حرکت کا سائنسی تصور (2)


ٹائیکو براہی نے 1572 میں ہونے والے سپرنووا دھماکے کا مشاہدہ کیا۔ اور یونہی 1604 کے مشہور کپلر سپرنووا کا مشاہدہ گلیلیو تک پہنچا۔ گلیلیو کی تجرباتی ذہانت اور علمی دیانت داری نے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ ارسطو کے برعکس آسمانی اجسام ناقابل فنا نہیں ہیں۔ گلیلیو نے ہی اپنی بنائی ریفریکٹو دوربین جو کسی شے کو قریب تیس گنا بڑا دکھا سکتی تھی، کی مدد سے 1609 میں چاند کی سطح کا بغور مشاہدہ کیا بتایا کہ چاند کی سطح ہموار نہیں ہے اور اس پر پہاڑ اور گڑھے بھی پائے جاتے ہیں جو سورج کی روشنی کو مختلف زاویوں پر منعکس کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

یوں چاند کی وہ مطلق حیثیت جو ارسطو کے دور سے چلی آ رہی تھی کہ وہ ایک کامل جسم ہے، قائم نہ رہ سکی۔ اگلے سال 1610 کے آغاز میں گلیلیو نے دوربین کا رخ سیارہ مشتری کی جانب موڑا اور کئی راتوں کے مشاہدے سے اخذ کیا کہ چار چھوٹے اجسام مشتری کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور یوں اس نے مشتری کے چاند دریافت کیے ۔ اس سے ارسطو کے پیروکاروں کو ایک اور دھچکا لگا کیونکہ ان کے مطابق تو تمام اجرام فلکی کو زمین کے گرد ہی چکر لگانا چاہیے تھا جبکہ یہاں چار چاند مشتری کے گرد چکر لگانے میں لگے تھے۔

بطلیموس کے زمین مرکز نظام کی رہی سہی کسر زحل کے مدار نے نکال دی کیونکہ اس کا مدار ہماری زمین کے چاند جیسی حالتیں رکھتا تھا۔ ارسطو کا خیال تھا کہ اشیاء اس رفتار سے گرتی ہیں جو ان کے وزن کے متناسب ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر آپ ایک لکڑی کی چیز اور ایک ہی سائز کی دھات کی چیز لیتے ہیں اور ان دونوں کو گراتے ہیں، تو دھات کی بھاری چیز متناسب طور پر تیز رفتاری سے گرے گی۔ گلیلیو نے بتایا کہ مطلق خلا میں بھاری و ہلکے اجسام کو زمین پر ایک اونچائی سے گرایا جائے تو کسی مدافعت کی عدم موجودگی میں تمام اجسام ایک ہی رفتار سے زمین پر گرتے ہیں۔ اور کسی واسطے جیسے ہوا کی موجودگی میں یہ رفتار بہت جلد ایک مستقل رفتار یعنی ٹرمینل ولاسٹی میں بدل جاتی ہے۔ گلیلیو کے تجربات کی فہرست بہت لمبی ہے مگر ان کے بیان کرنے کا مقصد اس سائنس کو سمجھنا ہے جس کے بارے خود گلیلو نے اپنے الفاظ میں یوں پیش بینی کی تھی،

”یہ اور دیگر حقائق، اگرچہ بلحاظ تعداد کم نہیں یا کم جاننے کے لائق نہیں، میں جو ثابت کرنے میں کامیاب ہوا ہوں اور جس چیز کو میں زیادہ اہم سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان تجربات نے اس وسیع اور بہترین سائنسی علم کا رستہ کھول دیا ہے جس میں میرا کام محض اس کا آغاز، اس کے طریقے اور اس علم تک پہنچنے کے ذرائع بتانا ہیں جن کے ذریعے آنے والے مجھ سے زیادہ تیز دماغ اس کے دور دراز کونوں کو تلاش کریں گے“ (دو نئی سائنسز، گلیلیو گلیلی، مکمیلان کمپنی، نیویارک، 1914 )

تجربات کے ذریعے اشیاء کی ظاہری خصوصیات معلوم کرنا اور پھر انہیں ایک عمومی اصول کی شکل میں بیان کرنا، سائنسی طریقہ کار کی بنیاد ہے۔ یہ اشیاء کی وہ خصوصیات ہیں جنہیں فلسفی اعراض کا نام دیتے تھے۔ ارسطو کی تقلید میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ اشیاء کی ماہیت، جوہر اور اعراض کا مجموعہ ہے۔ لیکن جدید سائنس نے ثابت کیا کہ فلسفیوں کا جوہر کا تصور لایعنی ہے۔ اشیاء کی ماہیت صرف اور صرف اعراض سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ نیوٹن نے ان اعراض کے لئے ظاہری خصوصیات یا manifest qualities کی اصطلاح استعمال کی ہے جنہیں وہ ارسطو کے مقلدین کی من گھڑت اصطلاح یعنی مخفی خصوصیات یا hidden qualities کے مقابلے میں پیش کرتا ہے۔ نیوٹن اپنی کتاب ”آپٹکس“ کے آخری حصے میں لکھتا ہے،

” ان اصولوں (ماس، کشش ثقل، ہم آہنگی وغیرہ) کو میں اشیاء کی صورتوں سے ماخوذ پراسرار خصوصیات نہیں سمجھتا بلکہ یہ اصول فطرت کے عمومی قوانین ہیں جن کی بدولت اشیاء کی مخصوص شکلیں بنتی ہیں۔ یہ اصول ہم مظاہر سے اخذ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان اصولوں کے حتمی اسباب ابھی دریافت ہونے ہیں۔ ان اصولوں کو ہم ظاہری خصوصیات یا manifest qualities کا نام دیتے ہیں، اور ان کے اسباب ہیں جن کو فی الحال نامعلوم کہتے ہیں۔ جبکہ ارسطو کے پیروکار ان ظاہری خصوصیات کو پراسرار قرار نہیں دیتے بلکہ وہ جن کو پراسرار کہتے ہیں وہ اشیاء کے باطن میں چھپی کوئی فرضی چیزیں ہیں“ (آپٹکس، آئزک نیوٹن، کتاب سوم، صفحہ 401، ڈوور پبلی کیشنز نیویارک، 1952 )

گویا ارسطوئی تصور جوہر کی نفی کر کے ہی سائنس میں ترقی ممکن ہوئی ہے۔ کیونکہ جوہر ایک ایسی چیز ہے جو پراسرار ہے اور اسے اشیاء کے باطن سے جوڑا جاتا ہے اور اس کا مشاہدہ یا تجربہ ناممکن ہے۔ جبکہ ظاہری صفات وہ ہیں جو عام مشاہدے میں آتی ہیں اور ان پر تجربہ ہو سکتا ہے۔ یونہی ارسطو اور اس کے پیروکاروں کا تصور حرکت جو قوۃ اور فعل پر مشتمل تھا، وہ بھی درست نہیں ہے اور اس کی مدد سے جدید سائنس تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ خود نیوٹن یہ بتاتا ہے کہ کیسے سینکڑوں سالوں تک ارسطو کی اندھی تقلید سے علم کا رستہ بند رہا۔ وہ لکھتا ہے،

”ارسطو کی ان پراسرار خصوصیات کے تصور نے فطری فلسفے (سائنس) کی ترقی کو روکے رکھا اور اسی لئے آخری عہد تک (نیوٹن کے عہد تک، مترجم) کا انکار کیا جا چکا ہے۔ یہ کہنا کہ اشیاء کی تمام اقسام میں کوئی پراسرار خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بدولت یہ اشیاء حرکت کرتی ہیں یا اثرات پیدا کرتی ہیں، ہمیں دنیا کے بارے کچھ نہیں بتاتا۔“ (آپٹکس، آئزک نیوٹن، کتاب سوم، صفحہ 401، ڈوور پبلی کیشنز نیویارک، 1952 )

ستم ظریفی دیکھئے کہ جن پراسرار کیٹیگریز کو نیوٹن نے کئی سال پہلے رد کیا اور یہ بتایا کہ کیسے سائنسی ترقی میں یہ فرسودہ باتیں رکاوٹ بنتی ہیں، مسلم فلسفی اسی دور میں ان فرسودہ باتوں پر ہزاروں صفحات کی تشریحیں چھاپتے رہے اور آج بھی ان کے پیروکار اس جہل مرکب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملا صدرا اور ان کی پیروی میں طباطبائی وغیرہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا فلسفہ اصالت وجود مسلم دنیا کی علمی ترقی میں رکاوٹ بن چکا ہے۔

سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ وجود اصل نہیں ہے بلکہ ماہیت اصل ہے۔ خارج میں ہم ماہیتوں کا ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔ وجود، اشیاء کی دیگر ظاہری صفات کی طرح ہی ایک صفت ہے۔ گویا اگر ظاہری صفات کو غیر اصل قرار دے دیا جائے تو وجود بھی غیر حقیقی ہی کہلائے گا۔ دوسری طرف ملا صدرا کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے جس میں وہ نمک کی پراسراریت پر الجھے دکھائی پڑتے ہیں،

” حرکت جوہری کی بحث میں دقت کرنے سے آپ کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ جوہر عالم مادہ ایک ایسا وجود ہے جو عین حرکت ہے، جیسے نمک ایک ایسا وجود ہے جو عین نمکینی ہے۔ لھٰذا نمک کو نمکینی نہیں دی گئی بلکہ اسے ایک ایسا وجود دیا ہے کہ وہ وجود اس مرتبے میں عین نمکینی ہے، لہذا جوہر عالم مادہ کو اس کے خالق نے حرکت نہیں دی جو اس کا خالق خود بھی حرکت کا حامل ہو بلکہ اس نے اسے وجود دیا ہے کہ وہ وجود عین حرکت ہے۔ اسی وجہ سے خدا کے لیے حامل حرکت ہونا لازم نہیں آتا۔ بلکہ اس کے لیے عین وجود ہونا لازم آتا ہے۔“ (اسفار اربعہ، ملاصدرا، جلد سوم، فصل 21، صفحہ 68، بیروت)

بہرحال، نیوٹن نے حرکت کا تصور دریافت کرنے میں قوۃ و فعل کے بجائے اشیاء کی ظاہری صفات کے مشاہدے پر زور دیا ہے جس کو نیوٹن اپنی مشہور کتاب ”پرنسپیا“ کے دیباچے میں یوں بیان کرتا ہے،

” حرکت کے مظاہر سے فطرت کی قوتوں یا فورسز کو اخذ کیا جائے اور پھر ان قوتوں سے دوسرے مظاہر کی وضاحت کی جائے۔“ (پرنسپیا، آئزک نیوٹن، دیباچہ صفحہ 19، ناشر ڈینئل اڈی نیویارک، 1846 )

فورس یا قوت سے مراد خارجی قوت ہے جس کا ارسطو کے تصور ’قوٰۃ‘ یا potentiality سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جدید فزکس میں حرکت مختلف اجسام پر لگنے والی مختلف خارجی فورسز کا نتیجہ ہے۔ ہم فورسز اور ان کے عمل میں پیدا ہونے والے ایکسلریشن یا اسراع کو مساواتوں کی شکل میں ظاہر کر سکتے ہیں۔ ان مساواتوں کو پھر الجبرا کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے۔ حرکت کی مساواتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اگر ایک خاص لمحے پر کسی جسم کی پوزیشن یا مقام معلوم ہو تو ہم کچھ وقت بعد اس جسم کی حرکت کی پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کس مقام پر یا کس رفتار سے کدھر جا رہا ہو گا۔

اپنی کتاب پرنسپیا ہی میں نیوٹن نے مشہور قانون کشش ثقل gravity پیش کیا۔ اس اصول کے مطابق کسی بھی جسم کی دوسرے بھاری جسم کے گرد مدار میں حرکت کی وجہ کشش ثقل کی خارجی قوت ہے۔ ارسطو کے پیروکار سمجھتے تھے کہ چونکہ ہر شے اپنی ’فطری حالت‘ کو لوٹنا چاہتی ہے اور زمین کا مرکز پتھر کی فطری حالت ہے اس لئے پتھر اپنی فطری حالت یعنی زمین کے مرکز کی طرف نیچے گرتا ہے۔ مگر نیوٹن نے واضح کیا کہ پتھر کی حرکت کا پتھر کی فطری حالت سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ کشش ثقل کی قوت ہے اور یہ ہر دو بھاری اجسام کے درمیان ایک ہی فارمولے سے نکالی جاتی ہے اور مختلف اجسام پر تجربات کر کے اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اسی قوت کے زیر اثر زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد مداروں میں حرکت کرتے ہیں۔ گویا نیوٹن نے ایک زمینی مظہر کو فلکی مظہر سے جوڑ دکھایا اور کائنات میں زمین کی مرکزی حیثیت اور ساکن ہونے کی نفی پیش کی۔

نیوٹن نے اپنی کتاب ”آپٹکس“ میں پرزم سے نکلنے والی سفید روشنی کے سات رنگوں میں بکھرنے کا تصور پیش کیا۔ اس سے پہلے یہ تصور عام تھا کہ پرزم سے نکلنے والے رنگ دراصل شیشے کی کوئی خاصیت کی وجہ سے ہیں جبکہ روشنی خود رنگوں پر مشتمل نہیں ہوتی۔ نیوٹن نے واضح کیا کہ روشنی خود رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور سفید روشنی میں موجود ہر رنگ جب پرزم میں سے گزرتا ہے تو پرزم کے رفریکٹو انڈیکس refractive indexکے باعث اپنی طول موج wavelength کے لحاظ سے ذرا مختلف زاویے پر باہر نکلتا ہے۔ یوں اس نے قوس قزح کے رنگوں کی وضاحت بھی پیش کر دی کہ کیسے سورج سے آنے والی روشنی کی شعاعیں پانی کے ذرات سے ٹکرا کر رنگوں میں بکھر جاتی ہیں۔

اس نے کرومیٹک ابریشن chromatic aberration کو کم کرنے کے لئے reflecting telescope بھی ایجاد کی جس کی مدد سے کسی دوربین کی دور دراز اشیاء کو دیکھنے اور تحلیل کی کرنے کی صلاحیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اسی طرح کی دوربین استعمال ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوٹن رنگز Newton rings جیسے مظاہر کے تجربات خود کیے جو کہ روشنی کے مظہر انٹرفییئرنس کی وضاحت کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ روشنی کو ذرات پر مشتمل سمجھتا تھا جبکہ اس کے دیگر معاصر جیسے رابرٹ ہک اور ہائیگنز Huygens وغیرہ نے اسے لہروں پر مشتمل قرار دیا جو کہ کلاسیکی پیمانے پر درست ہے۔

اگرچہ ہائیگنز انہیں مادی لہریں کہتا تھا مگر میکسول نے بعد میں اپنی مساواتوں سے ثابت کیا کہ یہ برقناطیسی لہروں پر مشتمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب رابرٹ ہک نے نیوٹن پر الزام لگایا کہ وہ روشنی کے ذرات ہونے کو بطور ”مفروضہ“ پیش کر رہا ہے تو نیوٹن نے اس کی شدید مخالفت کی اور اس کے نام خط میں لکھا کہ ایسا مفروضہ کسی کام کا نہیں جس کی بنیاد کافی تجربات پر نہ رکھی گئی ہو چاہے اس کے لئے وافر ریاضیاتی دلائل ہی کیوں نہ دیے جائیں۔ اس لئے وہ اپنے روشنی کے ذرات ہونے کی بات کو اتنا اہم قرار نہیں دیتا جتنا ان باتوں کو جن پر اس نے تجربات سے نتائج نکالے ہیں۔ اس سے نیوٹن کی تجربیت پسندی واضح ہے۔

نیوٹن نے اپنے تصور infinitesimal کی مدد سے رفتار کی نئی تعریف پیش کی کہ رفتار دراصل کسی جسم کے مقام کی وقت کے کسی infinitesimal یا لمحاتی وقفے میں تبدیلی ہے جسے پوزیشن کا derivative بھی کہا جاتا ہے۔ یونہی کسی خم دار سطح کے اندر موجود رقبے area under the curve کی وضاحت کے لئے اس نے جیومیٹری کے بجائے integration کا طریقہ دریافت کیا۔ کیلکولس کی دریافت نیوٹن کے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ کیلکولس کی مدد سے اب ہم نئے مظاہر کی نہ صرف وضاحت کر سکتے ہیں بلکہ ان کی دیگر ممکنہ شکلوں کی پیش بینی کر سکتے ہیں جو پہلے معلوم نہ تھیں۔

گلیلیو نے اپنی کتاب The Assayer میں فطرت کے مطالعے میں ریاضی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ، ”اس عظیم کتاب یعنی کائنات کی زبان ریاضی ہے اور اس کے حروف مثلثیں، دائرے اور علم الہندسہ کی دیگر چیزیں ہیں“ ۔ اس کے برعکس نیوٹن صرف خالص ریاضی یا جیومیٹری کو ہی سائنس کی بنیاد نہیں سمجھتا تھا۔ بلکہ اس نے تجربات کو سائنس کی اہم کسوٹی قرار دیا۔ اپنی کتاب ”یونیورسل ارتھمیٹکس“ میں اس نے تجربے کی اہمیت پر اتنا زور دیا ہے کہ اسے تجربیت پسند کہنا نامناسب نہیں لگتا۔ یہ ایک بہت عجیب بات ہے کہ جس شخص کا تخیل ریاضی میں اس قدر گہرا اور پیوست رہا وہ تجربے میں بھی کسی سے کم نہیں رہا۔

بیشتر جگہ اپنی تحریروں میں نیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ خالص ریاضی اکثر ہوبہو حقیقی دنیا کی وضاحت کے لئے ناکافی ہوتا ہے اس لئے تجربات کی روشنی میں اپنے ریاضیاتی تصورات کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ فزکس میں اعلیٰ تعلیم پانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا بھر کی جامعات میں ریاضیاتی فزکس mathematical physics کے کورسز لینا لازمی ہوتا ہے۔ اب تو بہرحال شماریاتی میکانیات statistical mechanics کو پڑھنا بھی لازم قرار دیا جاتا ہے۔

کیلکولس کی بنیادی باتیں اور نیوٹن کے قوانین حرکت آج میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی کلاس میں سکھا دی جاتی ہیں۔ ان بنیادی تصورات کے بغیر سائنس کے تصور حرکت کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں لوگ جن صوفی نما لوگوں کو سائنس کے رد میں لاتے ہیں ان کے ہاں یہ جدید سائنسی تصورات دور دور تک نہیں ملتے کیونکہ انہوں نے دنیا کو سمجھنے میں ظاہری صفات کے بجائے یونانی فلاسفہ کی پیروی میں پراسرار باطنیت پیش کی ہے۔ یوں جب کبھی تقلید پرست لوگ جنہوں نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا یا بنیادی سائنس نہیں سیکھی، زمین کے ساکن ہونے یا حرکت جوہری جیسے فرسودہ نظریات کا دفاع کرتے ہیں تو ان کے دلائل میٹرک کے طالبعلم کے سامنے بھی ہیچ اور بھونڈے معلوم ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments