سونو پنجابن: دلی کی بدنام زمانہ سیکس ریکیٹ کی سرغنہ جس نے جسم فروشی کو ’عوامی خدمت‘ قرار دیا


خاتون

گرفتاری کے وقت عمر 30 سال تھی

سونو پنجابن کیس کے تفتیشی افسر کیلاش چند سنہ 2011 میں سب انسپکٹر تھے۔ مہرولی پولیس اسٹیشن میں گفتگو کے دوران بتایا کہ انھوں نے سونو پنجابن کو پکڑنے کے لیے کس طرح کا جال بنایا ہے۔

کیلاش چند کہتے ہیں کہ وہ سونو سے رات بھر حراست میں بات کرتے تھے۔ سونو کو پانچ دن تھانے میں رکھا گیا تھا۔ کیلاش چند سونو کے لیے سگریٹ، چائے اور کھانا لاتے تھے اور وہ انھیں اپنی کہانی سناتی تھی۔

مہرولی میں جب کیلاش چند نے سونو پنجابن کو پکڑا تھا تو وہ اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ انھوں نے موبائل فون کیمرے کے ساتھ اس کی تصویر بھی لی۔ بہر حال اب وہ دھندلی ہو چکی ہے۔

سونو کی عمر سنہ 2011 میں گرفتاری کے وقت 30 سال تھی۔ جسم فروشی کے میدان میں اترنے کے بعد صرف ڈیڑھ سال بعد انھوں نے وہ کام چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت تک اپنا ایک سنڈیکیٹ چلانے کے لیے وہ پورا نیٹ ورک بنا چکی تھیں۔

پولیس نے ایک ڈائری بھی برآمد کی جس میں سونو کے صارفین کے نام اور رابطے تھے۔ ان کی موبائل فون بک بھی برآمد کی گئی تھی۔ سونو کے ریکٹ میں شہر کے ایلیٹ کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں بھی تھیں۔ وہ ان کے لیے کانٹریکٹ پر کام کرتی تھی۔

سونو نے کیلاش چند کو بتایا کہ ‘جسم فروشی عوامی خدمت ہے۔ ہم مردوں کو نجات کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔ ہم خواتین کو ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس آپ کے جسم کے سوا کچھ فروخت کرنے کے لیے نہین تو آپ اسے بیچ دیں۔ لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ فروخت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ساری گفتگو تحریری طور پر ریکارڈ کی گئی تھی اور چارج شیٹ میں شامل کی گئی تھی۔

پولیس سے گفتگو میں وہ اکثر دلیل دیتیں کہ وہ معاشرے کو ایک اہم خدمت مہیا کرا رہی ہیں۔ اگر وہ اور ان جیسی عورتیں نہ ہون تو پتہ نہیں کتنے ریپ ہوں۔ وہ کہتی تھی کہ ہوس ایک بازار ہے۔ اگر یہ بازار نہ ہو تو معاشرے میں تشدد ہوگا۔ اخلاقیات کو بہت پہلے پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔

اپنی پرانی نوٹ بک میں مجھے پولیس سے بیان کردہ سونو پنجابن کی ایک کہانی ملی۔ سونو نے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا جس کا شوہر اسے پیٹا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ زبردستی سیکس کرتا تھا۔ اسے پھوٹی کوڑی نہیں دیتا۔ اس کا ایک بچہ تھا جسے وہ اچھی طرح پڑھانا اور لکھنا چاہتی تھی۔

اس نے کیلاش چند سے کہا: ‘آخر اس عورت کا کیا قصور ہے۔ وہ شادی شدہ ہے اس لیے اس کی ساری خواہشات کو دبا دو۔ وہ اس مرد کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئی ہے جو اسے مارتا ہے۔ اس سب سے بچنے کے لیے اس کا جسم ہی اس کا واحد ذریعہ ہے۔ جبکہ سماج کی نظر میں یہ برا کام ہے۔’

پولیس کے مطابق ‘سونو پنجابن تیز طرار تھیں۔ اچھے کپڑے پہنتی تھیں۔ خود پر کافی اعتماد تھا۔ انھیں سنہ 2017 میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔ پولیس کو معلوم تھا کہ راز جاننا ہے تو سونو کی خاطر داری کرنی پڑے گی۔ ریڈ بل ڈرنکس، سینڈویچ، برگر اور پیزا اس کے پاس لائے جاتے تھے۔ کیلاش چند کی طرح اس بار بھی پولیس ان کے لیے سگریٹ خرید کر لاتی تھی۔ اس بار بھی اس نے کہانی سنائی اور جسم فروشی کی حمایت میں اپنے پرانے دلائل دیئے۔ انھوں نے اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ وہ گمشدہ نابالغ لڑکی کو جانتی ہے۔ لیکن اس بار قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔’

سونو پنجابن کو پہلی بار غیر اخلاقی تجارت کی روک تھام کے قانون کے تحت سنہ 2007 میں پریت وہار میں پکڑا گیا تھا۔ وہ ضمانت پر رہا ہوئیں۔ ایک بار پھر سنہ 2008 میں ایک پرانے جرم میں پکڑی گئیں۔

خاتون

iStock

سونو کی نظر میں جِسم فروشی عوامی خدمت

سونو پنجابن سنہ 2019 میں پیرول پر رہا ہوئیں۔ اس دوران اپنے تمام ٹی وی انٹرویوز میں انھوں نے کہا تھا کہ پولیس انھیں ہراساں کررہی ہے۔ کسی لڑکی نے آن ریکارڈ نہیں کہا کہ وہ دلال ہیں۔ وہ صرف لوگوں کو سہولیات مہیا کرتی ہیں۔

وہ ایسی خواتین کی امداد کر رہی ہین جو اپنی خراب شادیوں سے بچنے کے لیے کوئی راہ تلاش کر رہی ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں پریشان ہیں۔ وہ ان خواتین کی مدد کررہی ہیں جو زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کی کہانیاں شہ سرخیاں بنیں گی۔

وہ جرم اور متاثرہ دونوں کے کرداروں سے واقف تھیں۔ وہ دونوں رہ چکی تھیں۔ سنہ 2013 میں بننے والی فلم ‘فوکرے’ اور 2017 میں ‘فوکرے ریٹرن’ میں بھولی پنجابن کا کردار ان کی کہانی سے متاثر تھا۔ دونوں کردار اداکارہ ریچا چڈھا نے ادا کیے تھے۔

سونو پنجابن کو جب ایم سی سی اے قانون کے تحت گرفتار کیا گا تو آر ایم طفیل نے ان کا مقدمہ لڑا اور وہ بری ہوگئیں۔ 24 سال کی سزا کے فیصلے کے بعد انھوں نے کہا یہ ایک طویل وقت ہے۔ اس معاملے میں بھی انھوں نے سونو کی وکالت کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

طفیل کہتے ہیں: ‘دنیا کا سب سے قدیم پیشہ بھیک مانگنا اور جسم فروشی ہے۔ کسی کو بھی اس کے بارے میں بخوبی علم نہیں ہے۔ ہر کوئی اخلاقیات کی بات کرتا ہے۔ اب یہ ان چیزوں سے چڑھ ہوتی ہے۔’

‘سونو کی سزا طویل ہے’

مشرقی اور جنوبی دہلی میں کروڑوں روپے کی مالیت کا جنسی ریکٹ چلانے والی سونو پنجابن سنہ 2011 میں گرفتاری کے بعد سے ہی خبروں میں ہیں۔ اخبارات میں ان کے بارے میں شائع ہونے والی کہانیوں کے مطابق ان کا طرز زندگی پرتعیش رہی ہے۔ ان کے بہت سے عاشق اور کم از کم چار شوہر رہے ہیں۔ سب بدنام گینگسٹر رہے ہیں۔ پولیس مقابلے میں ان میں سے بہت سے افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

سونو نے ان تعلقات کو ‘شادی’ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس نے ہی ان کا نام ‘سونو پنجابن’ رکھ دیا تھا۔ بچپن میں ان کے والدین انھیں سونو کہتے تھے۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے ایک شوہر ہیمنت عرف سونو کا نام لے لیا تھا۔

سنہ 2003 میں ان کے ایک شوہر وجئے کی یوپی میں پولیس مقابلے میں موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے دوست دیپک کے ساتھ رہنے لگیں۔ دیپک گاڑیاں چوری کرتا تھا۔ گوہاٹی میں پولیس نے دیپک کو ایک مقابلے میں مار ڈالا۔ اس کے بعد وہ دیپک کے بھائی ہیمنت عرف سونو کے ساتھ رہنے لگین۔ ہیمنت ایک مجرم تھا۔ اس نے اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بہادر گڑھ میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا۔ سونو کے مطابق ہیمنت بھی ایک مقابلے میں مارا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ سونو کی موت کے بعد وہ بے سہارا محسوس کرنے لگی۔ ان کے دونوں بھائی بے روزگار تھے۔ والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اپنے بیٹے اور والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی۔ اسی کے ساتھ ہی وہ کال گرل بن گئی اور جسم فروشی کے کاروبار میں قدم رکھا۔

سونو اس سے انکار کرتی ہے کہ اس نے مزید شادیاں کیں۔ لیکن پولیس اور میڈیا کے مطابق وجے کی موت کے بعد سونو نے چار شادیاں کیں۔ پانچویں شوہر کے علاوہ ہر ایک علیحدہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔

تفتیشی افسر پنکج نیگی کہتے ہیں: ‘سونو کے فون میں ان لوگوں کے ساتھ ان کی تصویر ہے۔ ان میں وہ سندور لگائے ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان مباشرت کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شوہر اور بیوی ہیں۔’

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32721 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp