گرما گرم سیاسی ماحول میں سر ابھارتے غیر سیاسی مسائل


ملک بعد از عام انتخابات کے حوالے سے گرما گرم مباحث کی لپیٹ میں ہے، ایسے میں ماحولیاتی تبدیلیوں ، تونائی اور بدلتی انسانی ضروریات کے بارے میں گفتگو شاید زیادہ قرین توجہ نہ ہو گی۔ تا ہم اس حقیقیت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک دوسری بڑی حقیقت بھی بہر صورت تسلیم کرنا ہو گی کہ اب ماحولیاتی تبدیلیوں، پانی اور توانائی کی ضروریات اور مستقبل قریب کے تقاضوں پر کھلی بحث نہ کرنا بھی ایک بڑی زیادتی ہو گی۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک وسیع موضوع ہے اور ان کے اثرات ، خطرات اور تدارک کے ضمن میں لا تعداد جہتیں ہیں جو قومی اور علاقائی سطح پر بحث اور پھر مناسب لائحہ عمل کی تیاری کی متقاضٰی ہیں۔ توانائی اور توانائی کے حصول کے ذرائع اس وقت ان عالمی اور علاقائی مباحث کا ایک اہم حصہ ہے۔

گزشتہ کچھ برسوں کے دوران حیاتیاتی ایندھن (فوسل فیول) کے موضوع پر گفتگو کا سلسلہ تیز تر ہو گیا ہے اور عالمی ماہرین اس پہلو پر مفق دکھائی دیتے ہیں کہ کرۂ ارض کا محفوظ مستقبل اور ماحول اسی میں پنہاں ہے کہ حیاتیاتی ایندھن کے منصوبوں پر کام روک دیا جائے اور توانائی کے متبادل طریقے یعنی کاربن کے کم اخراج والے منصوبوں پر انحصار میں اضافہ کیا جائے۔ اس ضمن میں گزشتہ سال دسمبر کے مہنے میں پیرس میں عالمی رہنماؤں کا ایک بہت بڑ ا اکٹھ ہوا جس میں سو سے زیادہ ممالک کے مندوبین اور پچاس سے زیادہ ممالک کے سربرہان مملکت نے شرکت کی۔ یہ اجتماع بذات خود حیاتیاتی ایندحن جس میں کوئلہ سر فہرست ہے ، کے مضمرات اور اس حوالے سے معاملے کی سنگینی کا ایک واضح اظہار تھا۔

اس عالمی کانفرنس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ کوئلے کی مدد سے یا ززیر زمین کھدائی سے حاصل ہونے والا ایندھن دنیا کے ماحول پر انتہائی مہلک اثرات کا ھامل ہو رہا ہے اور اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو پھر درجہ حرارت کو دو فیصد اضافے کی مقررہ حد سے آگے بڑھنے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ کانفرنس میں اس امر پر بھی زور دیا گیا تھا دنیا بھر میں حیاتیاتی ایندھن کے حوالے سے منصوبوں پر سرمایہ کاری روک دی جائے اور جہاں جہاں یہ منصوبے جاری ہیں، انہیں بتدریج ختم کرتے ہوئے شفاف تونائی جیسا کہ شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل توانائی پر انحصار بڑھایا جائے۔

اس ضمن میں پاکستان کی صورت حال پر نگاہ ڈالی جائے تو ملک میں توانائی کی ضرورت میں تیزی سے اضافہ ہورہا اور اوسطاً اس وقت ملک کو 22 ہزار میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے۔ تونائی کی مستعدی کے ساتھ فراہمی میں میں تعطل ملک کی صنعت و زراعت کو مزید پیچھے لے جائے گا جس کی موجودہ صورت حال بھی کئی وجوہ کی بنا پر زیادہ تسلی بخش نہیں۔ سو اس امر پر کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو نہ صرف توانائی کی اشد ضرورت ہے بلکہ توانائی کے حصول کے نئے ذرائع پر بھی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔

ادھر سی پیک کے منصوبے نے بھی توانائی کی ضروریارت میں اضافہ کر دیا ہے تاہم قابل تشویش پہلو یہ ہے کہ اس منصوبے کے ساتھ توانائی کے کئی ایسے منصوبے بھی جڑے ہیں جن کا تعلق حیاتیاتی ایندھن سے ہے جس میں کوئلے کے ساتھ چلنے والے کئی پراجیکٹس بھی شامل ہیں۔ کوئلے سے چلنے والے ان منصوبوں کے نتیجے میں ماحولیاتی تباہی کی شکایات میں پہلے ہی اضافہ ہو گیا ہے اور زرعات ہو یا انسانی صحت، گلگت بلتسان سے لے کر تھرپارکر تک کے عوام کی جانب سے کئی طرح کی شکایات منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں اور اس ضمن میں بے چینی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

تھرپارکر میں کوئلے کی بڑے پیمانے پر دریافت جہاں ملکی معیشت اور صنعت و روزگار کے حوالے سے ایک خوش خبری کے طور پر دیکھی گئی وہیں ماہرین ماحولیات اس منصوبے کے مقامی ، ملکی اور علاقائی سطح پر اثرات کے حوالے سے شدید تحفظات اور خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان میں پالیسی سازوں کے سامنے ایک ہی راستہ ہے اور وہ شفاف توانائی کے ذرائع پر توجہ مبذول کرنا۔ اس حوالے سے ہائیڈل پاور پراجیکٹس کو زیادہ مستعدد اور ماحول دوست بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی علاقون میں بائیو گیس کے منصوبے اورساحلی علاقوں میں ہوا سے توانائی کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پااکستان بھر میں سورج تقریبا ً سال بھر پوری آب و تاب سے موجود رہتا ہے اور یوں شمسی توانائی پر کام کرنے کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں درست پالیسیاں اختیار رنے کے لیے پاکسستان کے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی سطح پر ان ضروریات کے حوالے سے پالسیی سازی پر توجہ دی جاتی ہے یا حسب روایت یہ معاملہ بھی مستقبل کے لیے چھوڑ دیا جائے گا جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).