کیا آپ یونانی شاعرہ سافو کی حیرت انگیز کہانی سے واقف ہیں؟


میں نے اپنی کینیڈین شاعرہ دوست جینیفر سے پوچھا
جو عورت کسی مرد کی بجائے کسی اور عورت کے عشق میں گرفتار ہو جائے آپ اس عورت کو کیا نام دیتے ہیں؟

میرا سوال سن کر جینیفر کی آنکھوں میں ایک شریر سی مسکراہٹ آئی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ ایک اور کینیڈین شاعرہ کیتھی کو دل و جان سے چاہتی ہیں۔ کہنے لگیں

انگریزی زبان میں ایسی عورت کے لیے دو نام ہیں، ایک نام ہے لیسبین (LESBIAN) اور دوسرا نام ہے سافک (SAPPHIC)۔
میں نے کہا کیا آپ جانتی ہیں کہ ان دونوں ناموں کا تعلق ایک یونانی شاعرہ سے ہے
نہیں مجھے نہیں پتہ آپ مجھے بتائیں۔
میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا

یونان میں چھٹی ساتویں قبل مسیح میں ایک مقبول ’مشہور اور متنازع شاعرہ ہوتی تھیں ان کا نام SAPPHO تھا۔ سافو یونان کے جس جزیرے میں رہائش پذیر تھیں اس کا نام LESBOS تھا۔ اسی لیے اس شاعرہ سافو کے نام اور ان کے جزیرے لیسبوس کے نام سے لیسبین اور سیفک کے نام اخذ کیے گئے ہیں۔

میری باتیں سن کر جینیفر سافو کے بارے میں اور بھی متجسس ہو گئیں اور پوچھنے لگیں
آخر سافو کی وجہ شہرت کیا تھی؟
ان کی شاعری کی ایسی کیا خصوصیت تھی جو وہ اتنی مقبول ہوئیں؟
میں نے کہا۔ ایک خصوصیت نہیں تھی، بہت سی خصوصیات تھیں۔
میں دو تین کا ذکر کیے دیتا ہوں۔

پہلی خصوصیت یہ تھی کہ سافو نے محبت اور چاہت، قربت اور اپنائیت کے حوالے سے بہت سی نظمیں لکھی تھیں۔ ان نظموں کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ انہیں موسیقی کے ساتھ گایا بھی جا سکتا تھا۔ اس لیے سافو کی نظمیں تقریبوں اور تہواروں میں بڑے ذوق و شوق سے گائی جاتی تھیں۔ ان تقریبوں اور تہواروں میں گائے جانے سے سافو کی مقبولیت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔

سافو کی نظموں کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ دیگر یونانی شاعروں کی نظموں کی طرح نہیں تھیں جنہیں الہامی اور آسمانی ہونے کا دعوہ تھا۔ ان کے مقابلے میں سافو کی نظمیں زمینی اور رومانی تھیں۔ ان میں دانشوری سے زیادہ محبت کی چاشنی تھی جو لوگوں کے دلوں کو چھوتی تھی۔

سافو کی شاعری کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ سافو نے یونانی شاعری میں پہلی دفعہ واحد متکلم۔ میں۔ I۔ کا صیغہ استعمال کیا۔ سافو سے پہلے واحد متکلم میں شاعری نہیں ہوتی تھی۔ یونانی شاعر کہتے تھے انہیں الہام ہوتا ہے۔ سافو کا موقف تھا کہ شاعر کو اپنے خیالات اور جذبات اور احساسات کو اپنانا چاہیے ان کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ اور عوام و خواص کو بتانا چاہیے کہ یہ شاعری ان کے اپنے دل و دماغ نے تخلیق کی ہے اسے کسی آسمانی فرشتے نے آ کر نہیں دی۔

میری دوست جینیفر سافو کی شاعری سے اور بھی متاثر ہو گئیں۔ پوچھنے لگیں
کیا سافو ایک لیسبین شاعرہ تھیں؟
نہیں وہ لیسبین نہیں تھیں۔
تو پھر ان کا نام سیفک اور لیسبین سے کیسے منسلک ہوا۔
اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ سماجی ہے دوسری ادبی۔

سماجی وجہ یہ ہے کہ چونکہ سافو کی شاعری میں محبت اور چاہت کا برملا اظہار تھا اس لیے اس دور کے مذہبی علما و فقہا ان سے ناراض ہو گئے ان پر فتوے لگائے اور انہیں بدنام کیا۔ بدنامی میں یہ وجہ بھی بتائی کہ وہ نوجوانوں کو اپنی شاعری سے گمراہ کرتی ہیں اور انہیں ورغلاتی ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ اصحاب بست و کشاد نے ان پر زندگی کا دائرہ اتنا تنگ کیا کہ انہیں اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔

ادبی وجہ یہ تھی کہ چونکہ وہ اپنی نظمیں واحد متکلم میں لکھتی تھیں تو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ نظمیں ان کی سوانح عمری کا عکس ہیں۔ اس دور کے قاریوں اور ناقدوں کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اگر سافو کی نظم میں ایک عورت کسی دوسری عورت کے لیے محبت کا اظہار کر رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعرہ خود بھی لیسبین ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ شاعرہ نے لیسبین محبت کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے۔

میں نے جینیفر کو یہ بھی بتایا کہ مجھے سافو کا مسئلہ اس لیے بھی سمجھ آیا ہے کیونکہ ایک زمانے میں مجھے بھی ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ آج سے تیس سال پیشتر میں نے گے محبت کے بارے میں ایک افسانہ لکھا جس کا نام۔ کچھ دھاگے۔ تھا۔ وہ ہندوستان کے ادبی مجلے۔ شاعر۔ میں چھپا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میری کتاب “ہر دور میں مصلوب” چھپی جو گے اور لیسبین ادب اور نفسیات کے بارے میں اردو کی پہلی کتاب تھی۔
ایک دن مجھے لندن سے ساقی فاروقی کا فون آیا کہنے لگے

’خالد میرے گھر میں چند دوست جمع ہیں اور مصر ہیں کہ تم گے ہو کیونکہ تم نے ایک گے افسانہ اور ایک گے کتاب لکھی ہے۔ میں نے ان سے کہا وہ ماہر نفسیات ہے۔ چونکہ اسے جنسی نفسیات میں دلچسپی ہے اسی لیے اس نے ان موضوعات پر لکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ گے ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ وہ کھل کر بات کرتا ہے اگر وہ گے ہوتا تو سب کو بتا بھی دیتا۔ اس کی ایک محبوبہ بھی ہے۔ تو خالد تم یہ بتاؤ کیا تم گے ہو؟‘

میں نے ساقی فاروقی سے کہا

’نہیں میں گے نہیں ہوں وہ کہانی اور وہ کتاب میں نے اپنے شکاگو کے گے شاعر دوست افتی نسیم کی کہانی سن کر لکھی تھیں۔ ‘

میں نے جینیفر کو سافو کی محبت کی دردناک کہانی بھی سنائی اور بتایا کہ سافو مردوں کو پسند کرتی تھیں اور ایک ایسے مرد کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھیں جس کا نام PHAON تھا۔ فیون ایک کشتی بان تھا۔ سافو کشتی بان کے عشق میں گرفتار اور کشتی بان دریا کے عشق میں گرفتار تھا۔ اس کشتی بان نے سافو کے عشق کو نظر انداز کیا جس سے سافو کا دل ٹوٹ گیا۔

جب محبت کی شاعرہ کی اپنی محبت میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے ایک پہاڑی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ سافو خود تو محبت میں ناکام رہیں لیکن ان کی شاعری محبت کا استعارہ بن گئی۔ اب جب بھی کوئی کسی لیسبین عورت کی محبت کا ذکر کرتا ہے تو لوگ یونانی شاعرہ سافو کو یاد کرتے ہیں۔ سافو کی شاعری نے لیسبین عورتوں کو ندامت اور خجالت کی تاریکی سے نکال کر ان کا محبت کی روشنی سے تعارف کروایا۔ سافو نے لیسبین عورتوں کو اعتماد دلایا کہ وہ فخر سے کہیں کہ مجھے ایک عورت سے محبت ہے اور اپنی محبوبہ کو سافو کی نظمیں سنائیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سافو سے حسد اور نفرت کرنے والے پادریوں اور اخلاقیات کے ٹھیکیداروں نے ان کی بہت سی شاعری ضائع کر دی۔ اب ان کی محبت کی چاشنی سے لبریز نظموں کے کئی ہزار مصرعوں میں سے صرف چند سو باقی بچے ہیں۔

رخصت ہونے سے پہلے جینیفر نے کہا، مجھے سافو کی ایک نظم تو سنائیں تا کہ میں بھی ان کی شعری تخلیق سے محظوظ و مسحور ہوں۔ چنانچہ میں نے جینیفر کو سافو کی ایک نظم کا ترجمہ سنایا جس کا عنوان ہے

محبت کی شدت

جو شخص بھی تمہارے قریب آتا ہے
وہ مجھے دور سے دیوتا دکھائی دیتا ہے
جب تم سریلی آواز میں باتیں کرتی ہو
اور کھلکھلا کر ہنستی ہو
تو میرا دل
زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے
جب میں تمہیں
پیار کی نظر سے دیکھتی ہوں
تو میری زبان گنگ ہو جاتی ہے
اور
میرے خون میں آگ لگ جاتی ہے
میں سورج میں پڑی گھاس کی طرح پیلی پڑ جاتی ہوں
میں پھر بھی بڑی مشکل سے
اپنی ہمت اور جرات جمع کرتی ہوں
تا کہ تم سے
پیار بھری باتیں کر سکوں
اور تمہیں گلے لگا سکوں

عالمی ادب کے پرستار جانتے ہیں کہ سافو وہ پہلی یونانی شاعرہ تھیں جنہیں ہومر جیسے عظیم اور مقبول شاعر جیسی شہرت ملی یہ علیحدہ بات کہ ان کی شہرت متنازع فیہ رہی۔ ادب عالیہ کو پسند کرنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ دنیائے ادب میں جب تک گے اور لیسبین شاعری زندہ رہے گی سافو کا نام بھی زندہ رہے گا۔

٭٭٭       ٭٭٭

نوٹ: میں اپنے عزیز دوست ڈاکٹر بلند اقبال کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کی کتاب “پلیٹو سے پوسٹ ماڈرن ازم تک” کے ایک باب نے مجھے یہ کالم لکھنے کی تحریک دی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 706 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments