مشال، اور مجاہدین کی تئیس سانسیں


پہلی سانس: مشال نے کچھ تو کیا ہو گا کہ اس کا یہ انجام ہوا۔
دوسری سانس: اسلام امن و محبت سکھاتا ہے۔

تیسری سانس: تم چونکہ قتل کے مخالف ہو، لہٰذا کچھ خیال کرو، وگرنہ مشال کے قتل کی مخالفت توہین مذہب کے مترادف ہے۔
چوتھی سانس: بھئی قانون تو موجود ہے۔ اس کی پاسداری ہونی چاہئے۔

پانچویں سانس: عدالتیں انصاف نہیں دیتیں، اس لیے لوگ انصاف کر دیتے ہیں۔
چھٹی سانس: ہمار مذہب ڈسپلن سکھاتا ہے۔ نفاق شرک کے بعد دوسرا بڑا جرم ہے۔

ساتویں سانس: تم بکواس کرتے ہو، غازی علم دین اور ممتاز قادری نے رحم کی اپیلیں نہیں کی تھیں۔
آٹھویں سانس: بھئی رحم کی اپیل کرنا زندگی بچانے کی بات ہے، جو سنت طریقے سے اک حکم بھی ہے۔

نویں سانس: یہ کام جماعتیوں یا انصافیوں نے نہیں، سیکولر قوم پرستوں نے کیا ہے۔
دسویں سانس: بس جی، پاکستانی گرم مصالحے اور مرچیں کھاتے ہیں، اس لیے گرم مزاج ہیں۔

گیارہویں سانس: ریاست قانون پر عمل نہیں کرے گی تو گلی گلی غازی علم دین اور ممتاز قادری پیدا ہونگے۔ نعرہ رسالت، یا رسول اللہ۔
بارہویں سانس: دنیا ہمیں اور ہمارے دین کو سمجھتی ہی نہیں۔ ہمارے نبی رحمت اللعالمین ہیں۔ (رقت طاری)

تیرہویں سانس: مشال کی فیس بک پوسٹس دیکھ لو۔ وہ گستاخ تھا، اس لیے قتل ہوا۔
چودہویں سانس: اوہو بھئی، فیس بک اور سکرین شاٹس تو ایڈٹ بھی ہو سکتے ہیں۔

پندرہویں سانس: تم …. ہو، تمہاری ماں کی ….، بھین….، مولانا پر بات کرتے ہو؟
سولہویں سانس: ہائے، ہمارے آقا نے ساری عمر کسی سے اونچی آواز میں بات نہ کی۔ (رقت طاری)

سترہویں سانس: جب تک مشال پیدا ہوتے رہیں گے، تب تک قتل ہوتے رہیں گے۔
اٹھارہویں سانس: جس نے اک انسان قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو مارا۔ (رقت طاری)

انیسویں سانس: بھئی دلائل کیا ہوتے ہیں، حوالہ جات ہیں کہ ایسے کرتوت کرنے والوں کی گردنیں کاٹ دی گئیں۔ ثبوت بعد کی بات ہے۔ کچھ تو کہا یا کیا ہوگا ناں؟
بیسویں سانس: بھئی ہمیں تو حکم ہے کہ جب تک بات کی تصدیق نہ کرلیں، تب تک اسے آگے پھیلا کر، ہم منافق کیونکر بنیں؟

اکیسویں سانس: صوابی کے ملا نے ٹھیک کیا اس کا جنازہ نہ پڑھا کر۔
بائیسویں سانس: ہمارے آقا نے تو عبداللہ بن ابی کو قبر میں اتارا تھا۔ (رقت طاری)

تیئسویں سانس مجھے اپنی گردن پر محسوس ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).