جناح تیرا پاکستان میلا


رام تیری گنگا میلی کہاوت تو سب نے سنی ہوگی جناح تیرا پاکستان میلا پڑھ کر شاید بہت لوگوں کو لکھاری کے ذہنی توازن خراب ہونے کا شبہ ہوگا، لیکن یہ فقرہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اور ہوش و حواس میں لکھا ہے، روزمرہ، اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا کو رٹنے کے بعد آخر میں یہی کہنے کو دل کرتا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جو رنگ و نسل، زبان، رسم و رواج ہر چیز سے بالاتر ہو کر صرف ایک کلمے پر یکتا ہو کر حاصل کیا گیا تھا، پاکستان انڈونیشیا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مسلم آبادی والا ملک ہے، جیس کی 98 / 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے، کیا ہم واقعی اسلام کی صحیح معنوں میں کی نمائندگی کر رہے ہیں؟

ایک نوجوان کی تصویر نظر سے گزری جس کو پولیس والا گریبان سے پکڑ کر لے جا رہا ہے جناب اس کی غلطی کا پتا چلا تو بے ساختہ منہ سے ”جناح تیرا پاکستان میلا“ کے الفاظ نکلے وہ نوجوان این ٹی ایس میں پہلی پوزیشن حاصل کر چکا تھا بیروزگار پھر رہا تھا نوکری کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا، بے روزگاری سے تنگ آکر وزیر اعلیٰ سندھ کے آفس کے سامنے احتجاج کرنے لگا، تعلیم کی اہمیت سے بے خبر جناب وزیر اعلیٰ صاحب ( جو تعلیمی معیار کے بجائے مفادات کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں ) نے نوجوان کو ایک غیر ضروری بات پر احتجاج کرنے پر باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔

محترم قارئین! جناح کا پاکستان میلا ہے اور انتہا کی حد تک میلا ہے، یہ کیوں میلا ہے؟ اس کو میلا کردیا گیا ہے، کس نے میلا کیا اس کو؟ ، میلا کیا طاقت و اختیار رکھنے والوں نے، بڑی سے لے کر چھوٹی سطح پر طاقت رکھنے والوں نے، زیادہ عرصہ اور قلیل عرصہ طاقت رکھنے والوں نے جناح کے پاکستان کو میلا کرنے میں دل کھول کر حصہ لیا۔

دنیا طاقت کے کھیل کا میدان ہے۔ سمندر میں بڑی اور طاقتور مخلوق چھوٹے مخلوق کو کھا جاتی ہے، جنگل میں طاقتور جانور کمزور جانور کو کھا جاتی ہے،

بالکل اسی طرح بنی نوع انسان، اشرفِ المخلوقات نے اسی قانون کو اپنایا، اگر بنی نوع انسان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو ظلم و بربریت کی بدترین مثالیں ملیں گی، فی الوقت ہم ان سے قطع نظر کرتے ہوئے جناح تیرا پاکستان میلا پر نظر کرتے ہیں، انسان کی تاریخ اور بربریت پر آپ میرے اگلے مضمون کا انتظار کریں۔

25 دسمبر 2012 کو کراچی میں ایک لڑکے شاہزیب کا قتل ہوتا ہے قاتل ایک با اثر باپ کا بیٹا ہے پکٹر میں آتا ہے اور پولیس کے ہمراہ عدالت ایسے شان و شوکت سے وکٹری کا نشان بنا کے جا رہا ہے جیسے اس زمین کی بادشاہت ملی ہو، اور کانوں تک منہ کھول کر ہنس رہا ہے، ایسے شان سے ہنس رہا ہے جیسے ایک بے گناہ کو قتل کرنا بہت فخر کی بات ہو، عدالت میں کیس چلتا ہے، ایک روز مقتول کی ماں کا بیان آتا ہے کہ وہ قاتل کو معاف کر رہی ہے ”کیا وجہ ہے کہ معاف کر رہی ہے اپنے پیارے لختِ جگر جو بے قصور مارا گیا ہے جیس کو پالنے پوسنے تعلیم و تربیت دینے میں اس کی سالوں کی محنت شامل ہے کے قاتل کو کیوں معاف کرہی ہے؟

وجہ یہ ہے کہ ”اس کی گھر میں جوان بیٹیاں ہیں اور وہ مجبور ماں ہے“ یہ الفاظ کسی مشرک کافر ملک کے نہیں اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے مسلم ملک میں ایک مجبور ماں کے ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے ”کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں“ جناح تیرا پاکستان میلا۔

زینب قتل کیس سامنے آیا ملزم پکڑا گیا اور اربابِ اختیار نے کریڈٹ لینے کے لئے کانفرنس بلائی، صاحبِ اختیار کا ایک ایک با اثر نمائندہ غریب مظلوم بوڑھے باپ کو بتا رہا ہے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں پوری میڈیا کے سامنے مائیک میں آواز سنائی دی رہی ہے لیکن کوئی روکنے والا نہیں، اور پھر طاقت کے نشے میں چور سارے لوگ کسی بات پر قہقہے لگا کر ہنس رہے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ یہاں ایک مجبور باپ بیٹھا ہوا ہے جس کی بیٹی کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، جیس کا ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا، وہاں صرف زینب کا باپ تھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی رمق بھی نہیں تھی، جو سر جھکائے غمزدگی کی تصویر بنا بے بس سا بیٹھا تھا، مظلومیت اور بے حسی کا یہ ملا جلا مظاہرہ بھی انسان نے دیکھا، محفل میں بیٹھنے کے کچھ آداب ہوتے ہے لیکن شاید یہاں یہ لوگ بھول گئے تھے کہ وہ یہاں کیوں ہیں یا ان کے لئے وہ آداب اہمیت نہیں رکھتے تھے۔

اس کے بعد یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے اور آئے روز کسی نا کسی معصوم بچی کو نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے۔ جون 2002 میں مختاراں مائی کا بھائی غلطی کرتا ہے اور پنچایت بلائی جاتی ہے اور فیصلہ مختاراں مائی کے ساتھ کئی افراد کے زیادتی کی صورت میں آتا ہے اور مختارا مائی کو سب کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کیونکہ یہ جناح کا پاکستان ہے۔

ماڈل ٹاؤن کا واقعہ رونما ہوتا ہے، اربابِ اختیار، طاقت رکھنے والوں کے حکم پر عورتوں کے منہ اور پیٹ پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، وہ بم باندھے کسی اور ملک کی دہشتگرد عورتیں نہیں ہیں بلکے اپنے ملک کی عام مدرسے کی عورتیں ہیں کیس چلتا ہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا 14 قتل ہوتے ہیں لیکن کسی کو نہیں پتا کے یہ کس کے کہنے پر ہوا (سب کوپتا ہے ) کیونکہ یہ جناح کا پاکستان ہے۔

دن دہاڑے قتل، ڈکیتیاں، ریپ سین، کوئی روکنے والا نہیں۔

کوئی دو روپے کما رہا ہے بھتے کی پرچیاں ملتی ہے بھئی آپ نے بھلے محنت کی ہے خاندان والوں کے لئے کمایا ہے لیکن بھتہ خوروں کا حق ہے اس پیسے پر، کیونکہ حرام خوری ان کا حق ہے ورنہ آپ کی جینے کی کوئی ضمانت نہیں، وڈیرے کے عیاش بیٹے کو غریب کی بیٹی پسند آتی ہے اور وہ اس سے شادی کرنے یا دل کو خوش کرنے سے انکار کرتی ہے تو گھر میں گھس کر مار دیا جاتا ہے یا اٹھا کر لے جاتے ہے، کیونکہ تھانہ کچہری میں تو ویسے بھی غریب کی کوئی سننے والا نہیں، کیونکہ یہ جناح کا میلا پاکستان ہے۔

نوکریاں رشتہ داروں کو یا رشوت دے کر دی جاتی ملتی ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتال خون کا آخری قطرہ چوسنے والے خون آشام درندے بنے ہوئے ہیں، جو لاش تک کو کئی دن رکھ کر آمدنی کی جاتی کرتے ہیں، ڈاکٹرز کے سٹرائسکس میں مریض ہسپتال کے باہر مرجاتے ہیں لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔

غریب کو وڈیرے یا پولیس والے پکڑ کر کھلے عام ننگا کر دیتے ہیں مارتے ہیں منہ کالا کر دیا جاتا ہے بال گنجے کر دیے جاتے ہیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں، سرکاری سکولوں میں خانہ پریاں کی جاتی ہے اور پرائیویٹ سکولوں کا نظام پرائیویٹ ہسپتالوں جیسا ہے، مدرسوں میں دینی تعلیم کے نام پر یا تو دشتگردی سیکھائی جاتی ہے معصوم بچوں کے زندگی کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے، طالب علموں پر تشدد ہوتا ہے یا ان کو جنسی تسکین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

قارئین اگر ہم اس پر تفصیل سے بات کریں تو قلم اور اوراق ختم ہو جائیں لیکن یہ بات ختم نہیں ہوگی یہ نظام چلتا رہے گا چہرے بدل بدل کر حکمران آئیں گے اور اپنے حصے کا ایک عرصہ سے طے شدہ پرفورم کرکے چلے جائیں گے، لوگ غیبی مدد کے منتظر رہیں گے کہ مہدی یا عسییٰ آئیں اور ان کی مدد کریں ظالموں کا خاتمہ کریں تب تک خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔

سارا دن اخبارات، ٹی وی، سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کے بعد اپنے ملک میں ہونے والے یہ واقعات پڑھ کر دیکھ کر واقعی ”جناح تیرا پاکستان میلا“ کہنے کو دل کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).