صاحبِ کرامات۔۔۔ ایک عقیدت مند پنجابی کسان کی کہانی


جیناں خوبصورت تھی۔ اپنی ماں کی طرح ان دو برسوں میں اس نے ایک دم بڑھنا شروع کردیا تھا اور دیکھتے دیکھتے جوان مٹیار بن گئی تھی جس کے انگ انگ سے جوانی پھوٹ پھوٹ کے نکل رہی تھی۔ چوہدری موجو کو اب اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر بھی تھی۔ یہاں پھر اس کی پھاتاں یاد آتی۔ یہ کام وہ کتنی آسان سے کرسکتی تھی۔

کھری کھاٹ پر چوہدری موجو نے اپنی نشست اور اپنا تہمد درست کرتے ہوئے چموڑے سے غیر معمولی لمبا کش لیا اور کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے دوران میں کسی کی آواز آئی۔’’ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔‘‘

چوہدری موجو نے پلٹ کر دیکھا تو اسے سفید کپڑوں میں ایک دراز ریش بزرگ نظر آئے۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور سوچنے لگا کہ یہ شخص کہاں سے آگیا ہے۔

دراز ایش بزرگ کی آنکھیں بڑی بڑی اور با رعب تھیں جن میں سرمہ لگا ہوا تھا۔ لمبے لمبے پٹے تھے۔ ان اور داڑھی کے بال کھچڑی تھے۔ سفید زیادہ اور سیاہ کم۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ کاندھے پر ریشم کا کاڑھا ہوا بسنتی رومال۔ ہاتھ میں چاندی کی موٹھ والا موٹا عصا تھا۔ پاؤں میں لال کھال کا نرم ونازک جوتا۔

چوہدری موجو نے جب اس بزرگ کا سراپا غور سے دیکھا۔ تو اس کے دل میں فوراً ہی اس کا احترام پیدا ہوگیا۔ چارپائی پر سے جلدی جلدی اٹھ کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔’’ آپ کہاں سے آئے؟ کب آئے؟‘‘

بزرگ کی کتری ہوئی شرعی لبوں میں مسکراہٹ پیدا ہوئی۔’’ فقیر کہاں سے آئیں گے۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ ان کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ان کے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جدھر حکم دیا چل پڑے۔۔۔۔۔۔ جہاں ٹھہرنے کا حکم ہوا وہیں ٹھہر گئے۔‘‘

چوہدری موجو پر ان الفاظ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر بزرگ کا ہاتھ بڑے احترام سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔چوما، آنکھوں سے لگایا۔’’چوہدری موجو کا گھر آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘

بزرگ مسکرایا ہوا کھاٹ پر بیٹھ گیا اور اپنے چاندی کی موٹھ والے اعصا کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس پر اپنا سر جھکا دیا’’اللہ جل شانہ کو جانے تیری کون سی ادا پسند آگئی کہ اپنے اس حقیر اور عاصی بندے کو تیرے پاس بھیج دیا۔‘‘

چوہدری موجو نے خوش ہو کر پوچھا۔’’تو مولوی صاحب آپ اس کے حکم سے آئے ہیں؟‘‘

مولوی صاحب نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور کسی قدر خشم آلود لہجے میں کہا۔’’تو کیا ہم تیرے حکم سے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم تیرے بندے ہیں یا اس کے جس کی عبادت میں ہم نے پورے چالیس برس گزار کر یہ تھوڑا بہت رتبہ حاصل کیا ہے۔‘‘

چوہدری موجو کانپ گیا۔ اپنے مخصوص گنوار لیکن پر خلوص انداز میں اس نے مولوی صاحب سے اپنی تقصیر معاف کرائی اور کہا۔’’مولوی صاحب، ہم جیسے انسانوں سے جن کو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم گنہگار ہیں۔ ہمیں بخشوانا اور بخشنا آپ کا کام ہے۔‘‘

مولوی صاحب نے اپنی بڑی بڑی سرمہ لگی آنکھیں بند کیں اور کہا۔’’ہم اسی لیے آئے ہیں۔‘‘

چوہدری موجو زمین پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کے پاؤں دبانے لگا۔ اتنے میں اس کی لڑکی جیناں آگئی۔ اس نے مولوی صاحب کو دیکھا تو گھونگھٹ چھوڑ لیا۔

مولوی صاحب نے مندی آنکھوں سے پوچھا۔’’کون ہے چوہدری موجو؟‘‘

’’میری بیٹی مولوی صاحب۔۔۔۔۔۔جیناںٖ!‘‘

مولوی صاحب نے نیم وا آنکھوں سے جیناں کو دیکھا اور موجو سے کہا۔’’ ہم فقیروں سے کیا پردہ ہے۔۔۔۔۔۔اس سے پوچھو۔‘‘

’’کوئی پردہ نہیں مولوی صاحب۔۔۔۔۔۔ پردہ کیسا ہو گا۔‘‘ پھر موجو جیناں سے مخاطب ہوا۔‘’’ یہ مولوی صاحب جیناں۔ اللہ کے خاص بندے۔۔۔۔۔۔ ان سے پردہ کیسا۔ اٹھا لے اپنا گھونگھٹ!‘‘

جیناں نے اپنا گھونگھٹ اٹھا لیا۔ مولوی صاحب نے اپنی سرمہ لگی نظریں بھر کے اس کی طرف دیکھا اور موجو سے کہا۔’’ تیری بیٹی خوبصورت ہے چوہدری موجو!‘‘

جیناں شرما گئی۔ موجو نے کہا۔’’اپنی ماں پر ہے مولوی صاحب!‘‘

’’کہاں ہے اس کی ماں‘‘ مولوی صاحب نے ایک بار پھر جیناں کی جوانی کی طرف دیکھا۔

چوہدری موجو سٹپٹا گیا کہ جواب کیا دے۔

مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔’’اس کی ماں کہاں ہے چوہدری موجو۔‘‘

موجو نے جلدی سے کہا۔’’مر چکی ہے جی!‘‘

مولوی صاحب کی نظریں جیناں پر گڑی تھیں۔ اس کا ردعمل بھانپ کر انھوں نے موجو سے کڑک کر کہا۔’’ تو جھوٹ بولتا ہے۔‘‘

موجو نے مولوی صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور ندامت بھری آواز میں کہا۔’’ جی ہاں۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔۔۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردیجیے۔۔۔۔۔۔ میں بڑا جھوٹا آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کو طلاق دے دی تھی مولوی صاحب۔‘‘

مولوی صاحب نے ایک لمبی’ہوں‘ کی اور نظریں جیناں کی چدریا سے ہٹالیں اور موجو سے مخاطب ہوئے۔’’تو بہت بڑا گناہگار ہے۔۔۔۔۔۔کیا قصور تھا اس بے زبان کا؟‘‘

موجو ندامت میں غرق تھا۔’’کچھ نہیں معلوم مولوی صاحب۔۔۔۔۔۔ معمولی سی بات تھی جو بڑھتے بڑھتے طلا ق تک پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔ میں واقعی گنہگار ہوں۔۔۔۔۔۔ طلاق دینے کے دوسرے دن ہی میں نے سوچا تھا کہ موجو تو نے یہ کیا جھک ماری۔۔۔۔۔۔ پر اس وقت کیا ہو سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔۔۔۔۔۔پچھتاوے سے کیا ہوسکتا تھا مولوی صاحب۔‘‘

مولوی صاحب نے چاندی کی موٹھ والا عصا موجو کے کاندھے پر رکھ دیا۔’’ اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے۔ وہ بڑا رحیم ہے،بڑا کریم ہے۔۔۔۔۔۔ وہ چاہے تو ہر بگڑی بنا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا حکم ہوا تویہ حقیر فقیر، ہی تیری نجات کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔‘‘

ممنون و تشکر چوہدری موجو مولوی صاحب کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا اور رونے لگا۔ مولوی صاحب نے جیناں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی اشک رواں تھے۔’’ادھر آ لڑکی۔‘‘

مولوی صاحب کے لہجے میں ایسا تحکم تھا۔ جس کو رد کرنا جیناں کے لیے ناممکن تھا۔

روٹی اور لسی ایک طرف رکھ کر وہ کھاٹ کے پاس چلی گئی۔ مولوی صاحب نے اس کو بازو سے پکڑا اور کہا۔’’بیٹھ جا۔‘‘

جیناں زمین پر بیٹھنے لگی تو مولوی صاحب نے اس کا بازو اوپر کھینچا۔’’ادھر میرے پاس بیٹھ۔‘‘

جیناں سمٹ کر مولوی صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب نے اس کی کمر میں ہاتھ دے کر اس کو اپنے قریب کرلیا اور ذرا دبا کر پوچھا۔’’ کیا لائی ہے تو ہمارے کھانے کے لیے۔‘‘

جیناں نے ایک طرف ہٹنا چاہا مگر گرفت مضبوط تھی۔ اس کو جواب دینا پڑا۔

’’جی۔۔۔۔۔۔جی روٹیاں ہیں۔ ساگ ہے اور لسی۔‘‘

مولوی صاحب نے جیناں کی پتلی مضبوط کمر اپنے ہاتھ سے ایک بار پھر دبائی’’چل کھول کھانا اور ہمیں کھلا۔‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5