گے ازم: ایک المیہ


جنس مخالف کی کشش روز اول سے ہی نہ صرف انسان بلکہ تمام جانداروں میں رکھ دی گئی تھی تاکہ وہ اپنی فطری اور جسمانی ضروریات کو پورا کر سکیں- بات تب بگڑی جب دنیا کا پہلا معاشرہ جسے قوم لوط کہا جاتا ہے، اپنی ہی جنس کی جانب مائل ہوا اور ہم جنس پرستی یعنی گے ازم کا آغاز ہوا- وقت کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی مختلف معاشروں میں پھیلتی چلی گئی- یونان اور روم میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی حتی کہ قدیم یونان میں مشہور ہو گیا کہ،

” women are for business, boys are for pleasure” –

سکندر اعظم اور دیگر یونانی و رومی امراء سے لے کر رچرڈ شیر دل، شاہ فلپ دوم اور نئے زمانے میں مشہور کمپیوٹر سائنس دان ایلن ٹورنگ، ناول نگارآسکر وائلڈ، سکرین رائٹرٹونی کشنر، گورے ویڈال اور افتی نسیم سمیت کئی مشہور و معروف شخصیات ہم جنس پرستی یا گے ازم میں مبتلا تھیں- کیتھولک چرچ ایک طویل عرصے سے اغلام بازی اور ہم جنس پرستی جیسے قبیح واقعات کے باعث مختلف مسائل اور تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے- بظاہر یہ چرچ ہم جنس پرستی کی حوصلہ شکنی اور اس بات کی تردید کرتےچلے آئے ہیں کہ کیتھولک چرچ کا کوئی پادری یا رکن اس میں ملوث ہے لیکن سابقہ ادوار میں ہم جنس پرستی کے بے شمار واقعات نے چرچ کے تمام دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے- یہی وجہ ہے کہ پوپ فرانس نے رومن کیتھولک چرچ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہم جنس پرستوں، خصوصاً بچوں سے زیادتی کرنے والے پادریوں کو شیطان کا ساتھی کہا ہے- مگر چرچ کے قول اور افعال میں تضاد تاریخی طور پر عیاں ہے-

طویل عرصے سے سائنسی بنیادوں پر یہ بحث بھی جاری ہے کہ ہم جنس پرستی جینیاتی طور پر منتقل ہوتی ہے یا یہ معاشرتی سطح پر فرد میں پائی جاتی ہے- دوسری جانب مذہبی ذہن رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ چرچ کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلے ہم جنس پرستی کے عوامل پر روشنی ڈالے- لیکن حال ہی میں شائع ہونے والی فرانسیسی مصنف فریڈرک مختل کی کتاب، “In the Closet Of the Vatican” میں مختل نے عیسائیت کے مرکز ویٹیکن کے بارے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں-

مختل کا کہنا ہے کہ کیتھولک چرچوں کے 80 فیصد پادری اور کارڈینلز ہم جنس پرستی میں ملوث ہیں- فریڈرک مختل نے 41 کارڈینل اور 52 بشپ سمیت دو سو پادریوں اور سفارتکاروں سے ملاقات اور ان سے انٹرویو لینے کے بعد یہ راز منکشف کیا ہے- ان کے نزدیک ویٹیکن ایک ہوس زدہ اور ہم جنس پرست تنظیم ہے- اس کتاب پر ابھی ملا جلا رد عمل ظاہر ہوا ہے اور تقابل ادیان کے ماہر جیمز مارٹن نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ، مصنف نے متاثرکن تحقیقات کی ہیں لیکن یہ گپ شپ اور قیاس آرائیوں پرمشتمل ہونے کی بنا پر پڑھنے والوں کو کشمکش میں مبتلا کر دیتا ہے کہ حقیقت کیا ہے- یاد رہے کہ فریڈرک مختل خود بھی ایک ہم جنس پرست ہیں-

پاکستان چونکہ اسلامی ملک ہے، یہاں پر ہم جنس پرستی کو نہایت برا اور قبیح سمجھا جاتا ہے- لیکن باوجود اس کے ہم جنس پرستی کا رجحان کافی حد تک موجود ہے- کراچی کو بعض لوگ “ہم جنس پرستوں کی جنت” کا لقب بھی دیتے ہیں- پاکستان کے اکثر شہروں میں غیرعلانیہ ہم جنس پرست موجود ہیں اور میرے مشاہدے میں کئی ایسے مرد موجود ہیں جو ہم جنس پرستی کی جانب مائل ہیں یا کبھی رہے ہیں- اس کے علاوہ لڑکوں سے زیادتی کے واقعات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں-

ضرورت اس امر کی ہے کہ طبی، نفسیاتی اور تعلیمی سطح پر باقاعدہ نوجوانوں کی تربیت کی جائے اور ان کو ہم جنس پرستی کے نقصانات اور اس سے متعلقہ پیچیدگیوں کے بارے آگاہ کیا جائے تاکہ اگر خدا نخواستہ کوئی اس طرف مائل ہو بھی رہا ہو تو یہ تربیت اس میں بدلاؤ لا سکے- حکومتی سطح پر اس بارے ممکنہ اقدامات کرنا ضروری ہیں تاکہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے ہم جنس پرستی کے رجحانات کو ختم کیا جا سکے- وگرنہ یہ نوجوانوں میں مزید نفسیاتی، طبی اور مذہبی مسائل کا باعث بن کر معاشرے کو بیمار اور ایڈز زدہ بنا دیں گے-

(ادارہ ہم سب محترم علی عبداللہ کے مشاہدات اور بیشتر مفروضات سے اتفاق نہیں رکھتا۔ تاہم، آزادی اظہار ہماری ادارتی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔ علی عبداللہ کی تحریر من و عن شائع کی جا رہی ہے۔ ان سے اتفاق یا اختلاف کرنے والے قارئین کے حق اظہار کا احترام کیا جا ئے گا۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).