کرغیزستان سے آنے والے طلبا کے لیے مافیا کا نیا منصوبہ


ہمارا ملک تعلیم، انتظام، تجارت، خدمات، سفارت، سیاست، انصاف اور ہر شعبہ میں کسی نہ کسی مافیا کے مکمل اختیار میں آ گیا ہے۔ ملک چلانے اور انتظام سنبھالنے کے لیے دنیا میں قوانین ہوتے ہیں، ادارے ان قوانین کی روشنی میں ملک کا نظام چلا رہے ہوتے ہیں، اس سلسلے میں وہ صرف ملک کے مفاد کا سوچتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ یہاں سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یہاں جو بھی ادارہ ہے وہ اپنا فرائض منصبی نبھانے کی جگہ اپنا اختیار اور طاقت جو اس نظام کو قانون کے تابع رکھنے کے لیے اسے دیا گیا ہوتا ہے اسے اس کے خلاف کام کرنے والوں کے حق میں استعمال کرتا ہے۔

ملک میں سمگلنگ کی ایک مثال دی جا سکتی ہے۔ سمگلنگ کرنے والے یہ دھندا کسٹم، ایکسائز، ضلعی انتظامیہ، بارڈر پولیس اور دیگر فورسز کے تعاون و اشتراک سے کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ اس لیے ملک میں ہر جگہ ایرانی ڈیزل اور مصنوعات اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ لگتا ہے ہم تہران یا مشہد میں ہیں۔ یہ ساری سمگلنگ کسی ایک سوٹ کیس میں بند کر کے کسی کی آنکھ چھپا کر نہیں کی جا رہی بلکہ لاکھوں گاڑیوں میں بھر بھر کر ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بارڈر اور سمندری بندرگاہوں اور علاقوں سے لا کر تحصیلوں، ضلعوں، ڈویژنوں، صوبوں کی حدود سے گزار کر پاکستان کے کونے کونے میں پہنچائے جا رہے ہیں۔

مالاکنڈ اور سابقہ قبائلی علاقوں میں گیارہ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں پہنچ گئیں بغیر ٹیکس، بغیر کسی ڈیوٹی کے یہ کیسے ممکن ہو گیا، یہ سلسلہ مزید ترقی کر رہا ہے پہلے یہ کام چھپ چھپا کر کیا جاتا تھا اب چک درہ اور سوات، دیر میں سینکڑوں موٹر بارگین سینٹرز ہیں۔ جہاں روزانہ سینکڑوں گاڑیاں آتی ہیں۔ اور ان بارگینوں میں بیٹھے ہوئے کاروباریوں کے موبائل فون میں ہزاروں گاڑیوں کی تصویریں اور تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ جو گاڑی آپ پسند کرتے ہیں وہ ایک ہفتے میں افغانستان سے یا پھر چمن سے چک درہ یا سوات پہنچا دی جاتی ہے۔

یہ سب کام حکومتی انتظامی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ مگر قانون کی کتاب میں یہ جرم ہے اور ملک کی معیشت کے لیے زہر قاتل ہے۔ لیکن اب ذرا سمگلنگ کو چھوڑ کر تعلیم کے میدان میں دیکھیں، کرغیزستان کے تین شہروں میں خطیر رقم لے کر ہزاروں کی تعداد میں طلبا کو فراڈ اور دو نمبر میڈیکل کالجوں میں داخلہ دلوا کر پاکستان میں بااختیار سہولت کاروں کی مدد سے ان میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کو قانونی قرار دینا اور پھر وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر آنے والوں کو جن کی تعلیمی قابلیت اور استعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے یہاں امتحانوں میں پاس کرنا، انہیں پریکٹس کرنے اجازت دینا، پاکستان کے بہترین سرکاری میڈیکل کالجوں کے فارغ التحصیل کوالیفائیڈ ڈاکٹروں کے مقابلے میں ترجیح دے کر نوکریاں دینا۔

یہ سب کام کتنے آسان کر دیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں جو مافیاز ہیں وہ طاقتور بھی ہیں اور ہمارے نظام کی رگ رگ سے بھی واقف ہیں کہ یہاں پیسے دے کر آپ سب کچھ کر سکتے ہیں، لوگوں کو اداروں کو اور ضمیروں کو خرید سکتے ہیں۔ اب جب حقیقت دنیا کے اور خصوصاً پاکستان کے لوگوں کے سامنے آ گئی ہے کہ یہ ایک گھناؤنا کاروبار ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی صحت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دی جائے گی جو عالمی اور ملکی معیار طب پر کسی بھی صورت پورا نہیں اترتے۔

حالیہ واقعات سے یہ مافیا بے نقاب ہو گیا ہے ان پر اخباروں میں خبریں آ رہی ہیں، لوگ کالم لکھ رہے ہیں، ٹی وی پر پروگرام ہو رہے ہیں۔ مگر مجال ہے کہ حکومت نے ان کرداروں، حکومتی اداروں میں ان کے سہولت کاروں کو کچھ کہا ہو، کسی عدالت نے ان سے کچھ پوچھا ہو، ملک کا کوئی ادارہ جو اس طرح کی کاموں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ہیں حرکت میں آیا ہو۔ بلکہ یہ مافیا اس صورتحال کو اپنی مزید اور کئی گنا زیادہ کمائی کا ذریعہ بنانے کا تہیہ کرچکا ہے اور اس کام کے لیے پھر سے حکومت اور اداروں کا استعمال کیا جائے گا۔

ان غریب طالب علموں کو مزید لوٹنے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ ان کو اب پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اس لیے کہ میڈیکل کالجوں میں تو ایم بی بی ایس ہے، یہ ایم ڈی کر رہے تھے۔ نصاب اور نظام تعلیم کا فرق، پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں جو میرٹ تھا طلبا کو لینے کے لیے اور جو جو معیارات تھے ان پر ان میں سے کوئی بھی طالب علم پورا نہیں اترتا۔

اور نہ ہی ان طالب علموں میں اتنی سکت ہے کہ وہ یہاں کوئی پروفیشنل امتحان پاس کرسکیں۔ نہ ان کی انگریزی اتنی اچھی ہے کہ وہ ایڈوانس لیول پر قابل بچوں کا مقابلہ کرسکیں۔ مگر مافیاز اس کو ممکن بنا دیں گے۔ خصوصاً پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا حکومتی آشیر باد اور منظوری سے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں سیٹوں کا کوٹہ دوگنا یا پھر اس سے بھی زیادہ کیا جائے گا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز ویسے بھی کاروبار ہی کرتے ہیں، وہ اس کو پیسے کمانے کا نیا زبردست ذریعہ سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔

اور یوں ہزاروں کی تعداد میں ان کو نئے گاہک مل جائیں گے جن سے وہ اربوں روپے وصول کریں گے۔ اس وقت بھی پرائیویٹ میڈیکل کالجز پاکستان طلبا سے وفاقی اعلی تعلیم کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ پیسے سالانہ کما رہے ہیں۔ اگر آپ کو شک ہو تو پاکستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد ان میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد اور ان کے سالانہ فیسوں کو کیلکولیٹر لے کر جمع کر دیں۔ ایک منٹ میں حقیقت آپ کے سامنے آ جائے گی۔ کرغیزستان پلٹ طلبا کے لیے لیکن یہ کام یہ مافیا مفت میں نہیں کرے گی بلکہ اس کے بدلے ہر ایک سے دس سے پندرہ لاکھ روپے وصول کیے جائیں گے۔

اور پھر ان کو ہر امتحان میں پاس کرنے کے لیے بھی ریٹ مقرر کیے جائیں گے۔ حکومت فوراً سیاسی شہرت کے لیے اس کا اعلان کردے گی مگر یہ منصوبہ مافیاز نے بنایا ہے اور اس کی آڑ میں وہ بیٹھے بٹھائے اربوں روپے کمائیں گے۔ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ لوگ تیار بیٹھے ہیں جنہوں نے پہلے ان دو نمبر اور فراڈ یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں کی ڈگریوں کو پاکستان میں تسلیم کروایا تھا۔ اس ملک میں یہ سارے فراڈ کمال مہارت کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔

لوگوں کو سیاست اور دیگر ڈراموں میں الجھا کر ایسی ایسی وارداتیں ڈالی جاتی ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ چینی مافیا، گندم مافیا، ادویات مافیا، ڈیزل مافیا، رئیل سٹیٹ مافیا، ٹیکس چور مافیا، آئی پی پیز مافیا، گیس مافیا، لینڈ مافیا، ٹمبر مافیا، کھاد مافیا، بیج مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، واٹر ٹینکر مافیا، قبضہ مافیا، چیمبرز مافیا، پوسٹنگ ٹرانسفر مافیا، ڈرگ مافیا، لینڈ مافیا، سیاسی مافیاز، میڈیائی مافیاز آپ گنتے گنتے تھک جائیں گے مگر ان کی قطار ختم نہیں ہو گی۔

یہ سارے مافیاز خود سے فعال نہیں ہوسکتے ان کو آکسیجن حکومتی اہلکار اور سیاسی حکمران فراہم کرتے ہیں۔ ان کی پرورش ایوانوں میں ہوتی ہے اور حفاظت عدالتوں میں اور وکالت میڈیا اور اخبارات میں کی جاتی ہے۔ مگر یہ مافیاز ملک کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک میں غربت اور لاقانونیت میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ ملک کی دولت چند افراد کی مٹھی میں جمع ہوجاتی ہے، حکومتی انتظام اور قانون کی بالادستی ختم ہوجاتی ہے۔

ایسے میں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی، ملک خود بخود تباہ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہمارا ملک ہو رہا ہے۔ جہاں صنعتیں بند ہو رہی ہیں، لوگ گیس بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے لوگوں کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے۔ مگر اسٹاک ایکسچینج ریکارڈ توڑ ترقی کر رہا ہے اور بینکوں کے منافع میں لاکھوں گنا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ سب مافیاز کی وجہ سے حکومت میں موجود ادارے کرپشن کرتے ہیں، حکومت قرض لیتی ہے اور ان مافیاز کو نوازنے کے لیے شرح سود بائیس فیصد پر رکھ کر سالانہ کھربوں روپے دیے جاتے ہیں۔

ملک میں بجلی کی صورتحال کس سے پوشیدہ ہے مگر صرف کپیسٹی چارجز کی مد میں سالانہ یہ مافیاز کھربوں روپے لے جاتے ہیں۔ اب تو ان مافیاز نے بچے بھی دیے ہوئے ہیں جتنے نیچے آتے جائیں ان کے چھوٹے چھوٹے بچے آپ کو مل جائیں گے۔ اس ملک کو اگر ترقی کی راہ پر لگانا ہے تو ان سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ کرغیزستان اور اس طرح کی دوسرے مقامات جہاں لے جاکر ہمارے اپنے ہی لوگ اس ملک کے بچوں کو تباہ کر رہے ہیں ان کا احتساب کیا جائے اور حکومت جاگ جائے۔

لاکھوں افراد کھربوں روپے کی تنخواہیں اور مراعات لے کر اس ملک میں نوکری کر رہے ہیں۔ ان سب کو اپنے اپنے کام کو حقیقی معنوں میں سرانجام دینے کا پابند بنائیں۔ ان کو سہولت کاری سے دور رکھنے کے لیے سخت ترین قوانین بنائیں۔ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ کرغیزستان سے واپس آنے والے بچوں کو سیاسی بنیادوں پر کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی میں داخل کر کے ایک نیا راستہ نہ کھولا جائے اس لیے کہ اس چور راستے سے صرف مفاد پرست اور مافیاز ہی فائدہ اٹھائیں گے۔

اس سے جو رہا سہا نظام ہے وہ بھی زمین بوس ہو جائے گا اور ہم اس سے بھی بدتر حالت پر چلے جائیں گے۔ ملک میں پروفیشنل تعلیم کے لیے سخت سے سخت ترین قوانین بنائے جائیں جیسے امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ دنیا نے بنائے ہیں اس لیے کہ یہی پروفیشنل تعلیم ملکی بقا کی ضامن ہے۔ اس ملک میں مافیاز نے ٹیسٹنگ ایجنسیاں بنائیں ان کی مدد سے کھربوں روپے کمائے۔ ان کو دو نمبری کے لیے استعمال کیا اور ان کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔

کیا کبھی کسی حکومت نے اس معاملہ کا حساب کسی سے لیا ہے۔ وفاقی و صوبائی اداروں کے لوگوں نے اپنی اپنی کمپنیاں بنائیں اور ان کو بڑے بڑے ٹھیکے دیے کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ آپ کیسے ایسا کر سکتے ہیں۔ جس کام سے جس کا براہ راست مفاد وابستہ ہوتا ہے اسے حکومت کمیٹیوں میں شامل کرتی ہے۔ وہ اپنے مفاد کے لیے فیصلے سازی میں شریک ہوتے ہیں اور پالیسیاں بناتے ہیں۔ جس کو عرف میں کنفلیکٹ اف انٹرسٹ کہا جاتا ہے مگر یہ سب اس ملک میں جائز ہو گیا ہے۔

پیسے کماؤ چاہے کسی کی جان چلی جائے، ملک تباہ ہو جائے، ملک کا کاروبار تباہ ہو جائے۔ ملک کی شہرت داؤ پر لگ جائے۔ یہ سب ہمارے لیے اہم نہیں ہے بس پیسے کمانے ہیں۔ اور وہ پیسے ملک سے باہر لے جاکر گھر اور عمارتیں خریدنی ہیں۔ یہ ہے ہمارا کل اثاثہ، سوچ اور زندگی کا محور۔ آپ دیکھیں گے کرغیزستان سے واپس آنے والوں کو یہ مافیا احتجاج پر لگا دے گا۔ ان کی ایک یونین بنائی جائے گی۔ اور ایک پریشر گروپ بنایا جائے گا۔

اس مقصد کے لیے طرح طرح کے لوگوں اور اداروں کا استعمال کیا جائے گا۔ اور پھر اس آڑ میں حکومت میں موجود لوگوں کی مدد سے پالیسی بنائی جائے گی اور میڈیا پر داد سمیٹی جائے گی کہ حکومت نے ہزاروں بچوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچا لیا ہے اور ان کو پاکستان کے میڈیکل کالجز میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ میڈیکل کی تعلیم کا موجودہ نظام ناکارہ ہو جائے گا۔ اور یہ ہزاروں لوگ ڈاکٹرز بن کر لاکھوں لوگوں کی صحت سے جو کھلواڑ کریں گے اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اور رشوت اور بدعنوانی کا ایک نیا سلسلہ چل نکلے گا۔ اس کو بنیاد بنا کر وسطی ایشیا کے دیگر ممالک میں جو پاکستانی گئے ہیں وہاں زور زبردستی سے جھگڑے اور ڈرامے کر کے واپس پاکستان کا رُخ کریں گے اور جن جن پاکستانی میڈیکل کالجز میں وہ خواب میں بھی داخلے لینے کا نہیں سوچ سکتے تھے ان میں داخل ہوجائیں گے۔ اور ہم اس نظام کا جنازہ پڑھ لیں گے۔ خدا کے لیے اس ملک میں تعلیم اور صحت کو تو بخش دیا جائے۔ یہاں کوئی بھی کام عوامی فلاح اور بہبود میں نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے وقتی ذاتی شخصی فائدے اور منافع کے لیے کیا جاتا ہے۔ جس دن ہم نے ذات کو نکال کر ملک کا سوچنا شروع کر دیا اس دن ہم قوم بن جائیں گے۔

سنتے ہیں کہ اپنے ہی تھے گھر لوٹنے والے
اچھا ہوا میں نے یہ تماشا نہیں دیکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments