گندم، تربوز اور دانشوروں کی لڑائی


بہت دنوں سے گندم پہ جنگ جاری تھی اور ابھی اس سے پہلے کہ اس جنگ میں سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے سفید جھنڈا لہرایا جاتا تربوز کسی بم کی طرح پھٹ پڑا ہے۔

میں بہت مدت سے یہ تماشا دیکھ رہی ہوں آج سوچا کچھ لکھ بھی دوں۔ میرا تعلق ایک دیہات سے ہے اور میرے رشتے داروں سمیت ہم خود بھی ایک دو ایکڑ والے عام چھوٹے کسان ہیں۔

سب سے پہلے تو گندم کی کٹائی شروع ہونے پہ کچھ فیس بکی دانشور جنہوں نے کبھی کھیت کا منہ نہیں دیکھا ہو گا یہ مشورہ دیتے نظر آئے کہ شہری نوجوانوں کو جو بے روزگار ہیں یا چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں فوراً کسی گاؤں جا کر گندم کی کٹائی شروع کر دینی چاہیے۔ چار پانچ لوگ مل کر ہفتے میں دس ایکڑ گندم کاٹیں گے اور فی ایکڑ پانچ من گندم ملے گی یوں فی بندہ مہینے میں سال بھر کی گندم اور لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔

میں ایمانداری سے کہوں تو یہ پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آتی رہی گندم کی کٹائی ہوتے دیکھنا اور اندازے لگانا بہت آسان ہے مگر عمل مشکل۔ ہم ایک ایکڑ کی کٹائی کرتے ہیں تو ناخنوں سے گوشت الگ ہو جاتا ہے، پیروں میں کیکر کے کانٹے چبھ جاتے ہیں، ہاتھوں پہ چھالے بن کر پھٹ جاتے ہیں اور چہرے کا رنگ جھلس کر سیاہ ہو جاتا ہے۔ ابھی ہم اس آب و ہوا اور مشقت کے کچھ نہ کچھ عادی ہیں ایک بندہ جس نے کبھی گندم نہیں کاٹی اس کے لیے تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ یہ انہیں لوگوں کا کام ہے جو سخت کام کے عادی ہوں۔

پھر گندم کی فصل آنے پہ ریٹ کسانوں کی توقع سے ایک ہزار روپے کم تھا۔ اب یہاں ایک بات سمجھنے والی ہے کہ کسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو ہماری طرح ایک دو ایکڑ کاشت کرتے ہیں اور گندم کھانے کے لیے گھر رکھ لیتے ہیں اور اضافی گندم قرض ادا کرنے اور اگلی فصل کی کاشت کے لیے فوراً بیچ دیتے ہیں بھلے دام کچھ بھی ملے۔

دوسرے وہ ہیں جن کی زمین دس بیس یا سو دو سو ایکڑ ہوتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ مقدار میں کھاد سپرے خریدتے اور اناج بیچتے ہیں اس لیے ان کے اتنے تعلقات ہوتے ہیں کہ یہ پتہ چلا سکیں ریٹ کب زیادہ ملے گا اور انہیں زیادہ جلدی بھی نہیں ہوتی چھ ماہ تک بھی فصل سٹور کر سکتے ہیں۔ یہ عام طور پہ چھوٹے کسانوں سے زیادہ رولا ڈالتے ہیں یعنی فیسبک پہ ”ہائے ہماری گندم رل گئی“ کہنے والے یہی ہوتے ہیں۔

اب بات ہو جائے گندم کے ریٹ کی تو ہمارے کچھ دانشوروں کا خیال ہے اچھا ہوا گندم سستی ہو کر غریب کی پہنچ میں آ گئی اور پچھلے سال جب ریٹ توقع سے زیادہ ملا تب کسانوں نے رولا کیوں نہیں ڈالا۔

یہاں یہ بات ان دانشوروں کو سمجھ نہیں آئی کے جب توقع سے زیادہ ریٹ ملے تو کسان اگلے برس وہ فصل زیادہ کاشت کرتے ہیں اور اس بار پانچ سات سال پہلے جو کھاد تین چار ہزار کی ملتی تھی وہی پندرہ سولہ ہزار پہ ملتی رہی ہے وہ بھی بلیک میں اور ڈیزل بھی سو سے تین سو تک پہنچا ہوا تھا ایسے میں ریٹ بڑھتا نہ بھی تو پچھلے برس سے ہزار پندرہ سو گر جانا بھی نہیں چاہیے تھا۔ اس بار سچ میں کسانوں کو حکومتی گندم درآمد کی ناقص حکمت عملی سے نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کسانوں کے ساتھ ساتھ کچھ مہینے گندم خرید کر لاکھوں روپے منافع کمانے والے الحاج سٹاکیے بھی شدید پریشان ہیں۔

اب گندم پہ دونوں گروہ کوئی نتیجہ نہ نکال سکے تو کسی ڈاکٹر صاحب نے تربوز کا بم چلا دیا۔ یوں تو ہم پاکستانی ہر شے میں ہی ملاوٹ کے استاد ہیں یہی وجہ ہے ہمیں ہر ملاوٹی شے کے نام سے پہلے خالص ہونے کی تہمت لگانا پڑتی ہے۔ اس لیے کسی نے تربوز میں ٹیکے کا کہہ دیا تو پریشانی کی کوئی بات نہیں صرف تربوز ہی نہیں ہر شے خریدتے وقت ٹھونک بجا کر تسلی کیا کریں۔

اب وہ کسان اور سٹاکیے جو پہلے ہی گندم سستی ہونے پہ بھرے بیٹھے تھے انہوں نے یہ رولا ڈال دیا کہ ڈاکٹر کی ویڈیو سے تو کسانوں کا کروڑوں کا نقصان ہو گیا۔

ہائے ے ے بیچارے تربوز تو پینتیس سالہ ایک ارب لڑکیوں کی طرح گاہک سے رشتے کے لیے منتظر ہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے ویڈیو میں جواب دے دیا ہے کہ ”ایہناں نہیں جے بچناں ایہناں نوں لہور لے جاؤ“ ۔ (یہ نہیں بچیں گے لاعلاج ہیں )

میرے خیال سے کسی کی ویڈیو سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم تو بیماری میں ڈاکٹر کی بتائی پرہیز نہیں مانتے اور کہتے ہیں ”بندہ کھاندا پیندا مر جائیے تے خیر اے“ (بندہ کھاتے پیتے مر جائے تو خیر ہے ) ایسے میں ویڈیو ”کنے سیریس لینی اے؟“ (ویڈیو سے کچھ نہیں ہوتا) عمران خان اس وقت تک پاکستان میں بے شمار اندھے عقیدت مند رکھتے ہیں جن کے لیے خان کل بھی ہیرو تھا آج بھی ولی ہے اور تب تو وہ وزیراعظم بھی تھے مگر ان کے مرغیاں پالنے کے مشورے پہ کتنے لوگوں نے عمل کیا؟ یقین کیجے ویڈیو سے فائدہ نقصان ہونا ہوتا تو شجرکاری کی ویڈیو دیکھ کر عوام ملک کو جنگل بنا دیتے، وطن عزیز پولیو سے نجات پا چکا ہوتا، عوام بچے دو ہی اچھے پیدا کرنا مناسب سمجھتے اور آپ کو سڑکوں پہ شاپر نہیں مرغیاں اڑتی نظر آتیں۔

مجھے دکھ ان بھولے لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو ان جعلی دانشوروں کی جعلی لڑائیوں میں وقت اور توانائی برباد کرتے ہیں کاش وہ لوگ یہ وقت پڑھنے لکھنے یا کم از کم کوئی فلم دیکھ کر برباد کریں تو زیادہ خوش آئند ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments