پدرسری نظام کا سب سے خطرناک مہرہ ؛ بھائی!


یہ بات جب ہم نے کہیں پڑھی تھی تو حیرت سے سوچا تھا۔ واقعی؟ کیا ماں جایا؟

حالات و واقعات نے بتایا کہ جب غیرت نامی گدلی پٹی ماں جائے کی آنکھوں پر بندھتی ہے تو اسے کچھ ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔

قندیل بلوچ کے بھائی نے آدھی رات کو بے سدھ سوئی ہوئی کے منہ پہ تکیہ رکھا تو اسے بھول گیا کہ تکیے کے نیچے تڑپنے والی ماں جائی ہے۔

حال ہی میں بہن کی گردن اپنے ہاتھوں سے گھونٹ کر موت کے سپرد کرنے کے بعد سکون و اطمینان سے پانی پینے والا بھی بھائی ہی تھا۔

کیوں کرتے ہیں ایسا یہ بھائی؟ جن کے ساتھ ایک آنگن میں کھیل کود کر بڑے ہوتے ہیں انہی کی سانسیں چھین لیتے ہیں۔

عورت ماں بنتی ہے اور ایک معصوم بچہ گود میں آ بیٹھتا ہے جو بہنوں کا راجہ بھیا ہوتا ہے۔ یہ بچہ ماں کی گود سے نکل کر جونہی معاشرے کے بیچ پہنچتا ہے، پدرسری نظام اپنی تمام تر غلاظت اس کے اندر انڈیلتا ہے قطرہ قطرہ غیرت و عزت کے نام پر۔ وہ یہ زہر امرت سمجھ کر پیتا ہے اور گویا خود ہی اپنی ہیئت کی تبدیلی پہ دستخط کر دیتا ہے۔

ہمیں میسنجر میں ایک پیغام ملا ؛

”میں ایک ایسے گھر میں رہتی ہوں جہاں میں محفوظ نہیں ہوں۔ نہ جسمانی طور پہ اور نہ ہی جذباتی طور پہ۔ میرا بھائی غصے کا انتہائی تیز ہے اور مجھ پہ ہاتھ اٹھاتا ہے۔ ماں باپ سے کہوں تو جواب ملتا ہے، برداشت کرو۔

اگر مقابلہ کرنے کا سوچو تو وہ اور متشدد ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے اینٹ اٹھا کر ماری جس سے میں بال بال بچی۔

مجھے سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟ میں ہر وقت اس سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ جونہی وہ سامنے آتا ہے میرا جسم کانپنا شروع کر دیتا ہے کہ اب وہ مجھے مارے گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی کیوں نہیں ہو رہی؟ میں اس گھر سے جا کیوں نہیں رہی؟
میں سب سے بڑی ہوں اور وہ چھوٹا ہے۔ میرے ابا کا لاڈلا اور وارث ”

پدرسری نظام میں پلنے والے مرد کا مزاج اپنی بہنوں کے لیے اس قدر متشدد کیوں؟ کچھ عرصہ پہلے اس موضوع پہ بحث کرتے ہوئے ایک نقطہ نظر سامنے آیا کہ یہ نظام انہیں کرپٹ کرتا ہے کسی وائرس کی طرح۔

مردوں کی ٹولی جب چوپال یا محفل میں بیٹھ کر اپنی مردانگی پہ نازاں ہوتی ہے وہاں اس مرد کو بزدل اور بے غیرت کہا جاتا ہے جو اپنے گھر کی عورت پہ گرفت ڈھیلی رکھے۔ اپنے جیسوں کے منہ سے کمزور اور بے غیرت ہونے کے طعنے سننا اور مذاق برداشت کرنا ان کمزور مردوں کو پسند نہیں آتا اور انہیں اس راہ پر لے جاتا ہے جہاں وہ اپنی بہن / بیوی/ بیٹی کا گلا گھونٹ کر غیرت نامی میڈل حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے ہم نے کچھ پڑھے لکھے مردوں کے بیچ ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا تھا جو کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ اس اثنا میں جو بھی لڑکی دروازے سے داخل ہوتی، یہ لڑکے اس کے لباس کا نام لے کر فیصلہ کرتے۔ پیلے والی تیری، نیلے والی میری۔

سوچیے ان لڑکوں کے گھر میں بہنیں بھی ہوں گی اور ایسے میں لاشعور میں ایک ناگ پھن اٹھاتا ہو گا، کیا میری بہن کو بھی اسی نظر سے دیکھتا ہو گا کوئی اور، کہیں اور؟

اثبات میں جواب پاکر گھر پہنچتے ہی شکم سیر بھائی بہن پہ رعب جھاڑتے ہوئے حکم صادر کرتا ہو گا۔ خبردار جو آئندہ گھر سے باہر نکلی تو۔ آوارہ نہیں بنانا ہم نے تمہیں۔

نہیں جائے گی تو کالج کل سے، ٹانگیں توڑ دوں گا تیری۔
رشتہ ڈھونڈو ماں، شادی کرو اس کی، ورنہ یہ کوئی گل کھلائے گی۔
کتابیں نہیں پڑھنی۔
سہیلیوں سے نہیں ملنا۔
فنکشنز میں نہیں جانا۔
بازاروں میں نہیں گھومنا۔
کالج ٹرپس پہ نہیں جانا۔
شوخ رنگ نہیں پہننے۔
پردہ کرنا ہے لازمی۔
وجہ؟
زمانہ بہت خراب ہے، تمہاری عزت کو خطرہ ہے۔

لیکن زمانے کو کوستے ہوئے وہ بھائی بھول جاتا ہو گا کہ وہ خود ہی تو ہے اس زمانے میں شامل، بلکہ وہ ہی زمانہ ہے۔ اس کھیل میں پوری طرح شریک، کسی اور کی بہن کے لیے تاڑو ماڑو بننے والا۔ کسی اور کی بیٹی کے جسم کو ہاتھ لگانے والا، کسی اور کی ماں پہ آوازے کسنے والا۔ تبھی تو یوتھ کلب کے معصوم نوجوان سوشل میڈیا پہ بیٹھ کر علی اعلان اعتراف کرتے ہیں ؛ پیاری بہنو، بچ کر رہنا ہم بھیڑیے ہیں بھیڑیے۔

ملاحظہ کیجیے گفتگو ؛
”یہ والا کونیسپٹ ہمیں اپنی بہنوں کو بیٹیوں کو سب کو بتانا چاہیے۔
کاش سمجھ جائیں، کاش سمجھ جائیں۔
عورت نہیں سمجھ سکتی کہ آدمی کا ذہن کتنا گندا ہوتا ہے۔

ہمارا یہ کام ہے کہ اپنی بیٹیوں کو، بہنوں کو بیویوں کو بتائیں کہ یہ سب بھیڑیے ہیں سارے، انہیں یقین دلائیں۔

اگر ایک سسٹر کو پتہ چل جائے کہ ایک مرد کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
ڈس گسٹ ہوں گی۔

میں مرد ہوں میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ مرد کیسا ہی کیوں نہ ہو، ہمارے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ ”

یقین کیجیے کہ ہمیں ترس آتا ہے ان سب مردوں پہ جنہیں اللہ نے ایک معصوم فرشتے کے روپ میں زمین پہ بھیجا۔ جب تک وہ گھر کی چاردیواری میں رہے، ان کی معصومیت برقرار رہی اور جونہی باہر نکل کر معاشرے میں گھومنا پھرنا شروع کیا، ہو گیا کام۔ باہر کی مسموم فضا اور زہریلے رویوں نے ان کی معصومیت اور نیک دلی چھین کر انہیں بتایا کہ عورت تمہاری محکوم اور تم حاکم۔ سو دیکھو کہ عورت کو شکار کیسے کرنا ہے؟

پدرسری نظام کی اس بدصورتی کو بھائی نامی مہرہ تب ہی شکست دے سکتا ہے، جب وہ محفلوں میں، دوسروں کے بیچ، تھڑوں پر بیٹھے ہوئے علی الاعلان لڑکیوں اور عورتوں کو زیر گفتگو لانے کا بائیکاٹ کرے۔ بلند آواز میں کہے کہ نہیں بات کرنی ہمیں کسی بھی لڑکی کے متعلق۔ نہیں اچھالنے رکیک جملے اس کی طرف۔ نہیں دیکھنا اس کے جسم کو اور نہیں کہنا پیلے والی تیری اور نیلے والی میری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments