نئے پاکستان کی روشنی: ارسلان تاج گھمن


کسی بھی قوم کا خواب اس کے نوجوان ہوتے ہیں جو بعد میں تعبیر بھی خود ہی بن جاتے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل کو ایک خواب دکھایا گیا جس کا نام تھا “نیا پاکستان”۔۔۔ اب اس نئے پاکستان میں سارے پرانے، باسی اور آزمائے ہوئے سیاسی شعبدے باز تو آ ہی گئے مگر اس نئے پاکستان کے نعرے کو مقبولیت اور مضبوطی دینے والے تھے نوجوان۔ وہ نوجوان جو سیاست سے بیزار ہو چکے تھے۔ وہ کسی سیاسی پارٹی کو بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ووٹ نہ دینا ایک اعزاز تھا کہ بھئی ہم شامل واردات نہیں۔

عمران خان کھلاڑی کے طور پر جتنے مقبول رہے ہوں گے یہ انہیں دیکھنے والے جانیں، ہماری وہ والی نسل ہے جس نے انہیں شوکت خانم کا بیڑا اٹھاتے دیکھا، پھر وہ سیاسی میدان میں آگئے اور جس وقت کوئی الیکٹیبل ان کے ساتھ نہیں تھا، ان کے ساتھ تھے پر خلوص نوجوان۔ وہ اس فرسودہ نظام کو بدلنا چاہتے تھے جو ان کے مستقبل کا دشمن ہے۔

زمانہ طالبعلمی میں سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننا ایک بہت اچھا تجربہ رہا۔ بہت سے ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملا جو اس ملک کے حوالے سے بہت سے خواب دیکھتے ہیں۔ ایک نام جو کراچی کے نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کر گیا اور متوسط طبقے سے قومی سیاست میں آیا وہ ہے “ارسلان تاج گھمن”۔ ارسلان اس وقت ہمت اور جرات سے سیاسی میدان میں آئے جس وقت کراچی میں سیاست خود کو یا اپنے اہل خانہ کو بوری یا نالے کے حوالے کرنا تھا۔ ارسلان کے سیاسی تعارف اور جدوجہد آپ کو گوگل اور سوشل میڈیا پر مل جائیں گی۔ میں آپ کو ان کی شخصیت کے منفرد پہلو سے روشناس کروانا چاہتی ہوں تاکہ آپ سب یہ جان کر اطمینان کا سانس لے سکیں کہ پاکستان کا نوجوان سوچتا ہے، غیر متشدد فکر کا مالک ہے اور برابری کے حق کی بات کرتا ہے۔

ایک معروف یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ سیاسی و سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو کا سیشن تھا۔ وہاں سوال و جواب کے بعد جب چائے کا دور چل رہا تھا تو کسی نوجوان کے منہ سے پھسلا: ‘ارے فلاں لیڈر۔ وہ تو فلاں فرقے کا ہے نہ۔ وہ تو مسلمان نہیں۔۔’ اچانک ارسلان صاحب کی آواز آئی: آپ کو کیسے پتہ وہ مسلمان نہیں؟ نوجوان نے کہا: یار وہ مسلمان نہیں ہوتے۔ ارسلان نے کہا: کیا اللہ میاں نے خود آ کر آپ کے کان میں یہ بات بتائی ہے؟ کیونکہ ایمان کا فیصلہ تو صرف اللہ ہی کر سکتا ہے۔ انسان تو کیا کسی پیغمبر کو یہ اختیار نہیں ملا۔ اس مختصر لیکن مفصل جواب سے وہاں موجود تمام افراد نے اتفاق کیا۔ اتنی سادگی سے ایسے موضوع کو اتنی خوبصورتی سے سمیٹنا یقینا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمیں ایسے ہی نوجوانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں جو نفرت سے بیزار ہیں۔

ایک واقعہ اور پیش خدمت ہے جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے۔
شارع فیصل پر قائم دفتر ‘انصاف ہاوس’ میں اسلام آباد سے اعلی قیادت تشریف لا رہی تھی۔ ارسلان تاج نے کوشش کی کہ ایک مختصر گفتگو طلبہ و طالبات کے ساتھ بھی رکھی جائے تا کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ کیونکہ وقت کم تھا اس لیے سب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ لیڈر شپ کیسے آئے گی۔ باہر گلی میں تو کچرا بھرا پڑا ہے۔ اچانک یہ محترم بولے اگر انتظامیہ صفائی نہیں کرتی تو ہم خود کر لیں گے۔ جیسے ہم اپنا گھر صاف کرتے ہیں تو سیاسی کارکن کیلئے دفتر اس کے گھر کے برابر ہوا۔ چلو سب شروع ہو جاو۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ کہتا ان صاحب نے خود جھاڑو پکڑ کر صفائی شروع کی جس سے باقیوں کی بھی شرم ٹوٹی اور کچھ ہی گھنٹوں میں جگہ صاف ہو گئی۔

یہ دو واقعات صرف سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایک شخص اختیارات اور مجبوریوں کا رونا نہیں روتا۔ اس میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ وہ اپنے علاقے کو صاف رکھنے کیلئے اپنے لباس کو گندہ کر لے مگر لوگوں کو پیغام دے کہ ہمارا اپنا فرض کیا ہے؟ ارسلان تاج میں اتنی جرات ہے کہ وہ مافیا اور تعصب کے شکار افراد کو نہ صرف للکار سکے بلکہ انہیں اپنے دلائل سے قائل بھی کر سکے۔درجنوں ایسے افراد ان سے قائل ہوئے جو ذہنی غلامی میں جکڑے نفرتوں کی تجارت کرتے تھے۔ میرے لیے نئے پاکستان کی صرف ایک ہی امید ہےاور وہ ہیں بے غرض نوجوان جو اپنی آنکھوں میں کچھ خواب لیے بیٹھے ہیں۔ جہاں اتنے افراد کو مسلسل باریاں ملتی ہیں آور وہ ہر بار ‘ایک موقع اور’ کہتے ہیں تو میری نظر میں ایک موقع ان نوجوانوں کو ضرور ملنا چاہیئے جو قلم اور بیلٹ پیپر کو طاقت بنانا چاہتے ہیں۔ 25 جولائی کو ہمارا اپنا فیصلہ ہو گا اس لیے فیصلہ وہ کریں جو آپ کے اپنے ضمیر کو مطمئین کر سکے۔ اللہ ہمارے وطن ہمارے شہروں کو آباد رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).