کیا آپ تخلیقی اقلیت سے واقف ہیں؟


دنیا کے ہر معاشرے میں افراد کے دو گروہ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ روایتی اکثریت اور تخلیقی اقلیت۔ روایتی اکثریت پر مشتمل افراد مروجہ معاشرتی رسم و رواج اور اصول و ضوابط کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی سوچ اور ترجیحات معاشرے اور خاندان کے بنائے گئے سانچوں میں ڈھلی ہوتی ہیں۔ جن سے انحراف گناہ اور جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ روایتی اکثریت میں تخلیقی اذہان نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ کیونکہ تخلیقیت کے لیے شعوری آزادی بنیادی شرط ہے۔

جب کہ تخلیقی اقلیت کا گروہ روایتی شاہراہ کی بجائے من کی پگڈنڈی پر چلتا ہے۔ کیونکہ تخلیقی افراد آزاد سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ عظیم اذہان، جیسے سائنسداں، فلسفی، شاعر، ادیب، فنکار، انقلابی رہنما اور اصلاح کار ہمیں تخلیقی اقلیت کے گروہ میں نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اقلیت میں ہونے کے باوجود انسانیت کے کارواں کو ارتقا کی اگلی منازل سے ہمکنار کرتے ہیں۔ یہ خواب دیکھتے ہیں، آدرش رکھتے ہیں اور دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت میں تیرتے ہیں۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی اس کا سہرا اسی گروہ کے سر رہا۔

زیر نظر کتاب: ”تخلیقی اقلیت“ ان ہی افراد کی زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی روداد ہے جو روایتی اکثریت کے برعکس آزاد شعور رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے منفرد ( Out of box) سوچ رکھتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے تخلیقی اقلیت، ہمیشہ سے روایتی اکثریت کے زیر عتاب رہی ہے اور کئی قسم کی صعوبتیں برداشت کرتی آئی ہے۔ نتیجتاً تخلیقی افراد یا تو مختلف نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں جا پہنچتے ہیں، قید کر دیے جاتے ہیں، مار دیے جاتے ہیں یا جلاوطن ہونے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔

مگر جب یہی افراد اپنے سچ اور اپنے آدرش کی قیمت ادا کر دیتے ہیں تو آنے والے وقت کی گود میں امر ہو جاتے ہیں۔ ان سے محبت کی جاتی ہے، یاد کیا جاتا ہے اور انسانی کارواں کو شعوری ارتقاء کی اگلی منزل پر پہنچانے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا جاتا۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کل کے ولن آج کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ اور کل جو لوگ راندۂ درگاہ تھے آج ان کو سر پر بٹھایا جاتا ہے۔

میں کینیڈا کے شہر کیلگری میں جہاں رہتا ہوں۔ اس کے عقب میں نیلسن مینڈیلا ہائی اسکول ہے۔ میں جب بھی اس کے سامنے سے گزرتا ہوں تو جنوبی افریقہ کے اس انقلابی لیڈر کو یاد کرتا ہوں جس نے اپنے آدرش (نسلی امتیاز کا خاتمہ) کی خاطر ایک ربع صدی جیل میں گزار دی اور جس نے جنوبی افریقی کی سیاہ فام اقوام کے حقوق کی جنگ لڑی۔ جب نیلسن مینڈیلا نے اپنی پرامن تحریک کو مسلح جدوجہد میں تبدیل کیا تو ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر قید کر دیا گیا۔ مگر ان کی طویل جدوجہد بالآخر کامیاب ہوئی۔ نصف صدی قبل کا دہشت گرد بالآخر دنیا کے سامنے ایک امن پسند انقلابی رہنما بن کر ابھرا۔ 1993 میں نیلسن مینڈیلا کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ آج بھی ان کا نام دنیا بھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔

یونانی فلسفی سقراط کا عہد پانچ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ان کو یہ سزا مذہبی پیشوائیت کی طرف سے اس لیے سنائی گئی کیونکہ وہ یونانی خداؤں کو نہیں مانتے تھے اور ان پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ سقراط سائنسداں نہیں تھے بلکہ فلسفی تھے جو طب اور طبیعات کی بجائے انسانی زندگی، روح، شعور اور منطق پر تحقیق کرتے اور علم و دانش پھیلاتے تھے : ان کا قول ہے : ”جس زندگی میں احتساب نہ ہو وہ جینے کے لائق نہیں ہوتی۔“

پولینڈ کے ریاضی داں، فلکیات داں اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے کثیر الجہت مفکر اور کیتھولک کارکن ”نیکولاز کوپرنیکس“ ( 1473 ء۔ 1547 ء) نے جب دریافت کیا کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد چکر کاٹ رہی ہے، نہ کہ اس کے بر عکس، تو وہ اپنی دریافت لوگوں کے سامنے لانے سے گریزاں ہو گئے کیونکہ مذہبی پیشوائیت کی طرف سے ان کو سخت ترین سزا سنائے جانے کی فکر تھی۔ انسانیت کی بد قسمتی جانیے کہ جس دن کوپرنیکس اس دنیا سے کوچ کر رہے تھے اس دن ان کی کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی۔

ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کی دریافت انسانوں کی فلکیات کے بارے میں سوچ میں کتنا بڑا انقلاب بر پا کر دے گی۔ اس سے ایک صدی بعد جب اٹلی کے نامور فلکیات داں، طبیعات داں اور انجنیئر گلیلیو ( 1564۔ 1642 ) نے کوپر نیکس کی دریافت کی توثیق کی تو انھیں مذہبی پیشوائیت کی طرف سے ایسے ہی شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا جس کا خدشہ کوپرنیکس کو اپنے زمانے میں تھا۔ کیتھولک چرچ نے گلیلیو پر مقدمہ چلایا۔ معافی مانگنے پر ان کی جان بخشی تو ہو گئی مگر باقی تمام عمر ان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ گلیلیو نے مذہبی رہنماؤں کو یہ بتانے کی کوشش کی انجیل مقدس اخلاقیات کی کتاب ہے سائنس کی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلیلیو کی وفات کے تین سو سال بعد کیتھولک چرچ کے امام (پوپ) نے تسلیم کیا کہ کیتھولک چرچ اپنے فیصلے میں غلطی پر تھا اور اس نے گلیلیو سے معافی مانگی۔

حیاتیات کے علاقے میں نظریہ ارتقا پیش کرنے والے ماہر ارضیات، حیاتیات داں اور فطرت شناس، چارلس ڈارون ( 1809۔ 1882 ) نے تین چار دہائیوں کی طویل تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا کہ زندگی کا آغاز ایک یکتا سالمے سے ہوا اور پھر کروڑوں برسوں میں مختلف النوع اور کروڑوں اقسام کی زندگی کرہ ارض پر وقوع پذیر ہوئی۔ اور یہ کہ زندگی بے شمار ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی موجودہ شکل میں پہنچی ہے۔ جس کی بنیاد NATURAL SELECTION اور VARIATION ہے۔

Darwin

ان کی دو کتب : ORIGIN OF SPECIES اور DESCENT OF MAN توہین مذہب قرار دے دی گئیں۔ مگر ان الزامات کے باوجود اس زمانے میں سب سی زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہونے لگیں۔ ڈارون کی دریافت نے دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کو خدا، مقدس صحیفوں اور کائنات میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے جیسے عقائد کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ مگر اپنے زمانے میں کلیسا کی مذہبی پیشوائیت نے ڈارون کو کافر اور ملحد قرار دیا اور قابل سرزنش گردانا تھا۔

عبداللہ شاہ المعروف بلھے شاہ 1860ء میں بہاولپور پیدا ہوئے اور 1757ء میں 77 برس کی عمر میں قصور میں وفات پا گئے۔ بلھے شاہ ایک پنجابی اور سرائیکی کے صوفی شاعر ہونے کے ساتھ فلسفی بھی تھے۔ وہ قدیم مذہبی روایات کے خلاف تھے۔ کیونکہ وہ عبادات سے زیادہ اخلاقیات کے پرچارک تھے۔ بلھے شاہ انسان دوست شاعر تھے۔ وہ انسانی ذات کو انا پرستی، جھوٹ، فریب، حسد، منافرت اور منافقت جیسی آلائشوں سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ روایتی مذہبی عبادات کی بجائے خود شناسی اور ذات کی تطہیر کے قائل تھے۔ انھوں نے کہا:

’مکے‘ گیاں گل مکدی ناہیں
پویں سو سو جمعے پڑھ آئیے
’گنگا‘ گیاں گل مکدی ناہیں
پویں سو سو غوطے کھایئے
’گیاہ‘ گیاں گل مکدی ناہیں
پویں سو سو پنڈ پڑھایے
بلھے شاہ گل تاہیں مکدی
جے ’میں‘ نوں دلوں گواہیے
(مکے جانے سے بات نہیں بنتی۔ خواہ وہاں جا کر سو بار جمعہ پڑھو
گنگا جانے سے بات نہیں بنتی۔ خواہ وہاں جا کر سو بار غوطہ لگاؤ
گیاہ جانے سے بھی بات نہیں بنتی۔ خواہ وہاں جا کر رام کی سو بار پوجا کرو
بلھے شاہ! اگر بات بنانی ہے تو پنی انا کو خلوص دل سے مار ڈالو)

پوجا پاٹ کے بجائے انسانی ذات کی نشوونما کا پرچار کرنے والے اپنے وقت کے عظیم صوفی شاعر کو اس وقت کی مذہبی پیشوائیت نے راندۂ درگاہ قرار دے رکھا تھا۔ چنانچہ ان کی وفات کے بعد مذہبی پیشواؤں نے ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ بالآخر ان کی نماز جنازہ مخنثوں کی ایک جماعت نے پڑھائی اور اپنے قبرستان میں دفن کیا۔ مگر بلھے شاہ اپنی شاعری اور فلسفے کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں نہایت احترام کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کے بے مثال انقلابی شاعر فیض احمد فیض 1912 ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کرنے کے بعد لاہور چلے گئے جہاں انھوں نے عربی اور فارسی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ غالب، اقبال، بلھے شاہ اور کارل مارکس سے متاثر تھے۔ فیض دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوج میں بھی رہے۔ کارل مارکس کی تعلیمات سے متاثر ہونے کی وجہ سے اپنی شاعری میں کمیونسٹ نظریات کا پرچار کرتے اور معاشرے کے کمزور اور مظلوم طبقات کی برملا حمایت کرتے تھے۔

سوشلسٹ لیڈر سجاد ظہیر اور ظفر پوشنی سے قربت اور مبینہ طور راولپنڈی سازش کیس میں شامل ہونے کے الزام میں فیض کو چار سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کا اصل جرم معاشرے کے مزدوروں اور محروم و مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھانا تھا۔ جس کے لیے فیض کو متعدد بار پاکستان سے دیس نکالا بھی سہنا پڑا۔ مگر وہ حق اور سچ کی آواز بلند کرتے رہے اور عدم تشدد کے ساتھ تبدیلی کے خواب دیکھتے رہے۔ انھوں نے کہا :

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

اپنے وقت کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ منٹو کو ان کی زندگی میں بے شمار مصائب کا سامنا اس لیے تھا کہ وہ منافق معاشرے کو بے نقاب کرتے تھے اور اپنے افسانوں کے ذریعے زندگی کی تلخ اور بھیانک حقیقتوں کو بے نقاب کرتے تھے۔ ان پر فحاشی اور عریاں نگاری کے الزامات کے تحت متعدد مقدمات قائم کیے گئے۔ مگر وہ لکھتے رہے کیونکہ ان کا تعلق اس تخلیقی اقلیت سے تھا۔ بقول شاعر:

لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
اگرچہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔ (غالب)

ارشمیدس، نیوٹن، آئن سٹائن، سٹیفن ہاکنگ، ابن رشد، فریڈرک نطشے، کارل مارکس، سگمنڈ فرائڈ، لیو ٹالسٹائے، انائس نن، منصور حلاج، چے گویرا اور فرانز فینون کا تعلق تخلیقی اقلیت کے اسی قبیلے سے ہے۔

زیر نظر کتاب: ”تخلیقی اقلیت“، میرے خیال میں دنیا بھر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ جس میں مصنف، ڈاکٹر خالد سہیل نے تخلیقی شخصیات کی نفسیات کا تجزیہ بطور ایک نفسیاتی معالج کر کے نفسیات، فلسفے اور ادب کی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے ان شخصیات کی خصوصیات بہت باریکی بینی سے بیان کی ہیں۔ تخلیقی شخصیات کیسے سوچتی ہیں؟ ان کا طرز زندگی کیسا ہوتا ہے؟ ان کے کیا اوصاف ہیں؟ وہ کیسے خواب دیکھتے ہیں اور ان کے کیا المیے ہیں؟

یہ سب کچھ آپ کو اس کتاب میں ملے گا۔ یہ کتاب جہاں مصنف کی انسانی نفسیات پر پوری گرفت کی آئینہ دار ہے وہیں پر تخلیقی بچوں کے والدین کے لیے مفید مشورے بھی اپنے اندر رکھتی ہے۔ میں ایسی نایاب کتاب تصنیف کرنے پر مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ بات میرے لیے باعث مسرت و افتخار ہے کہ مجھے ایسی بے مثال کتاب کو اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع دیا گیا۔

کتاب: تخلیقی اقلیت۔ خواب اور المیے (CREATIVE MINORITY۔ Dreams and Dilemmas)
مصنف : ڈاکٹر خالد سہیل
ترجمہ و تبصرہ: نعیم اشرف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments