عورت، صنفی تعصب اور ہمارے سماجی رویے


مذہب، ثقافت، لسانیت اور جغرافیہ کی بنیاد پر جنم لینے والے تعصبات کے ساتھ صنف کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے تعصبات بھی ہر معاشرے کا حصہ ہیں۔ تاہم صنفی تعصبات کی شدت اور حجم کا ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں فرق ہے۔ اسی طرح صنفی تعصب کے پیچھے کارفرما عوامل اور ان تعصبات کے تدارک کے لیے قوانین اور اقدامات میں بھی فرق ہے۔ تاہم ہر معاشرے میں صنفی تعصب کی مشترک اور مستقل قدر اس تعصب کا شکار ’صنفِ نازک‘ کا ہونا ہے۔

اگر ہم اپنے معاشرے کی بات کریں تو ہمیں صنفی تعصب کی بنیاد پر عورت کو روایتی طور پر مرد کی نسبت زیادہ جذباتی، کم عقل، کمزور، تابع اور مرد پر انحصار کرنے والی صنف تصور کیا جاتا ہے۔ عورت کو مرد کے ماتحت اور ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو ’معصوم‘ مرد کو بہکانے اور گمراہ کرنے والی مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

ان دلائل کو ثابت کرنے کے لیے مذہبی اور ثقافتی روایات کو بطورِ استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیحی مذہبی روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو ممنوع پھل کھانے پر حضرت حوا علیہ السلام نے بہکایا، جس کا خمیازہ حضرت آدم کو زمین پر بھیجنے اور دنیا کی صعوبتیں برداشت کرنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اسلام میں عورت کو دوسرے درجہ کی مخلوق ثابت کرنے کے لیے عورت کو مرد کے پیچھے نماز پڑھنے کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ رجعت پسند یہودیت کے ہاں عورت کو مذہبی رسومات میں بطورِ ناظر اور مشاہدہ کے لیے شرکت کی اجازت ہے اور نہ برابر شراکت اور شمولیت کی۔

مذہب کے علاوہ اگر ہم اپنے آرٹ، ادب، سیاست، معیشت اور دیگر معاشرتی اداروں پر نظر ڈالیں تو ہمیں واضح صنفی تعصب اور عورت کا دوسرا درجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی بھی ثقافت میں پائے جانے والے عوامل کی بات کریں تو رسم و روایات اور عقائد کی نسبت اس کی زبان کا غلبہ واضح اور اہم ہوتا ہے۔ اگر ہم اردو اور دیگر مقامی زبانوں کے ادب کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ کریں تو ہمیں واضح طور پر مرد کی نسبت عورت کا ذکر بہت کم اور وہ بھی دوسرے درجہ کی مخلوق کے طور پر ملتا ہے۔

عورت کے معاشرتی اور سیاسی مثبت کردار اور قربانیوں کا بہت کم تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مرد کی بہادری کے قصے، اس کی تاریخ، اور اس کا سیاست و معاشرے میں کردار تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا جبکہ عورت کے معاشرتی اور سیاسی کردار کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔ چند با ظرف شعرا اور نثر نگاروں کے علاوہ عورت کی خوبصورتی، حسن اور نازکی کا بیان بیہودہ، رذیل، عامیانہ، ناشائستہ اور اوچھے انداز اور جسمانی تفصیل میں ملتا ہے۔ نثر میں بھی مرد کو طاقت کا مرکز جبکہ عورت کو سست، غیر مزاحمتی، غیر متحرک، غیر فعال صنف کے استعارہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عورت کی جسمانی نمائش صرف ادب میں نہیں بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں چلنے والے اشتہارات سے بھی ہوتی ہے، جس میں عورت کی صنفی نمائش کر کے متعلقہ صنعت اور مصنوعات کی طرف صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

روزمرہ زندگی کا مشاہدہ کیجئے۔ قصور بھائی، باپ، بیٹے یا شوہر کا ہو گا بدزبانی اور گالم گلوچ قصوروار کی بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کو دے کر حساب برابر کیا جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑا، قتل و غارت مرد کرے لیکن بطور ہرجانہ اور قصاص عورت کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ دیکھ لیجیے۔ بیٹے اور بھائی کی نسبت بیٹی اور بہن کو تعلیم کے بنیادی حق سے محض یہ کہہ کر محروم کر دیا جاتا ہے کہ ’ہم نے کون سا استانی لگوانی ہے‘ ۔ معیشت میں دیکھیں تو عورتوں کی ملازمت میں تنخواہ کم اور پیشہ ورانہ درجہ عموماً مردوں کی نسبت نچلا ہوتا ہے۔ ایسے پیشے جن سے عورتیں منسلک ہیں مثلاً نجی اسکول ٹیچرز، بچوں کی نگہداشت اور گھریلو ملازمہ کا معاوضہ انتہائی کم ہے۔ مزید برآں ذہنی پریشانی، ذلت اور جسمانی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی طرح کاروبار، شعبہ تعلیم، آرمی، سرکاری و غیر سرکاری اور دیگر معاشی و سیاسی اداروں کی سرپرستی اور قیادت میں عورتوں کا تناسب بہت کم ہے۔

محولہ بالا بیان کردہ استحصال کے علاوہ عورت کی سب سے خطرناک تصویر اسے مرد کی پرتشدد فطرت کے مقابلے بے بس، بے اختیار، ناتواں، لاچار، کمزور، عاجز، مجبور، کند ذہن اور ناسمجھ مخلوق کے طور پر پیش کیا جانا ہے۔ عورت کی بیان کردہ اس تصویر کی وجہ سے اسے احساس کمتری، ذہنی اذیت کے ساتھ مرد کے ہاتھوں جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد جیسے منفی رویوں کا سامنا رہتا ہے۔

عورت کو مرد کے تجویز کندہ اور حاکمانہ رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عوامی مقامات اور بازار جانے کے لیے ان کے ساتھ ’قابل اعتماد‘ مرد کا ہونا لازم قرار ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ یا تو وہ خود مرد کی ہوس بھری نظروں کا سامنا نہیں کر سکتی یا پھر اسے گھر سے ’اجازت‘ نہیں ملتی۔ یوں ان کا اکیلے آنا مبینہ پردے کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ ہم بجائے اس کے کہ اپنی بیمار ذہنیت کا ماتم کریں الٹا عورت کو ’بے حیائی‘ کی علامت قرار دیتے ہیں۔

مرد تو پسند کی شادی کر سکتے ہیں جبکہ ہماری بہن یا بیٹی اپنا یہ اسلامی اور آئینی حق استعمال کرنا چاہے تو ہماری ’غیرت‘ آڑے آجاتی ہے۔ حالانکہ بیٹی کی پسند ناپسند کا خیال رکھنا عین سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا حضرت علیؓ سے نکاح کرنے سے پہلے رائے اور رضامندی پوچھ کر نکاح کیا۔ جب ہم اپنی انا اور نام نہاد عزت کی خاطر اپنی بیٹی اور بہن کی مرضی کے خلاف اقدام اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں گھریلو ناچاقی اور طلاق جیسے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر چار و ناچار ہماری بہن، بیٹی ہماری انا کے سامنے جھکنے سے انکار کردے تو ہم اسے ’غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیتے ہیں۔

چھوٹی عمر میں شادی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ باپ بعض اوقات محض اپنے معاشی مفادات کی خاطر معصوم بیٹیوں کی ان سے کئی گنا بڑی عمر کے مردوں سے شادی کر دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ زچہ و بچہ دونوں پر پوری زندگی مضر صحت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم عورت کو ’سبق‘ سکھانے کے لیے طلاق دے دیتے ہیں۔ جس سے عمر بھر کے لیے وہ ذہنی، معاشی اور معاشرتی تذلیل کا شکار رہتی ہے۔ اگر کوئی عورت ہماری ہوس کا شکار بننے سے انکار کردے تو ہم اس پر تیزاب پھینک کر اس کو ساری زندگی کے لیے اس لیے اپاہج بنا دیتے کہ ’میرے نہیں تو کسی اور جوگی بھی نہیں رہے گی‘ ۔

عورت کو اول تو سوشل میڈیا تک رسائی بہت کم ہے، لیکن جن کو ہے اگر وہ ہماری رائے کے مخالف رائے رکھنے کا ’ناقابل معافی‘ جرم کر لیں تو ہم ان کی کردارکشی اور عزت پر کیچڑ اچھالنا اپنا ’فرض‘ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ان رویوں کی وجہ سے عورت کا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کردار سکڑ کر رہ گیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صنفی تعصب اور معاشرتی نا انصافی کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ان وجوہات میں ہماری بیمار ذہنیت، مرد ’اسٹیٹس کو‘ کے خاتمے کی خوفزدگی، بنیادی آئینی و اسلامی اصولوں سے لاعلمی، تعلیم کا فقدان، ہٹ دھرمی، اور سب سے بڑھ کا عورتوں کا ان کے آئینی حقوق سے لاعلمی ہے۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ ہے جو عورت کو صرف اور صرف گھر کی زینت بنائے رکھنے کا قائل ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اس کے برعکس تمام بنیادی معاشرتی حدود و قیود کو روند کر عورت کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ تاہم ان دونوں گروہوں کے دلائل اپنی جگہ، ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانا ہے۔

اگرچہ عورت اور مرد کے درمیان جسمانی (بائیولوجیکل) مساوات اور مماثلت نہیں ہے، تاہم اس درجہ بندی اور فرق کی اہمیت اپنی جگہ قائم رکھتے ہوئے اس فرق کو دوسرے درجہ کا سمجھا جائے۔ یہاں پر برابری کا مطلب اس کی جسمانی برابری نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کی برابری ہے۔ عورت کی جسمانی ساخت، مذہب، سماجی روایات، سیاسی نظام، معیشت اور قانون کو عورت کے استحصال کے بجائے اس کی آزادی اور حقوق کی برابری کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومتی سطح پر متعلقہ قوانین پر عملدرآمد جبکہ عوامی سطح پر اپنے سماجی رویوں کو فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید برآں عورتوں کو اپنے آئینی حقوق سے متعلق جانکاری لازمی ہونی چاہے۔ ان حقوق کی آگاہی کے لیے ایک طرف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کردار ادا کرنا ہو گا، جبکہ دوسری طرف تعلیمی اداروں میں اس آگاہی کے لیے ایسے کورسز کی تشکیل کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).