آج جج نہیں، جج کا فیصلہ بولا ہے!


 

سکوت نہیں، ہر طرف سکوتِ مرگ طاری ہے۔ خاموشی نہیں، مجرمانہ خاموشی جاری ہے۔ تجاہل نہیں، تجاہلِ عارفانہ کی ضربِ کاری ہے۔ جبر نہیں، جبرِ ناروا کی سنگ باری ہے اور اختیاری نہیں، بے اختیاری کی ملمّع کاری ہے۔ جو الیکٹرانک میڈیا کسی سیاستدان کی معمولی کرپشن کی خبر پر قیامت کا ہنگامہ برپا کر دیتا ہے، فیض آباد دھرنے کا فیصلہ آنے پر اس کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ جو اولوالعزم اور محب وطن اینکرز پاناما کیس کی سن گن لگنے پر ہر سو ماتم برپا کر دیتےتھے اس فیصلے کے بعد بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔

یہ وہی میڈیا ہے جو سیاست دانوں کے پاؤں کی معمولی پھسلن اور زبان کی ذرا سی لغزش پر بیواؤں کی طرح بال نوچے سرِ بازار سینہ کوبی پر اتر آتا ہے مگر آج ندامت اور خجالت سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ یہ وہی پرنٹ میڈیا ہے جو آج تو بے نیازی و لاتعلقی کی بے بس تصویر بنا بیٹھا ہے لیکن اگر پانامہ میں نواز شریف کا نام آنے کے بعد پہلے چند دن کا مواد نکالا جائے تو بلا مبالغہ کئی ضخیم کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں۔ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں سیاست دانوں کے خلاف خبر کا حشر نشر کر نے والے رپورٹرز بھی آج مہر بلب ہیں۔

جمہوری حکومتوں اور سیاسی قیادتوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلانے والے دفاعی تجزیہ نگار بھی آج مصلحت پسندی و قومی سلامتی کی منافقانہ بکل مارے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہے ہیں۔ آج ان حق گو، اصول پسند اور نڈر کالم نگاروں کا قلم بھی معلوم نہیں کس دہلیز پر اپنی جبینِ نیاز گھس رہا ہے جو قلم کو کمان بنائے رکھنے کے دعویدار ہیں۔ ن لیگ کے خلاف دہن کو ہمہ وقت مصروف پیکار رکھنے والے بھٹی بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جائے پناہ کے متلاشی ہیں۔

معصومانہ سوال کرنے والے بھی آج گنہگار و خطا کار بن کر ملکی وقار اور قومی مفاد کا چورن بیچ رہے ہیں۔ جمہوری حکومتوں اور سیاست دانوں کے خلاف چوراہے پر بیٹھ کر الزام و دشنام کا بازار گرم کرنے والے بھی لب بستہ و دست بستہ ہیں۔ اسی میڈیا نے سیاست دانوں کے مسلسل کلپ چلائے جن میں وہ کوئی الزام ثابت ہونے پر استعفا دینے کی بات کر رہے ہوتے ہیں، کاش یہ میڈیا آج دو سال قبل جنرل باجوہ کا وہ کلپ بھی چلانے کی ہمت کرے جس میں انہوں نے فیض آباد دھرنے کا الزام فوج پر ثابت ہونے پر استعفے دینے کا وعدہ کیا تھا۔

وزیر اطلاعات جو دن میں کئی مرتبہ شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں کیا فیض آباد دھرنے کے اصل کرداروں کے بے نقاب ہونے پر ان سے بھی استعفے کا مطالبہ کریں گے؟ کلثوم نواز مرحومہ اور نواز شریف کی بیماری کا گلی کے لونڈوں اور لفنگوں کی طرح تماشا لگانے والوں کی آج بصارت زائل، حواس گم اور زبانیں گنگ کیوں ہیں؟ جسٹس ثاقب نثار کے چھاپوں اور انگوٹھا چھاپ قسم کے فیصلوں پر طولانی مدح سرائی کرنے والے کیا آج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے تاریخی فیصلے کے حق میں بھی کوئی لفظ بولیں گے؟

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

نئے پاکستان اور “تبدیلی” کی نوید دے کر چھ ماہ تک مثبت خبریں دکھانے اور سنانے کا حکم صادر کرنے والے بتائیں گے کہ اس فیصلے کو کس طرح مثبت بنا کر حب الوطنی کا خوش نما جامہ پہنایا جائے؟ عدالتوں کے ساتھ کھڑے رہنے والے اور ثاقب نثار کے فیصلوں پر عدلیہ کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے آج جسٹس قاضی کے فیصلے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں حالانکہ جسٹس قاضی اس رحمدل مگر ماہر جراح کی صورت میں سامنے آئے ہیں جنہوں نے آج اس موروثی مرض کی تمام تر پیچیدگیوں کی تشخیص کر کے اس سے نجات حاصل کرنے کا تیر بہدف نسخہ تجویز کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ سادہ لوح سال ہا سال سے یہ مرض وبا کی طرح پھیلانے والے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مصر ہیں جس کی وجہ سے آج وہ اس حال کو پہنچے ہیں۔ ہمارے جسد قومی کو لاحق خطرناک ترین اور جان لیوا بیماریاں دو ہی ہیں، ایک یہ کہ ہم نے اس مملکت کو فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے بجائے اسے کلمہ پڑھا کر مشرف بہ اسلام کر لیا ہے اور دوسری یہ کہ ہم نے اسے جمہوری اصولوں کے بجائے بندوق کے زور پر چلانا ہے۔ جسٹس قاضی نے انہیں دو امراض میں سے ایک کی نشاندہی کی ہے۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔

 

 

 

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).