یورپ میں جمہوری ریفرنڈم بمقابلہ مشرف ریفرنڈم


یورپ کے ایک مُلک میں ووٹ ہو رہیے ہیں لکین یہ ووٹ کسی کی ہار جیت یا اسمبلی میں جانے کے لئے نہیں ہیں۔بلکہ ووٹ دوٹوک ہاں یا نہیں میں اسکا موضوع ہے ۔اس ملک میں قانون ہے کہ اپ بچہ ضائع نہیں کرا سکتے کیوں کہ یہ انسانی جان کا قتل ہے ۔اور کوئی بھی ڈاکٹر آج تک اسکی خلاف ورزی نہیں کر سکا اور نہ ہی اس ملک کے عوام لیکن اب کچھ لوگ چاہتے تھے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے کیونکہ بہت سے لوگوں کو اس کے لئے دوسرے ملکوں میں جانا پڑتا تھا۔ کافی شور شرابے کیے بعد ان لوگوں نے ووٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے کہ کتنے لوگ ہاں اور کتنے لوگ نہیں میں ووٹ کرتے ہیں تب جاکر قانون کو ختم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ گھر گھر میں پمفلٹ پھینک رہے ہیں ۔جو بندے چاہتے ہیں کہ قانون میں تبدیلی لائی جائے ان کے پمفلٹ پہ لکھا ہوا ہے میرا جسم میری مرضی ہونی چاہئے کسی کا کوئی حق نہیں۔  اور کئی لوگ جو غیر قانونی طریقے سکوئدوئی وغیرہ لیتے ہیںunregulated   Unsafe  abortion pills جس کی وجہ سے زندگیوں کو خطرہ ہے ۔جبکہ دوسری طرف کے پمفلٹ پہ لکھا ہے کہ نہیں ایک بچے کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور بچوں کو گورنمنٹ بینی فٹ دیتی ہے۔ بچے کے ساتھ ماں کا بھی خیال گورنمنٹ رکھتی ہے۔یہاں تک کہ جو غیر قانونی طریقے سے بھی کئی ممالک سے خواتین آتی ہیں ا نکا اگر بچہ اس سرزمین پر پیدا ہو جائے تو بچے کی وجہ سے ماں باپ کو بھی لیگل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن کسی پہ کوئی دباؤ نہیں ہے کوئی ہاں میں ووٹ کرے یا نہیں میں۔ ہر کوئی چُپ کرکے جائے گا اور سکولوں میں عملہ بیٹھا ہو گا۔ وہ آپکو ایک کارڈ اور پن دے دیں گے ۔Yes اورNo کے اگے ایک خالی خانہ ہوگا اور آپکی مرضی جس پر ٹِک کردیں۔

ہمارے ساتھ ہی گوروں کا گھر ہے اور رمضان میں ان کو پکوڑے دیتے ہیں۔ بڑے شوق سے کھاتے ہیں اب مجھ پہ کوئی فتوی ہی نہ لگا دے کہ گوروں کو پکوڑے دیتے ہیں۔ خیر گوری مجھ سے پوچھنے لگی کہ ریفرینڈم ہو رہا ہے آپکے خیال میں ہاں ٹھیک ہے کہ نہیں؟ میں تو چُپ ہوگی تو وہ حیران ہو کر کہتی ہے کیا آپ کے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا تو میں نے جھٹ سے جھوٹ بول دیا کہ نہیں نہیں ہوتا ہے ہمارے ملک میں بھی۔ اور دل میں کہا آج کل تو نواز شریف اور اسد دُرانی کر رہے ہیں۔ میری چُپ کی وجہ مجھے مشرف والا ریفرنڈم یاد آگیا اس کا نام بھی ریفرنڈم تھا۔اور سفید کاغذ پہ انگوٹھا لگا کر بکس میں ڈالنا ہوتا تھا اور گاؤں کے کافی لوگ گھر سے سادہ پیپر پہ انگوٹھا لگا کر جاکے ڈال آئے تھے۔ یہ ہوتی ہے اصل جمہوریت ہم نام تو رکھ لیتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں ہوتا۔

یہاں ہر بندے کو اپنے حقوق کا پتا ہے نہ کوئی جلسہ نہ کوئی دھاندلی کا رونا نہ کوئی خلائی مخلوق ہوتی ہے۔جب تک ہم لوگوں کو تعلیم اور شعور نہیں دیں گے کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور جو نام نہاد جمہوریت کا ڈھول بجاتے ہیں، وہ کہیں دُور دُور تک نہیں ہے۔ پردیس میں آکر اور ان کے قانون اور انسانیت دیکھ کر یہی دُعا ہوتی ہے کہ اللہ ہمارے ملک کے حکمران بھی ایسے دے جو پاکستان کو ایک عظیم ملک بنا دیں لیکن بہت مشکل ہے۔اب تو ہم اپنی خیر منائیں کہ گوروں کو پکوڑے دینے کا ذکر کر دیا کوئی مغرب کا ایجنٹ ہی نہ بنا دے۔اور اللہ کرے اصل جمہوریت اور اصل دین ہمارے ملک ہیں آئے۔ اسی دعا کے ساتھ بس کرتے ہیں کیونکہ یورپ کا روزہ پاکستانی صدر کی چُپ سے بھی زیادہ لمبا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).