منٹو نے “ٹھنڈا گوشت” کا دفاع کیسے کیا؟ (1)



بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً سات یا آٹھ جنوری 1948ء کو یہاں لاہور پہنچا۔ تین مہینے میرے دماغ کی عجیب و غریب حالت رہی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ بمبئی میں ہوں۔ کراچی میں اپنے دوست حسن عباس کے گھر بیٹھا ہوں یا لاہور میں ہوں جہاں کئی ریستورانوں میں قائد اعظم فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں رقص و سرود کی محفلیں اکثر جمتی تھیں۔

تین مہینے تک میرا دماغ کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پردے پر ایک ساتھ کئی فلم چل رہے ہیں۔ آپس میں گڈمڈ۔ کبھی بمبئی کے بازار اور اس کی گلیاں، کبھی کراچی کی چھوٹی چھوٹی تیز رفتار ٹریمیں اور گدھا گاڑیاں اور کبھی لاہور کے پرشور ریستوران۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا میں کہاں ہوں۔ سارا دن کرسی پر بیٹھا خیالات میں کھویا رہتا۔ آخر ایک دن چونکا کیونکہ جو روپیہ میں بمبئی سے اپنے ساتھ لایا تھا، کچھ تو گھر میں اور کچھ گھر سے کچھ دور کلفٹن بار میں جذب ہو چکا تھا۔ اب مجھے قطعی طور پر معلوم ہو گیا کہ میں لاہور میں ہوں۔ جہاں کبھی کبھی میں اپنے مقدمات کے سلسلے میں آیا کرتا تھا اور کرنال شاپ سے بہت سے خوبصورت چپل خرید کر اپنے ساتھ لے جایا کرتا تھا۔

میں نے سوچنا شروع کیا کہ اب کیا کام کیا جائے۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ تقسیم کے بعد فلمی کاروبار قریب قریب مفلوج ہو چکا ہے جن فلم کمپنیوں کے بورڈ نظر آتے ہیں، وہ ان بورڈوں ہی تک محدود ہیں۔ بہت تشویش ہوئی۔ الاٹمنٹوں کا بازار گرم تھا۔ مہاجر اور غیر مہاجر دھڑا دھڑ اپنے اثر و رسوخ سے کارخانے اور دکانیں الاٹ کرا رہے تھے۔ مجھے مشورہ دیا گیا، مگر میں نے اس لوٹ کھسوٹ میں حضہ نہ لیا۔

انہی دنوں معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت مل کر ایک روزنامہ جدید خطوط پر شائع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ میں ان حضرات سے ملا۔ اخبار کا نام ”امروز“ تھا جو آج ہر ایک کی زبان پر ہے۔ پہلی ملاقات پر اخبار کی ”ڈمی“ تیار کی جا رہی تھی۔ دوسری ملاقات ہوئی تو ”امروز“ کے غالباً چار پرچے نکل چکے تھے۔ اخبار کی گٹ اپ دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔ طبیعت میں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ لکھوں لیکن جب لکھنے بیٹھا تو دماغ کو منشتر پایا۔ کوشش کے باوجود ہندوستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ نہ کر سکا۔ بار بار دماغ میں یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا۔ کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہو گا۔ اگر ہو گا تو کیسے ہو گا۔ وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا تھا اس کا مالک کون ہے۔ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں۔ کیا ادھر اردو بالکل ناپید ہو جائے گی۔ یہاں پاکستان میں اردو کیا شکل اختیار کرے گی۔ کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی۔ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے۔

گردوپیش جدھر بھی نظر ڈالتا تھا، انتشار ہی انتشار دکھائی دیتا تھا۔ کچھ لوگ بے حد خوش تھے۔ کیونکہ ان کے پاس ایک دم دولت آ گئی تھی، لیکن اس خوشی میں بھی انتشار تھا۔ جیسے وہ بکھر کر ایک دن ہوا ہو جانے والی ہے۔ اکثر مغموم و متفکر تھے کیونکہ وہ لٹ پٹ کر آئے تھے۔ مہاجروں کے کیمپ دیکھے۔ یہاں خود انتشار کے رونگٹے کھڑے دیکھے۔ کسی نے کہا اب تو حالات بہت بہتر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی حالت دیدنی تھی۔ میں سوچنے لگا اگر یہ حالات کی بہتری ہے تو ابتری معلوم نہیں کیسی ہوگی۔ غرض کہ عجیب افراط و تفریط کا عالم تھا۔ ایک کا قہقہہ دوسرے کی آہ سے دست و گریباں تھا۔ ایک کی زندگی دوسرے کے عالم نزع سے مصروف پیکار تھی۔ دو دھارے بہہ رہے تھے۔ ایک زندگی کا دھارا۔ ایک موت کا۔ ان کے درمیان خشکی تھی جس پر گر سنگی و تشنگی، شکم سیری و بلا نوشی ساتھ ساتھ چلتی تھیں!

فضا پر مردنی طاری تھی۔ جس طرح گرمیوں کے آغاز میں آسمان پر بے مقصد اڑتی ہوئی چیلوں کی چیخیں اداس ہوتی ہیں، اسی طرح ”پاکستان زندہ باد“ اور ”قائد اعظم زندہ باد“ کے نعرے بھی کانوں کو اداس اداس لگتے تھے۔ ریڈیو کی لہریں اقبال مرحوم کا یک آہنگ کلام شب و روز اپنے کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر تھک اور اکتا گئی تھیں۔ فیچر پروگرام کچھ اس قسم کے ہوتے تھے کہ مرغیاں کس طرح پالی جاتی ہیں۔ جوتے کیسے بنائے جاتے ہیں۔ فن زراعت کیا ہے۔ ریفیوجی کیمپوں میں کتنے آدمی آئے اور کتنے گئے۔ قریب قریب تمام درخت ننگے بچے تھے۔ سردیوں سے بچنے کے لئے غریب مہاجرین نے ان کی چھال اتار کر اپنی کھال گرم کی تھی۔ ٹہنیاں کاٹ کر پیٹ کی آگ ٹھنڈی کی تھی۔ ان ننگے بچے درختوں سے فضا اور بھی دل شکن حد تک اداس ہو گئی تھی۔ بلڈنگوں کی طرف دیکھتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا سوگ میں ہیں۔ ان کے مکیں بھی ماتم زدہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے۔ کھیلتے تھے۔ کوئی کام مل جاتا تھا تو وہ بھی کرتے تھے مگر گویا یہ سب کچھ خلا میں ہو رہا تھا۔ ایک ایسے خلا میں جو لبالب ہونے پر بھی خالی تھا۔

میں اپنے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی سے ملا۔ ساحر لدھیانوی سے ملا۔ ان کے علاوہ اور لوگوں سے بھی ملا۔ سب میری طرح ذہنی طور پر مفلوج تھے۔ میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ جو اتنا زبردست بھونچال آیا ہے، شاید اس کے کچھ جھٹکے آتش فشاں پہاڑ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ باہر نکل آئیں تو فضا کی نوک پلک درست ہوگی، پھر صحیح طور پر معلوم ہو سکے گا کہ صورت حالات کیا ہے۔

سوچ سوچ کر میں عاجز آ گیا تھا، چنانچہ آوارہ گردی شروع کر دی۔ بے مطلب سارا دن گھومتا رہتا۔ خود خاموش رہتا لیکن دوسروں کی سنتا رہتا۔ بے ہنگم باتیں، بے جوڑ دلیلیں، خام سیاسی مباحثے۔ اس آوارہ گردی سے یہ فائد ہ ہوا کہ میرے دماغ میں جو گردوغبار اڑ رہا تھا، آہستہ آہستہ بیٹھ گیا اورمیں نے سوچا کہ ہلکے پھلکے مضامین لکھنا چاہئیں۔ چنانچہ میں نے ”ناک کی قسمیں“ ، ”دیواروں پر لکھنا“ جیسے فکاہیہ مضامین ”امروز“ کے لئے لکھے جو پسند کیے گئے۔ آہستہ آہستہ مزاح خود بخود طنزیہ رنگ اختیار کر گیا۔ یہ تبدیلی مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میں لکھتا گیا اور میرے قلم سے ”سوال پیدا ہوتا ہے“ اور ”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ جیسے تیز و تند مضمون نکل گئے۔ جب مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ میرے قلم نے گردوپیش چھائی ہوئی دھند میں ٹٹول ٹٹول کر ایک راستہ تلاش کر لیا ہے تو مجھے خوشی ہوئی۔ دماغ کا بوجھ بھی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ میں نے زور شور سے لکھنا شروع کر دیا۔ مضامین کا یہ مجموعہ بعد میں ”تلخ ترش اور شیریں“ کے عنوان سے شائع ہوا۔

طبیعت افسانے کی طرف مائل نہیں ہوتی تھی۔ اس صنف ادب کو میں بہت سنگین سمجھتا ہوں۔ اس لئے افسانہ لکھنے سے گریز کرتا تھا، لیکن انہی دنوں میرے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی جو غالباً اوٹ پٹانگ چیزیں لکھ لکھ کر تنگ آ گئے تھے، ریڈیو پاکستان، پشاور سے علیحدہ ہو کر لاہور چلے آئے اور ادارہ فروغ اردو کے اشتراک سے ایک ماہنامہ پرچہ ”نقوش“ جاری کیا۔ ان کے اصرار کے باوجود میں ”نقوش“ کے پہلے چند پرچوں کے لئے کوئی کہانی نہ لکھ سکا۔ جب وہ ناراض ہو گئے تو میں نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ لکھا جو میرے اس مجموعے کا اب عنوان ہو گیا ہے۔

قاسمی صاحب نے یہ افسانہ میرے سامنے پڑھا۔ وہ خاموش پڑھتے رہے، مگر مجھے ان کا رد عمل معلوم نہ ہو سکا۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے معذرت بھرے لہجے میں کہا، ”منٹو صاحب معاف کیجئے، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن ’نقوش‘ کے لئے بہت گرم ہے۔“ قاسمی صاحب سے کبھی بحث نہیں ہوئی تھی، اس لئے میں نے خاموشی سے افسانہ واپس لے لیا اور ان سے کہا، ”بہت بہتر تو میں آپ کے لئے دوسرا افسانہ لکھ دوں گا آپ کل شام تشریف لے آئیے گا۔“ قاسمی صاحب جب دوسرے روز شام کو تشریف لائے تو میں اپنے دوسرے افسانے ”کھول دو“ کی اختتامی سطور لکھ رہا تھا، میں نے قاسمی صاحب سے کہا، ”ایک منٹ۔ آپ بیٹھئے، میں افسانہ مکمل کر کے آپ کو دیتا ہوں۔ اس افسانے کی اختتامی سطور چونکہ بہت ہی اہم تھیں اس لئے قاسمی صاحب کو کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ جب افسانہ مکمل ہو گیا تو میں نے مسودہ ان کے حوالے کر دیا،“ پڑھ لیجیے۔ خدا کرے آپ کو پسند آ جائے۔ ”

قاسمی صاحب نے افسانہ پڑھنا شروع کیا۔ اختتامی سطور پر پہنچے تو میں نے نوٹ کیا جیسے کسی نے ان کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد وہ کچھ نہ بولے۔ میں نے ان سے پوچھا، ”کیسا ہے؟“ قاسمی صاحب پر افسانے کا اثر ابھی تک غالب تھا۔ مختصراً کہا، ”اچھا ہے۔ میں لئے جاتا ہوں۔“ اور آپ رخصت لے کر چلے گئے۔ ”کھول دو“ قاسمی صاحب کے پرچے ”نقوش“ میں شائع ہوا۔ قارئین نے پسند کیا۔ ہر ایک کا رد عمل یکساں تھا۔ آخری سطور سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھیں، لیکن ایک دم ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا حادثہ وقوع پذیر ہوا۔ حکومت کو یہ افسانہ امن عامہ کے مفاد کے منافی نظر آیا، چنانچہ حکم ہوا، ”نقوش“ کی اشاعت چھ مہینے تک بند رہے۔ اخباروں میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاجاً بہت کچھ لکھا گیا مگر امتناعی حکم اپنی جگہ پر قائم رہا۔ میں نے ایک روز قاسمی صاحب سے مسکرا کر کہا، ”اگر آپ ’ٹھنڈا گوشت‘ شائع کرتے تو شاید یہ بجلی آپ کے آشیانے پر نہ گرتی۔“

کافی دن گزرنے پر ”ادب لطیف“ کے نائب مدیر میرے پاس آئے اور ”ٹھنڈا گوشت“ لے گئے۔ افسانے کی کتابت ہو گئی۔ کاپیاں جم گئیں۔ پروف نکل آئے۔ غلطیاں درست کر کے جب واپس پریس میں گئیں تو کسی کی نظر ”ٹھنڈا گوشت“ والی کاپی پر پڑی۔ اس نے افسانہ پڑھا تو چھاپنے سے انکار کر دیا۔ قہر درویش برجان درویش، اس افسانے کے بغیر ہی پرچہ شائع کیا گیا۔ چودھری برکت علی صاحب کوئٹے میں تھے۔ واپس آئے تو انہوں نے ”ادب لطیف“ کے دوسرے شمارے میں ”ٹھنڈا گوشت“ چھپوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ افسانے کا مسودہ مجھے واپس دے دیا گیا۔

اس دوران میں کراچی سے محترمہ ممتاز شیریں کے متعدد خط آ چکے تھے کہ میں ان کے ”نیا دور“ کے لئے کوئی افسانہ بھیجوں۔ میں نے اٹھا کر ”ٹھنڈا گوشت“ ان کو روانہ کر دیا۔ کافی دیر کے بعد جواب آیا کہ ہم دیر تک سوچتے رہے کہ اسے شائع کیا جائے یا نہیں۔ افسانہ بہت اچھا ہے۔ مجھے بہت پسند ہے لیکن ڈر ہے کہ حکومت کے احتساب کے شکار نہ ہو جائیں۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ یہاں سے بھی ٹھنڈا ہو کر واپس میرے پاس پہنچ گیا۔ میں نے سوچا اب اسے کسی رسالے میں نہیں چھپوانا چا ہیئے۔

چھ مہینے کی مدت پوری نہیں ہوئی تھی کہ حکومت نے ”نقوش“ پر سے ”نہ چھاپو“ والی قید ہٹا دی، چنانچہ میں نے ”نیا ادارہ“ کے لئے ایک مجموعہ مرتب کیا جس کا عنوان میں نے ”نمرود کی خدائی“ رکھا، اس میں ”کھول دو“ کے ساتھ میں نے ”ٹھنڈا گوشت“ بھی شامل کر دیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ عزیزی عارف عبد المتین رسالہ ”جاوید“ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تو آپ میرے پیچھے پڑ گئے کہ ان کو ”ٹھنڈا گوشت“ کا مسودہ اشاعت کے لئے دوں۔ کافی دیر میں نے ٹال مٹول کی مگر آخر ان کے پیہم اصرار پر میں نے ”نیا ادارہ“ کے مالک چودھری نذیر احمد صاحب کو ایک چٹ لکھ دی کہ یہ ”جاوید“ والے اپنا پرچہ ضبط کرانا چاہتے ہیں۔ براہ کرم ان کو ”ٹھنڈا گوشت“ کا مسودہ دے دیجئے۔ عارف صاحب افسانے کا مسودہ لے آئے اور اسے ”جاوید“ کے خاص نمبر مطبوعہ مارچ 1949ء میں شائع کر دیا۔

پرچہ چھپ کر مارکیٹ میں آ گیا۔ اندرونی اور بیرونی ایجنسیوں میں بھی تقسیم ہو گیا۔ یہاں تک تو خیریت رہی۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ میں مطمئن ہو گیا کہ اب ”ٹھنڈا گوشت“ پر کوئی آفت نہیں آئے گی، مگر پریس برانچ کی باگیں ابھی تک چودھری محمد حسین صاحب (اب مرحوم) کے ہاتھ میں تھیں۔ گو ضعیفی کے باعث ان کے ہاتھ بہت کمزور ہو چکے تھے۔ مگر انہوں نے زور کا ایک جھٹکا دیا اور پولیس کی مشینری حرکت میں آ گئی۔ میں نے ایک روز اڑتی اڑتی سنی کہ چھاپہ پڑا ہے اور پولیس ”جاوید“ کے خاص نمبر کے پرچے اٹھا کر لے گئی ہے۔ میں نے جان پہچان کے چند لوگوں سے پوچھا۔ کسی نے اس خبر کی تصدیق کی۔ کسی نے کہا، ”اجی ہٹایئے، یہ جاوید والوں کا پبلسٹی اسٹنٹ ہے۔“ اس دوران میں ”جاوید“ کے مالک مسٹر نصیر انور کا رقعہ ملا۔

”منٹو صاحب! ایک خبر سنئے۔ آج پولیس نے دفتر“ جاوید ”پر چھاپہ مارا۔ تلاشی لینے پر بچے کھچے چند پرچے اپنے قبضے میں لے لئے۔ باقی پرچوں کی جانچ پڑتال ہوئی تو ڈسپیچ رجسٹر نے واضح کر دیا کہ تمام پرچہ ہندو پاک کے مختلف اسٹیشنوں پر سپلائی ہو چکا ہے۔ رجسٹر میں سے تمام ایجنسیوں کے پتے نوٹ کر لئے گئے اور آئندہ سپلائی کا حساب کتاب بند کر دیا گیا۔ یہ کارروائی گرفتاری کا پیش خیمہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ملزموں کے کٹہرے میں ہوں گے۔ لیکن ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ایک مقامی ادارہ اس چھاپے کو اختراع اور پروپیگنڈے سے منسوب کرتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ خیر اس کی تصدیق خود بخود ہو جائے گی۔ مجھے تو یہ کہنا ہے کہ اب ذرا وہیں چلیے ۔ جہاں تین بار سزا پانے پر آپ بری قرار دیے گئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بار آخری بار ہو گی۔“

خبر کی تصدیق ہو گئی۔ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش ہوا جس کے کنوینر کرنل فیض احمد فیضؔ ایڈیٹر پاکستان ٹائمز تھے۔ اس میں ”جاوید“ کے مالک مسٹر نصیر انور بھی موجود تھے۔ ان کی زبانی اس میٹنگ کی مختصر روئیداد سنئے، ”پاکستان ٹائمز کے دفتر میں پریس ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ تھی۔ فیض احمد فیضؔ کنوینر تھے۔ میٹنگ میں ایف ڈبلیو بسٹن (سول ملٹری گزٹ) مولانا اختر علی (زمیندار) حمید نظامی (نوائے وقت) وقار انبالوی (سفینہ) اور امین الدین صحرائی (جدید نظام) شریک تھے۔ چودھری محمد حسین نے“ جاوید ”کا خاص نمبر پیش کیا۔ آپ نے سب سے پہلے پرچے کے باغیانہ اور اشتعال انگیز مضامین نظم و نثر گنوائے۔“ غلامی سے آزادی تک ”،“ رقص بسمل ”،“ سیلاب چین ”یہ تھیں نظمیں۔ مضامین میں سے“ لورینگ سے فلیٹی تک ”،“ کھیڑا بہادر کی جے ”اور“ چین کتنی دور ہے ”زیر بحث لائے گئے۔

فیض حکومت کے عائد کردہ الزام کی تردید کرتے رہے۔ دیگر اراکین نے ہاں میں ہاں ملائی اور یوں یہ سیاسی الزام ٹل گیا، لیکن نزلہ گرا ”ٹھنڈا گوشت“ پر۔ فیض نے جب اسے غیر فحش قرار دیا تو مولانا اختر علی گرج اٹھے۔ ”نہیں نہیں، اب ایسا ادب پاکستان میں نہیں چلے گا۔“ جناب صحرائی نے اس پر صاد کیا۔ وقار صاحب نے افسانے کو ملعون و مطعون قرار دیا۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کا ساتھ دیا اور جب ایف ڈبلیو بسٹن کو چودھری صاحب نے انگریزی میں ”ٹھنڈا گوشت“ سمجھایا تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ فرمانے لگے، ”اس کہانی کی تھیم یہ ہے کہ ہم مسلمان اتنے بے غیرت ہیں کہ سکھوں نے ہماری مردہ لڑکی تک نہیں چھوڑی۔“ مجھے ہنسی تو آ گئی تھی، لیکن جب صاحب غلط ترجمانی پر مصر رہے تو مجھے افسوس ہوا۔ میں نے لاکھ سمجھایا۔ فیض صاحب نے بھی ہر طرح سے اطمینان دلایا، لیکن فیصلہ یہ ہوا کہ اب عدالت ہی اس کا فیصلہ کرے۔ ”

چنانچہ چند دن بعد میں، نصیر انور اور عارف عبد المتین گرفتار کر لئے گئے۔ گرفتار کرنے والے سب انسپکٹر چودھری خدا بخش تھے۔ بے حد شریف، کئی دن میرے مکان کے چکر کاٹتے رہے۔ ان دنوں میں اکثر باہر ہوتا۔ آخر ایک روز وہ مجھ سے ملنے میں کامیاب ہو گئے۔ بڑے اخلاق سے پیش آئے اور کہا، ”کل صبح کسی دوست کے ساتھ تھانہ سول لائنز میں تشریف لے آئیے گا تاکہ آپ کی ضمانت ہو جائے۔“ اس سے پہلے کئی مرتبہ مجھے پولیس کے آدمیوں سے پالا پڑ چکا تھا۔ چودھری خدا بخش صاحب کا نرم رویہ مجھ پر بہت اثر انداز ہوا۔ دوسرے روز صبح کو میں تھانے میں حاضر ہو گیا۔ میرے دوست شیخ سلیم نے دستخط کیے اور ہم مقدمے کے پہلے مرحلے سے فارغ ہو گئے۔ عارف عبدالمتین بہت ہی پریشان تھے۔ ان کا حلق خشک ہو جاتا تھا۔ یہ حیرت کی بات ہے۔ کیونکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم کارکن ہیں۔ عدالت سے خدا معلوم کیوں اتنے خائف تھے۔ بہرحال سمن جاری ہوئے۔ سماعت کی تاریخ مقرر ہوئی اور ہم تینوں ضلع میں حاضر ہوئے۔

میرے لئے یہ جگہ کوئی نئی جگہ نہیں تھی۔ اپنے پچھلے تین مقدموں کے سلسلے میں یہاں کئی مرتبہ آ چکا تھا اور دھول پھانک چکا تھا۔ نام تو ضلع کچہری ہے لیکن بے حد غلیظ جگہ ہے۔ مچھر، مکھیاں، کیڑے مکوڑے۔ ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جھنکاریں، نہایت ہی دقیانوس ٹائپ رائٹروں کی اکتا دینے والی ٹپ ٹپ۔ تین ٹانگوں والی کرسیاں جن کی نشست کا بیدہی غائب ہے۔ دیواروں پر سے پلستر اکھڑ رہا ہے۔ باغ ہے جس کا لان افلاس زدہ میلے کچیلے کشمیری کے سر کی طرح گنجا ہے۔ برقع پوش عورتیں ننگے گرد سے اٹے ہوئے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہیں۔ کوئی گندی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی بسور رہا ہے۔ اندر کمروں میں مجسٹریٹ صاحبان نہایت ہی واہیات میزوں کے پاس بیٹھے مقدموں کی سماعت فرما رہے ہیں۔ پاس دوست یار بیٹھے ہیں۔ دوران سماعت میں ان سے بھی گفتگو جاری رہتی ہے۔

الفاظ ضلع کچہری کی صحیح تصویر نہیں کھینچ سکتے۔ یہاں کی فضا الگ۔ یہاں کا ماحول الگ۔ یہاں کی زبان الگ۔ یہاں کی اصطلاحات الگ۔ عجیب و غریب جگہ ہے۔ خدا اس سے دور ہی رکھے۔ آپ کو نقل لینی ہو تو درخواست کے ساتھ ”پہیے“ لگانے پڑیں گے۔ کوئی مثل معائنے کے لئے نکلوانی ہو تو بھی ”پہیے“ لگانے پڑیں گے۔ کسی افسر سے ملنا ہو تو بھی ”پہیے“ لگانے پڑیں گے۔ اگر کام فوری کرانا ہے تو پہیوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ غور سے دیکھنے کی ضرورت نہیں، اگر آپ کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں تو آپ کو ضلع کچہری میں ہر عرضی پہیوں پر چلتی نظر آئے گی۔ ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک چار پہیے۔ دوسرے دفتر سے تیسرے دفتر تک جانے کے لئے آٹھ پہیے وقس علی ہذا۔ اگر آپ عادی مجرم نہیں تو آپ کے دل میں یہ زبردست خواہش پیدا ہو گی کہ کوئی آپ کے پہیے لگا دے اور دھکا دے دے تاکہ آپ ضلع کچہری سے باہر نکل جائیں۔

وکیل کا سوال درپیش تھا۔ عدالت میں حاضر ہونے سے پہلے جناب تصدق حسین خالد سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے کمال مہربانی سے خود ہی کہا کہ وہ ہمارے مقدمے کی پیروی کرنے میں مسرت محسوس کریں گے، چنانچہ ان کو ہی تکلیف دی گئی۔ خالد صاحب آئے۔ ہم ملزمین میاں اے ایم سعید پی سی ایس مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت میں پیش ہوئے۔ میاں صاحب موصوف کسی زمانے میں کپتانی کے عہدے پر فائز تھے۔ مگر اب ان سے بندوق لے کر عدل و انصاف کی ترازو ان کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی تیز آنکھیں، چھریرا بدن، رنگ سانولا۔ کرسی پر بڑی تمکنت سے بیٹھے تھے۔ ہم ملزمین سلام کر کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے تو اب ہماری طرف دیکھے بغیر میاں تصدق حسین خالد کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک بار پھر ضمانتیں ہوئیں۔ اس کے بعد دوسری سماعت کی تاریخ مل گئی۔ ہم نے میاں سعید صاحب کو سلام کیا اور عدالت سے باہر نکل آئے۔ جون کا مہینہ تھا۔ سب کے حلق خشک تھے۔ مگر عارف عبدالمتین کا حلق تو بالکل لکڑی ہو رہا تھا۔ کاش وہاں کوئی پارٹی ممبر ہوتا۔

دو تین پیشیاں اس طرح بھگتے۔ موسم ظالمانہ حد تک گرم ہو چکا تھا، لیکن قہر درویش برجان درویش، ”آواز پڑنے تک“ عدالت کے باہر کھڑے رہتے۔ کیونکہ ڈر تھا کہ اگر ہم ادھر ادھر ہو گئے تو مجسٹریٹ صاحب کا قہر نازل ہو جائے گا۔ شروع ہی سے ان کا رویہ بہت سخت تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ پہلے ہی سے اپنے دل میں ہمارے خلاف فیصلہ مرتب کر چکے ہیں۔ میاں خالد نے مجھ سے کہا، ”کیوں نہ ہم اس عدالت سے اپنا مقدمہ منتقل کرا لیں۔ مجسٹریٹ کا رویہ صاف مخاصمانہ ہے۔“ میں نے کہا، ”میاں صاحب چھوڑیئے۔ دوسری عدالت میں مقدمہ لے گئے تو کیا ہمیں وہاں لڈو پیڑے کھلائے جائیں گے۔ رہنے دیجئے مقدمے کو یہیں۔“ میاں خالد مان گئے۔ چنانچہ دو تین پیشیاں بھگتے۔ استغاثے کی طرف سے مسٹر محمد یعقوب ولد میاں غلام قادر منیجر کپور آرٹ پریس لاہور، شیخ محمد طفیل حلیم اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ڈی سی آفس لاہور، سید ضیاء الدین احمد مترجم پریس برانچ پنجاب گورنمنٹ اور چند اور حضرات رسمی طور پر پیش کیے گئے۔

سید ضیاء الدین نے کہا کہ میری رائے میں ”ٹھنڈا گوشت“ تمام کا تمام فحش ہے۔ میاں خالد کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک مصنف کی کوشش کا تعلق ہے وہ نیک ہے، مگر انداز اظہار اور استعمال الفاظ غلط ہے۔ میاں خالد نے گواہ سے ایک اور سوال کیا، ”کیا مصنف کو اپنے کردار کے منہ میں ایسے الفاظ نہیں ڈالنے چاہئیں جو اس کی صحیح شخصیت پیش کریں۔“ سید صاحب نے جواب دیا، ”جس قسم کا کردار ہو ویسے ہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔“ آپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مصنف کا یہ کام ہے کہ وہ اچھے برے کردار تخلیق کرے۔

شہادت استغاثہ ختم ہوئی۔ مجسٹریٹ صاحب نے حسب ضابطہ رسمی طور پر ہم سے چند سوال کیے جن کا مختصر جواب دے دیا گیا۔ یہ سلسلہ عدالتی زبان میں ”استفسار ملزم بلاحلف“ کہلاتا ہے اور کچھ اس قسم کا ہوتا ہے۔

سوال عدالت، آپ پر الزام ہے کہ آپ نے بحیثیت مصنف مضمون ”ٹھنڈا گوشت“ جو کہ رسالہ ”جاوید“ کے خاص نمبر میں بغرض اشاعت نصیر انور پرنٹر و پبلشر ملزم ہمراہی اور عارف عبد المتین اور نصیر انور ایڈیٹر رسالہ مذکور کو، جو کہ فحش تھا دیا۔ یہ جرم زیر دفعہ 292 تعزیرات ہند کی تعریف میں آتا ہے۔ آپ وجہ ظاہر کریں کہ کیوں نہ آپ کو اس جرم کی سزا دی جائے؟

جواب، (جو خالد صاحب نے میری طرف سے دیا) میں نے افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ ’جاوید‘ میں بغرض اشاعت دیا، لیکن وہ فحش نہیں تھا اور نہ میں اسے فحش تصور کرتا ہوں۔ یہ افسانہ اصلاحی ہے۔

سوال عدالت، مقدمہ کیوں بنایا گیا؟
جواب، پولیس بہتر جانتی ہے۔ اس کا نقطۂ اخلاق و اصلاح ہم سے مختلف ہے۔
سوال عدالت، کچھ اور کہنا چاہتے ہیں؟
جواب، اس موقع پر نہیں!

اب ہم سے صفائی کے گواہوں کی فہرست پیش کرنے کے لئے کہا گیا۔ یہ فہرست ہم نے پہلے ہی سے تیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ فوراً پیش کر دی گئی۔ میاں سعید صاحب نے جب بتیس نام دیکھے تو خفا ہو گئے۔ کہا، ”میں اتنا ہجوم نہیں بلا سکتا۔“ میاں خالد نے اصرار کیا کہ ہر گواہ اپنی جگہ پر بہت اہم ہے۔ میاں سعید نے اپنے انداز میں مضحکہ اڑانے کی کوشش کی۔ ممتاز شیریں صاحبہ کا نام پڑھا تو اشارہ کیا، ”یہ ممتاز شانتی کون ہے؟“ عدالت کے آدمی میاں صاحب کے اس مذاق پر ہنسے۔ ہم ہونٹ بھینچے خاموش رہے۔ بڑی مشکلوں کے بعد مجسٹریٹ صاحب درجہ اول چودہ گواہ بلانے پر راضی ہوئے، چنانچہ فہرست پر نشان لگا دیے گئے۔ سمن جاری ہوئے۔ میں کسی گواہ سے نہ ملا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ہر ایک میرے افسانے کے متعلق اپنی بے لاگ رائے دے تاکہ مجھے اپنی صحیح پوزیشن معلوم ہو سکے۔

جن گواہوں کے سمن کی تعمیل ہو چکی تھی ان کو صبح سویرے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا۔ میں بے حد شرمندہ تھا کیونکہ غریب کام کاج چھوڑ کر کئی کئی گھنٹے کھڑے رہتے تھے۔ ہم تو ملزم تھے لیکن ان کی حالت بھی ہم جیسی تھی۔ ہم اندر کٹہرے میں کھڑے رہتے تھے اور وہ عدالت کے باہر لوہے کے جنگلے کے ساتھ لگے انتظار کرتے رہتے تھے کہ انہیں کب آواز پڑتی ہے۔ میرے دوست شیخ سلیم کی حالت قابل رحم تھی۔ صبح شام پینے کا عادی۔ سارا وقت جمائیاں لیتا رہتا تھا۔ آخر اس سے یہ اذیت برداشت نہ کی گئی۔ چھوٹی بوتل میں وسکی بھر کے لے آتا اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پیتا رہتا۔ ادب سے اس کو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن جب وہ دوسروں سے باتیں کرتا تو یہی کہتا، ”آخر فحاشی ہے کیا۔ منٹو کا افسانہ“ ٹھنڈا گوشت ”میں نے پڑھا نہیں لیکن یہ فحش نہیں ہو سکتا۔ منٹو آرٹسٹ ہے۔“

ہماری طرف سے پہلے گواہ سید عابد علی عابد ایم اے ایل ایل بی پرنسپل دیال سنگھ کالج، لاہور تھے۔ آپ نے بیان دیتے ہوئے کہا، ”میں نے رسالہ ’جاوید‘ میں“ ٹھنڈا گوشت ”پڑھا ہے۔ یہ ایک ادب پارہ ہے۔ منٹو صاحب کی میں نے تمام تصانیف پڑھی ہیں۔ پریم چند کے بعد جو مختصر افسانہ نگار مشہور ہوئے، ان میں سعادت حسن منٹو کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس افسانے سے ایشر سنگھ کے کردار کا نمایاں ترین اثر یہ ہے کہ اس نے جو ناروا حرکت کی، اس کی سزا اسے فطرت کی طرف سے نفسیاتی نامردی کی صورت میں مل گئی۔“

عدالت کے ایک سوال پر عابد صاحب نے کہا، ”ولی ؔ سے لے کر غالبؔ تک سب وہ چیز جسے فحش کہا جاتا ہے لکھتے چلے آئے ہیں۔ لٹریچر کبھی فحش نہیں ہوتا، جو ایک بار لٹریچر قرار دیا جا چکا ہو۔“

استغاثے کی طرف سے سوال کیا گیا، ”کیا ادب مقصود بالذات ہے۔“ عابد صاحب نے جواب دیا، ”میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ادب تنقید حیات ہے اور اس میں اس سوال کا جواب شامل ہے۔ ہر معقول انسان کے قول اور فعل کا مطلب ہوتا ہے، لیکن تمام انسان معقول نہیں ہوتے۔ ہر قول یا فعل سوسائٹی کی نظروں میں اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ اچھے اور برے فعل جانچنے کے لئے بے شمار معیار ہوتے ہیں۔“ استغاثے کے ایک اور سوال کے جواب میں عابد صاحب نے کہا، ”یہ افسانہ میرے سب بچوں اور بچیوں نے پڑھا ہے۔ میری ایک لڑکی جو فورتھ ائر میں پڑھتی ہے۔ اس سے کئی بار“ سیکس ”پر علمی بحث ہو چکی ہے جو اس کے نصاب کا جزو ہے۔“ پھر آپ نے کہا، ”خاص آدمیوں سے جو کہ ادیب ہیں اس افسانے کے بارے میں میرا تبادلہ خیالات ہوا۔ سب نے اس کو بہت سراہا۔“

صفائی کے دوسرے گواہ مسٹر احمد سعید پروفیسر نفسیات دیال سنگھ کالج، لاہور تھے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا کہ، ”افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ فحش نہیں ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا جنسی مسئلہ ہے۔ ان کے نزدیک لفظ فحش کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ دوسرے الفاظ میں فحاشی ایک اضافی چیز ہے۔ ذہنی طور پر بیمار اشخاص پر ’ٹھنڈا گوشت‘ پڑھنے سے برا اثر ہو سکتا ہے۔“

تیسرے گواہ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم ایم اے ایل ایل بی پی ایچ ڈی سابق ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کشمیر تھے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ”انسانی نفسیات کے اندر جو خیر و شر ہے، ادیب کا یہ کام ہے کہ وہ اس کو اس انداز سے پیش کرے کہ جس سے انسانی زندگی کے حقائق سمجھنے میں مدد مل سکے۔ برے کردار کو اس انداز سے پیش کرے کہ اس کی برائی دیکھ کر نفرت پیدا ہو۔“ خلیفہ صاحب نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا، زیربحث افسانے کے کردار ایشر سنگھ سے شدید کراہت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کردار بالکل صحیح ہے۔ ایسے کرداروں پر خاص کیفیتوں کے ماتحت جسمانی حالت درست ہونے کے باوجود نفسیاتی نامردی طاری ہو سکتی ہے۔

ان تین گواہوں کے بیان ایک پیشی میں ہوئے۔ چونکہ یہ خاصے طویل تھے اور ایک ایک لفظ خود مجسٹریٹ صاحب کو لکھنا پڑتا تھا، اس لئے وہ جھنجھلا جھنجھلا جاتے تھے۔ کئی بار آپ نے تنگ آ کر کہا، ”میں مجسٹریٹ ہوں یا محرر۔“ لیکن بہرحال انہیں اپنا فرض ادا کرنا ہی پڑتا تھا۔

اس پیشی میں ایک بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ میرے ہاتھ میں سگریٹوں کا ڈبہ غالباً کریون اے کا تھا۔ مجسٹریٹ صاحب کی نظر پڑی تو آپ نے مجھے ایک بہت بڑی ڈانٹ پلائی، ”یہ گھر نہیں ہے۔ عدالت ہے۔“ میں نے مودبانہ عرض کیا، ”لیکن حضور میں پی تو نہیں رہا ہوں۔“ آپ نے اور زیادہ گرم ہو کر کہا، ”خاموش رہو۔ ڈبہ اپنی جیب میں رکھو۔“ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ مجسٹریٹ صاحب درجہ اول نے میز پر سے اپنا سگریٹ ٹن اٹھایا اور ایک سگریٹ سلگا کر پینا شروع کر دیا۔ اور میں ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا اس کا بکھرا ہوا دھواں پیتا رہا۔

اگلی پیشی پر میاں تصدق حسین خالد تشریف نہ لائے۔ کیونکہ ان کے گھر میں کوئی علیل تھا۔ ہمیں تاریخ مل گئی۔ اس تاریخ پر میاں صاحب موصوف تشریف نہ لائے۔ ان کا لڑکا ولایت سے واپس آ رہا تھا۔ وہ کراچی اس کے استقبال کے لئے چلے گئے تھے۔ ہم سخت الجھن میں گرفتار ہو گئے۔ میں نے مجسٹریٹ صاحب سے مودبانہ گزارش کی کہ ہمیں تاریخ دے دی جائے اس لئے کہ ہمارا وکیل موجود نہیں۔ آپ نے اس سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ کارروائی شروع ہو۔ میں بہت سٹپٹایا۔ گواہ کو آوازیں دی گئی۔ ڈاکٹر سعید اللہ ایم اے ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی (ان دنوں پاکستان ایئرفورس کے سویلین افسر ) تشریف لائے۔ اب میں سوچنے لگا کہ کیا کروں، مگر شاید اس لئے کہ خاندان کے سب بزرگ وکیل اور باپ سب جج تھے۔ دو بڑے بھائی بیرسٹر ہیں اور اس لحاظ سے خون میں کسی قدر قانون گھلا ہوا تھا، میں نے میاں تصدق حسین صاحب خالد کی جگہ سنبھال لی اور اپنے گواہ نمبر 4 ڈاکٹر سعید اللہ صاحب سے بیان دلوانا شروع کر دیا۔ بات بات پر مجسٹریٹ صاحب مجھے ٹوکتے، ”تم اس طرح سوال نہیں کر سکتے۔ تم یہ بات نہیں پوچھ سکتے۔“ میں ڈٹا رہا۔

ڈاکٹر صاحب کا بیان آدھا ختم ہوا تھا کہ عدالت کے کمرے میں چار نوجوان وکیل کالے کوٹ پہنے بڑے چست، بڑے بانکے داخل ہوئے اور ڈاکٹر سعید اللہ صاحب کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ایک جس کی پتلی پتلی مونچھیں تھیں اور جس کا رنگ باقی دو کے مقابلے میں کسی قدر سانولا تھا، میرے ساتھ کٹہرے کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب مجھے سانس لینے کا موقعہ ملا تو اس نے میرے کان میں کہا، ”منٹو صاحب کیا ہم آپ کے مقدمے کی پیروی کر سکتے ہیں۔“ میں نے کچھ نہ سوچا اور کہا، ”جی ہاں آپ کر سکتے ہیں۔“ چنانچہ پتلی پتلی مونچھوں والے اس نوجوان وکیل نے پیروی شروع کر دی۔ مجسٹریٹ صاحب نے اس سے پوچھا، ”آپ کیسے؟“

وکیل نے مسکرا کر جواب دیا، ”حضور میں ان کا وکیل ہوں۔ کیوں منٹو صاحب؟“ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ کارروائی شروع ہوئی۔ اس وکیل کے باقی تین ساتھی بھی حصہ لینے لگے۔ ان کی سرگرمی میں بڑا دلکش لڑکپن تھا۔ وہ جو کالج کے زندہ دل طلبا میں ہوتا ہے۔ مجسٹریٹ بھنا گئے۔ آپ نے ان تین سے پوچھا، ”آپ حضرات کیوں بیچ میں بول رہے ہیں۔“ انہوں نے جواب دیا، ”حضور ہم ملزموں کے وکیل ہیں۔ کیوں منٹو صاحب؟“ میں نے پہلے کی طرح اثبات میں سر ہلایا۔

ڈاکٹر سعید اللہ صاحب نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا میں اسے مختصراً پیش کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا، ”ٹھنڈا گوشت“ پڑھنے کے بعد میں خود ٹھنڈا گوشت بن گیا۔ پژمردگی اور افسردگی، یہ تھا اس کا اثر۔ یہ افسانہ شہوانی ہیجان ہر گز پیدا نہیں کرتا۔ ایشر سنگھ کا کردار پیش کرنے کے لئے مصنف نے دو تین دفعہ گالی استعمال کی ہے، مگر شاید فن کار نے اسے مناسب سمجھا ہو، مگر گالی کی شکل اس نے اس طرح بدلی کہ گالی معلوم نہیں ہوتی۔ اگر وہ گالی جو ایشر سنگھ نے استعمال کی ہے گالی بھی رہتی تو بھی میرے نزدیک افسانہ فحش نہ ہوتا۔ گالی فحش بھی ہو سکتی ہے اور فحش نہیں بھی ہو سکتی۔ اگر فن کار صحیح فنکار ہے تو وہ گالی کو بغیر ضرورت کبھی استعمال نہیں کرتا۔ اس افسانے میں گالی کا استعمال فن کارانہ ہے۔ ”

پروسی کیوٹر صاحب بڑے نستعلیق قسم کے آدمی تھے۔ بہت بانکے، کج کلاہ۔ گردن میں ہلکا سا شاندار خم۔ آنکھوں پر ’رم لس‘ چشمہ، جسے وہ بار بار اپنی ناک سے اتارتے اور جماتے تھے۔ آپ نے از راہ تمسخر کچھ کہا تو ڈاکٹر صاحب برس پڑے۔ اس زور سے کہ دوسرے کمرے میں صوفی تبسم صاحب کرسی پر اچھل کر باہر نکل آئے۔ بہرحال معاملہ ٹل گیا۔ پروسی کیوٹر صاحب نے جن کا نام غالباً محمد اقبال تھا، ڈاکٹر صاحب سے پوچھا، ”نفس مضمون کے لحاظ سے مختلف ادبا کو مختلف القاب دیے گئے ہیں۔ مثلاً راشد الخیری کو مصور غم، اقبال کو مصور حقیقت اور خواجہ حسن نظامی کو مصور فطرت۔ آپ۔“ ڈاکٹر صاحب نے اقبال صاحب کی بات کاٹ کر کہا، ”میں“ ٹھنڈا گوشت ”کے مصنف کو مصور حیات کا لقب دوں گا۔“

اب کرنل فیض احمد فیضؔ ایڈیٹر پاکستان ٹائمز کی باری آئی۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ”میری رائے میں افسانہ فحش نہیں ہے۔ ایک افسانے کے الگ الفاظ کو فحش یا غیر فحش کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ افسانے پر تنقید کرتے وقت مجموعی طور پر تمام افسانہ زیرنظر ہو گا اور ہونا چاہیے۔ محض عریانی کسی چیز کے فحش ہونے کی دلیل نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے کے مصنف نے فحش نگاری نہیں کی لیکن ادب کے اعلیٰ تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا، کیونکہ اس میں زندگی کے بنیادی مسائل کا تسلی بخش تجزیہ نہیں ہے۔“ جرح کے جواب میں فیض صاحب نے کہا، ”میری بھپیاں لے رہے تھے۔“ اگر موضوع تقاضا کرے تو میں ایسے الفاظ کا استعما ل جائز سمجھتا ہوں۔ ’منہ بھر بھر کے بوسے لئے‘ ، ’چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔‘ یہ الفاظ پارلیمنٹری نہیں لیکن ادبی اعتبار سے جائز ہیں۔ ”

فیضؔ صاحب کے بعد صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج، لاہور تشریف لائے۔ آپ نے اپنے بیان میں کہا، ”افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ لوگوں کے اخلاق کو خراب نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے اس کے بعض فقرے الگ ہو کر فحش ہوں اور بعض نہ ہوں۔ انسانی جنسیات کو ادب کا موضوع بنا کر ہمارے لٹریچر کا رجحان ایک صحیح سمت کی طرف جا رہا ہے۔“ جرح کا جواب دیتے ہوئے صوفی صاحب نے فرمایا، ”کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔“

اقبال صاحب نے اپنی ناک پر سے کئی مرتبہ جلدی جلدی ’رم لس‘ چشمہ اتارا اور جمایا۔ وہ صوفی صاحب کو گھیر گھار کر اپنے مطلب کی بات کہلوانا چاہتے تھے، مگر صوفی صاحب طفل مکتب نہیں تھے۔ بیس برس سے استادی کرتے چلے آئے تھے۔ اقبال صاحب کے جال میں نہ پھنسے۔ ایک مرتبہ تو آپ نے صاف کہہ دیا، ”دیکھئے صاحب! آپ لاکھ الٹ پھیر کریں لیکن میں وہی کچھ کہوں گا جو مجھے کہنا ہے۔“

اقبال صاحب نے سوال کیا، ”اگر کسی تحریر، افسانے یا ادب پارے کے نتائج مخرب الاخلاق ہوں مگر مصنف کا مقصد تخریب اخلاق نہ ہو تو آپ اس افسانے کو فحش کہیں گے یا نہیں۔“ صاف ظاہر تھا کہ اقبال صاحب کیا چاہتے ہیں۔ صوفی صاحب نے مسکرا کر جواب دیا، ”نہیں۔ اس لئے کہ پڑھنے والوں کے اپنے ذہنی رجحانات شامل ہوں گے نہ کہ مصنف کا مطلب۔ تخلیق ادب مصنف اپنی طبع سے مجبور ہو کر کرتا ہے۔ یہ تخلیق اوروں کے لئے بھی ہوتی ہے۔“ اقبال صاحب نے ایک اور سوال کیا، ”اگر اس تصنیف سے لوگوں کے اخلاق پر برا اثر پڑے تو اس کی ذمہ داری ادیب پر ہو گی یا نہیں۔“ صوفی صاحب نے کھٹ سے جواب دیا، ”وہ بری الذمہ ہے۔“ اقبال صاحب نے عاجز آ کر پوچھا، ”آخر مخرب اخلاق تحریر کیا ہے؟“ صوفی صاحب نے جواب دیا، ”وہ تحریر جس سے لکھنے والے کا مقصد محض تخریب اخلاق ہو۔“ اقبال صاحب نے ناک پر اپنا ’رم لس‘ چشمہ جمایا اور گردن کو ذرا اورخمیدہ کر کے جرح بند کر دی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments