اے این پی انٹرا پارٹی انتخابات


عوامی نیشنل پارٹی نے سابق مرکزی صدر اسفند یار ولی خان کو عرصہ دراز سے سیاسی منظر سے غائب رہنے کے بعد رہبر تحریک کے منصب پر بٹھا کر ان کے فرزند سینیٹر ایمل ولی خان کو ان کے جانشین کے طور پر پارٹی کا مرکزی صدر منتخب کر لیا ہے ان کے ساتھ ان کی کابینہ کے دوسرے عہدیداروں کا بھی چناؤ کر لیا گیا ہے تاہم نئی کابینہ میں پارٹی کے سابق ترجمان اور سینیٹر زاہد خان، سابق وزیر اعلیٰ اور سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور بزرگ راہنما حاجی غلام احمد بلور کے علاوہ کئی اور پرانے چہروں کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔

پارٹی کے حالیہ انتخابات کی ایک اور نمایاں بات بریگیڈیئر (ر) محمد سلیم خان کی بطور مرکزی سیکرٹری جنرل پارٹی کے کسی اہم ترین عہدے پر کسی ریٹائرڈ فوجی افسر کی حیثیت میں تعیناتی ہے۔ انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد مرکزی الیکشن کمشنر میاں افتخار حسین کی صدارت میں باچا خان مرکز پشاور میں ہوا جس میں چاروں صوبوں سے پارٹی کی مرکزی کونسل کے اراکین نے شرکت کی۔ سینیٹر ایمل ولی خان کا نام برائے مرکزی صدارت امیر حیدر خان ہوتی نے تجویز کیا جس کی مرکزی کونسل کے تمام ارکان نے اتفاق رائے سے منظوری دی۔ جب کہ اس موقع پر امیر حیدر خان ہوتی نے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کو رہبر تحریک کا منصب دینے کی تجویز بھی دی جس کی تمام شرکاء نے متفقہ طور پر منظوری دی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل یہ منصب اسفندیار ولی خان کے والد بزرگوار خان عبدالولی خان مرحوم کے لئے مخصوص تھا۔

اے این پی میں مرکزی صدر سمیت دیگر عہدوں پر انتخابات کے نام پر نامزدگیوں کا ڈھونگ ایک ایسے موقعے پر رچایا گیا ہے جب اے این پی کو اس کے سابق مرکزی صدر اسفندیار ولی خان جو کہ علالت کے باعث کئی سال سے غیر فعال ہیں اور ان کے فرزند ارجمند اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی قیادت میں 8 فروری کے انتخابات میں عبرتناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، یہی نہیں بلکہ اے این پی جو 2008 سے 2013 تک صوبائی حکومت کی مختار کل تھی کو اپنی ناقص کارکردگی اور کرپشن کے بے پناہ الزامات کی وجہ سے پہلے 2013 اور بعد میں 2018 کے عام انتخابات میں بدترین انتخابی شکستوں سے دوچار ہونا پڑا تھا اور حالیہ انتخابات میں یہ پہلا موقع ہے کہ اے این پی کی قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے اور صوبائی اسمبلی میں بھی اسے ایک اکلوتی نشست پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔

فروری 2024 کے تاریخی دھاندلی زدہ انتخابات کے نتائج اور ان کے نتیجے میں بننے والی ہائبرڈ حکومتوں کے تناظر میں انتخابی عمل سے مصنوعی طریقوں کے ذریعے آؤٹ کی جانے والی جینوئن سیاسی جماعتوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ نہ صرف ان انتخابی نتائج کے خلاف کوئی موثر آواز اٹھائیں گی بلکہ اپنی صفوں کو درست کرتے ہوئے ان میں حقیقی اور جینوئن جمہوری کلچر کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل کے ذریعے سیاست اور جمہوری عمل میں در آنے والے گند کی اجتماعی صفائی پربھی توجہ دیں گی لیکن بشمول اے این پی ان شکست سے دوچار کی جانے والی قوتوں کے ارادوں اور کارکردگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت اور جینوئن سیاسی قوتوں کی بالادستی کے خواب کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں۔

اے این پی جیسی جمہوریت اور ترقی پسند جماعت کی جانب سے مرکزی اور صوبائی عہدوں پر تعیناتی کے لیے انٹرا پارٹی انتخابات کے نام سے عہدوں کی بندر بانٹ کا جو ڈھونگ رچایا گیا ہے اس سے ہماری سیاسی جماعتوں کی جمہوریت نوازی اور سیاست میں ان کی سنجیدگی قوم پر ایک بار پھر عیاں ہو گئی ہے۔ اے این پی جو ماضی میں اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے ہماری لولی لنگڑی جمہوریت میں بطور ایک معتبر جماعت پہچانی جاتی تھی اب اس نے اگر ایک طرف ملکی سیاست پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) ، ایم کیو ایم اور جمعیت (ف) کے ناموں سے ناگ کی طرح پھن پھیلائے قابض سیاسی اشرافیہ کی تقلید کرتے ہوئے اپنی انٹرا پارٹی انتخابات میں ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کو بھی داغ مفارقت دیتے ہوئے مشرف بہ نامزدگی کر دیا ہے تو دوسری جانب ہر حال میں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کے لیے تمام تر اصول (اگر کچھ تھے ) کو قربان کرتے ہوئے پہلے مصنوعی طریقے سے زرداری فارمولہ اپلائی کر کے اے این پی کے نومنتخب سربراہ ایمل ولی خان سینیٹ میں پہنچ چکے ہیں اور اب انہوں نے اپنے ساتھ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بریگیڈیئر (ر) محمد سلیم خان کو مرکزی سیکرٹری جنرل مقرر کر کے مقتدر حلقوں کو جہاں راہ و رسم بڑھانے کا گرین سگنل دیا ہے وہاں ان حلقوں تک رسائی کے لیے ایک زینہ بھی فراہم کر دیا گیا ہے جس سے اے این پی کے مستقبل کے سیاسی عزائم کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اے این پی بریگیڈیئر (ر) محمد سلیم خان کی تعیناتی کو اسٹبلشمنٹ سے کسی ممکنہ قربت کی پالیسی قرار دینے سے یہ کہہ کر انکاری ہے کہ بریگیڈیئر (ر) محمد سلیم خان کو ان کے فوجی پس منظر کی وجہ سے نہیں بلکہ اے این پی کے سابق راہنما افضل خان لالہ کا فرزند ہونے کے ناتے موجودہ عہدے پر تعینات کیا گیا ہے ۔ اگر اے این پی کے اس موقف کو درست بھی مان لیا جائے تو تب بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ افضل خان لالہ کا فرزند ہونے کے علاوہ بریگیڈیئر صاحب کی پارٹی کے لیے خدمات اور یا پھر ان کی سیاسی ساکھ کیا ہیں اور پارٹی کے کئی سرکردہ نامی گرامی راہنماؤں کو نظر انداز کر کے پارٹی میں ایک غیر مانوس چہرے کو ایک نمایاں پوزیشن دینے کے پیچھے آخر کون سے عوامل کار فرمائیں ان عوامل کے بارے میں جہاندیدہ لوگوں کا استدلال ہے کہ ان کا اندازہ آنے والے دنوں میں ایمل ولی خان کو ملنے والے کسی بھی ممکنہ اعلیٰ حکومتی عہدے سے ہم سب پر خود بخود آشکار ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments