے لیکن دل کے کٹھور ہوں گے اقتدار حاصل کرنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا رہیں گے اور ہندوستان سیاسی جھگڑوں میں گم ہو جائے گا ایک دن آئے گا جب ہندوستان میں ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگے گا۔“

یہ ونسٹن چرچل کی تقریر کا ایک اقتباس ہے۔ ان خیالات کا اظہار چرچل نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں 20 فروری 1947 کو بحیثیت قائد حزب اختلاف کے رہنما اور کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ کے، طور پر کیا تھا۔ اس دن برطانوی وزیراعظم اور لیبر پارٹی کے سربراہ کلینمٹ اٹیلی نے ہندوستان کو 30 جون 1948 تک مکمل آزادی دینے کا اعلان کیا تھا۔ چرچل نے ہندوستان کو آزادی دینے کی شدید ترین مخالفت کی تھی۔ چرچل کی تقریر میں ”ہندوستان“ کا مطلب موجودہ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تھا کیونکہ 1947 سے پہلے یہ تمام ممالک ہندوستان کا ہی حصہ تھے۔

موجودہ ہندوستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے حکمرانوں کے روز و شب اور حرکات و سکنات بھی کوئی بہت قابل رشک نہیں ہیں لیکن ان دونوں ممالک نے کم از کم اپنی اپنی آزادیوں کے بعد ایک آئین تشکیل دے کر اس پر عمل درآمد شروع کر دیا اور دونوں ممالک میں جیسی تیسی جمہوری حکومتیں بھی قائم ہو گئیں۔ پاکستان آزادی کے پہلے 9 سال سر زمین بے آئین رہا۔ خدا خدا کر کے 1956 میں آئین تیار ہوا جو صرف ایک سال دس مہینے نافذ العمل رہ کر خاکی بوٹوں تلے مسل دیا گیا۔

بنگلہ دیش چونکہ 25 سال پاکستان کی صحبت میں رہا تھا اس لیے اس نے کچھ وقت کے لیے فوجی حکومتوں کے ہچکولے کھائے لیکن پھر اس نے بھی اپنی سمت درست کر لی۔ ان دونوں ممالک نے اپنی اپنی معاشی منصوبہ بندی بھی مستحکم بنیادوں پر استوار کر لی۔ آج ہندوستان معاشی ترقی میں اپنے استعماری آقا برطانیہ سے آگے نکل گیا ہے اور بقول ہمارے بھوکے بنگالیوں کا دیس بنگلہ دیش ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمدات میں چین اور بھارت کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر کپاس کا ایک ریشہ بھی کاشت نہیں کیا جاتا۔

1947 سے پہلے کے ہندوستان میں ہم واحد خطہ ہیں جو پچھلے 76 سال سے مسلسل چرچل کی تقریری اقتباس پر من و عن عمل کر رہے ہیں بلکہ اس کی توقعات اور امیدوں سے بڑھ کر بدعنوانیوں، ذاتی اور گروہی جھگڑوں اور نا انصافیوں کے ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ چر چل بیچارے نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ہندوستانی حکمران ہوا اور پانی پر ٹیکس لگا دیں گے۔ ہمارا ”حکمران ٹولہ“ تو پچھلے دنوں ”سورج کی کرنوں“ پر بھی ٹیکس لگانے کے لیے سوچ بچار کر رہا تھا۔ جب عوام کی طرف سے ہا ہا کار مچی تو حکومتی حلقوں سے کچھ دبی دبی آوازیں سنائی دیں کہ فی الحال حکومت کا سولر پینل استعمال کرنے والے بجلی کے صارفین پر ٹیکس لگانے کا ارادہ نہیں۔ یعنی ابھی بھی صرف ارادہ ملتوی کیا گیا ہے ارادہ ختم نہیں کیا گیا۔

میں نے پاکستان کے لیے ”حکمران ٹولے“ کی اصطلاح اس لئے استعمال کی ہے کہ چرچل کا ویژن یہاں بھی کمزور ثابت ہوا اور اس نے صرف ہندوستانی سیاسی رہنماؤں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ پاکستان میں سیاسی افراد کے شانہ بشانہ اسٹیبلشمنٹ کی چھڑی بردار جماعت عدلیہ کے سنہری کڑھائی والے سیاہ عبائیں زیب تن کیے ہوئے منصف، زمین کے کاروبار میں ملوث ٹھیکے دار اور نوکر شاہی کے کارندے بھی شامل ہیں۔ یہ سب برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ افراد کی باقیات ہیں۔ یہ ذاتی مفادات کی خاطر اکثر و بیشتر آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ لیکن عوام کا خون چوسنے اور ان کو پریشان کرنے کے لئے باہم شیر و شکر رہتے ہیں اور یہ ہی چوں چوں کا مر بہ پاکستان کا ”حکمران ٹولہ“ کہلاتا ہے جس نے 76 سالوں میں عوام کی چولیں ہلا ڈالیں ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے میرے دیس میں گندم کی سنہری بالیاں ان ہی سورج کی کرنوں کی تمازت میں جن پر حکومت ٹیکس لگانے کا منصوبہ بنا رہی تھی پک کر تیار ہوئیں۔ کسانوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے کیونکہ فصل نہایت شاندار ہوئی تھی۔ نئی نویلی جیسی تیسی موجودہ جمہوری حکومت نے اپنے گندم ذخیرہ کرنے والے گو داموں کو چیک کیا تو، غلط یا صحیح یہ انکشاف ہوا کہ گندم کے سرکاری گودام پہلے ہی لبالب بھرے ہوئے ہیں اور مزید گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں اس لیے نئی فصل کی گندم کی سرکاری خریداری نہیں کی جا سکتی۔

یہ خبر سن کر چھوٹے زمینداروں اور کسانوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ بجائے اس کے کہ حکمران، کسانوں کی اشک شوئی کا کوئی اوپائے کرتے حکمران ٹولے کے دو سرکردہ افراد اس مسئلے پر اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں گتھم گتھا ہو گئے اور ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر دی۔ وہ لاکھوں کسان جنہوں نے کبھی پنج ستارہ ہوٹل کے دروازے کی شکل بھی نہ دیکھی ہوگی، اپنی غیر فروخت شدہ گندم کے ڈھیروں پر حسرت ویاس کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور اس سوچ بچار میں ہیں کہ آنے والی امکانی بارشوں کے ریلے سے اپنی گندم کو کیسے بچائیں۔

روایت ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان نے راولپنڈی کے کمپنی باغ میں جو اب انہی کے نام سے موسوم ہے اپنی شہادت کے وقت آخری الفاظ یہ ادا کئیے تھے ”خدا پاکستان کی حفاظت کرے“ ۔ میں تو ہر روز اس دعا کا ورد کرتا ہوں، ساتھ میں یہ امید بھی کرتا ہوں کہ کاش ہمیں کوئی ایک ایسا حکمران نصیب ہو جائے جو کم سے کم چرچل کی ایک آدھ پیش گوئی کو ہی غلط ثابت کردے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments