شکست تخت پہلوی (4) – فرح دیبا


شاہ مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ بیرونی مداخلتیں، اندرونی شورشیں، تیل کی برآمد، سیاسی بے چینی، پڑوسی ملک عراق میں خونی انقلاب یہ سب انہیں پریشان کرنے کو کافی تھا۔ شاہ کی دوسری شادی بھی ناکام ہو چکی تھی اور ثریا ایران چھوڑ کر جا چکی تھیں۔ اس طلاق کے بارے میں ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں شاہ نے کہا ”یہ میری زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا“ شاہ کی آواز بھرائی ہوئی تھی ”ملک کی خدمت کرنے کے لیے میں نے یہ کر لیا، جب آپ ایسا کر لیتے ہیں تو خود کو بھلا دیتے ہیں اور آپ کے سامنے ملک اور آپ کے لوگ ہوتے ہیں۔“ انہوں نے یہ بھی کہا وہ تخت کو کسی اور کے حوالے کبھی نہیں کریں گے۔ ”اگلا بادشاہ میرا بیٹا ہو گا“۔ ایران کو اپنے تخت کے وارث کی شدید ضرورت تھی۔ نئی ملکہ کی تلاش شروع ہو چکی تھی۔

عراق میں فوجی بغاوت ہوئی اور شاہی خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ شاہ کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کیونکہ اس فوجی بغاوت کے پیچھے سوویت یونین کا ہاتھ تھا اور ایران کی بائیں بازو کی جماعتوں کے سوویت سے روابط تھے۔ شدید ذہنی دباؤ میں آ کر شاہ نے زاہدی کو جنہیں شاہ نے کچھ عرصہ قبل خود ہی معطل کیا تھا اور وہ جلا وطن ہو کر سوئٹزر لینڈ میں مقیم تھے پیغام بھجوایا کہ وہ واپس آ جائیں اور دوبارہ ایران کی وزارت اعظمی سنبھال لیں۔ زاہدی ایک شرط پر راضی ہوئے کہ ایران اپنے مغربی اتحادیوں سے مل کر عراق پر حملہ کرے اور بغداد حکومت کو اتار پھینکے اور وہ اس کی پوری ذمہ داری لیں گے۔ ”اگر نتائج خاطر خواہ نہ نکلیں تو اعلی حضرت مجھے منصب سے ہٹا دیں۔ بلکہ مجھے پھانسی چڑھا دیں“ ۔ عراق کی بغاوت سے ڈر کر شاہ ایک ایسے شخص سے رابطے پر مجبور ہو گئے جسے انہوں نے خود ہی بے دخل کیا تھا۔ شاہ نے خود کو کمزور ثابت کیا۔ انہوں نے زاہدی کی پیشکش رد تو کر دی لیکن ان کی پریشانی دور نہ ہوئی۔

عراق میں بغاوت

امریکی سیاستدان شاہ کی لیڈرشپ سے غیر یقینی کے شکار تھے۔ شاہ کی کمزوری عیاں تھی۔ سوشلسٹ انقلاب کے ڈر سے امریکہ نے شاہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ ملک میں معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں لائیں جن سے غریب عوام کا بھلا ہو۔ امریکیوں کے نزدیک دولت مند پہلوی خاندان کو غربت کے مارے عوام کی مشکلات کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ ٹائمز نے لکھا ”شہر تبریز میں قالین کی دکانوں پر کم سن بچے اپنے نازک ہاتھوں سے 20 سینٹ روزانہ پر قالین بافی کر رہے ہیں“ ۔ کمیونزم کا خطرہ حقیقی تھا۔ ایران اور سوویت کے بارڈر پر سوویت یونین نے ایک فارسی زبان کا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ نشریات میں شاہ پر تنقید ہوتی، انہیں سرد جنگ کا مجرم اور کچرے کا ڈھیر جیسے نام دیے جاتے۔ امریکیوں نے شاہ کو کہہ دیا کہ کمیونزم کا خطرہ سوویت یونین سے اتنا نہیں جتنا ملک کے اندر سے ہے۔

ایران کی معاشی بے چینی کے مسئلے نے شاہ کی اولین ترجیح کو اور ابھارا اور جسے وہ جلد از جلد حل کرنا چاہتے تھے۔ سلطنت کے وارث کا مسئلہ۔ ان کی ابتدائی ترجیح یورپ کی کسی شہزادی کا انتخاب تھی۔ ایسی شہزادی جو پہلوی شاہی خاندان کے لیے جائز وارث پیدا کرسکے۔ لیکن وہ جلد ہی مشکل میں پڑ گئے۔ شاہ کی دلچسپی انگلینڈ کی ملکہ کی کزن شہزادی الیکسنڈرا میں تھی جسے ونڈسر نے رد کر دیا۔ شاہ کا دوسرا انتخاب جو ان کا پسندیدہ بھی تھا شہزادی ماریا گبریلا تھی جو اٹلی کے معزول کیتھولک بادشاہ اومبرٹو کی بیٹی تھی۔ وٹیکن اور ایرانی علما کی جانب سے شدید مخالفت ہوئی۔ ایران کے بارسوخ لیڈر گرانڈ آیت اللہ بورجیردی نے پیغام بھجوایا ”امید ہے یہ ایک بے بنیاد افواہ ہوگی لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ بات واضح کردوں کہ اعلی حضرت ایک شیعہ ملک کے بادشاہ ہیں اور انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“ دوسرا پیغام اور بھی سخت تھا ”اگر اعلی حضرت ایسا کریں گے تو اپنا اقتدار خطرے میں ڈال دیں گے۔ ہم اس پر خاموش نہیں رہ سکتے۔“

شہزادی الیکسنڈرا

1959 کے موسم بہار میں شاہ فرانس کے سرکاری دورے پر گئے۔ ان کے اعزاز میں ایک تقریب ہوئی جس میں پیرس میں مقیم ایرانی طالب علم بھی شریک ہوئے۔ ایسے وقت میں جب شاہ کی والدہ اور بہنیں ان کہ شادی کے لیے مناسب امیدوار کی تلاش میں تھیں تو وہاں موجود لڑکیاں اپنا اچھا تاثر دینے کی کوشش میں تھیں۔ ان میں فرح دیبا بھی تھی لیکن ہجوم سے ذرا ہٹ کر۔ جب فرح کو شاہ سے متعارف کرایا گیا تو شاہ فرح کی تعلیم کا میدان جان کر حیران ہوئے۔ اس زمانے میں زیادہ لڑکیاں تعمیرات کے شعبے کی طرف نہیں آتی تھیں۔ اسی شب فرح نے اپنی والدہ کو شاہ سے اپنی ملاقات کے بارے میں خط لکھا اور شاہ کی اداس آنکھوں کا بطور خاص ذکر کیا۔ کس کو علم تھا کہ سال کے آخر میں فرح دیبا شاہ کی دلہن بن جائیں گی۔

فارسی زبان میں ’فرح‘ کا مطلب ہے خوشی۔ سہراب اور فریدہ دیبا کے لیے فرح سچ مچ خوشی اور فرحت کا باعث تھی۔ 14 اکتوبر 1938 کو امریکن مشنری اسپتال میں فرح متولد ہوئی۔ فرح کو بچپن ہی سے یہ احساس تھا کہ وہ کسی غیر معمولی کام کے لیے منتخب ہوئی ہیں۔

سہراب دیبا کے اجداد قاجار سلطنت کی فوج میں شاہی دربار سے وابستہ رہے۔ ان کا شجرہ نسب پیغمبر اسلام سے ملتا تھا اور وہ خود کو سید کہلاتے تھے۔ ان کا ارادہ بھی فوج میں جانے کا ہی تھا۔ وہ روس کے سینٹ پیٹرزبرگ میں کیڈٹ تھے جب وہاں انقلاب آیا۔ سہراب دیبا وہاں سے فرار ہو کر فرانس چلے گئے اور وہاں کی ایک ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ پھر قانون پڑھا اور ڈگری لے کر واپس ایران آئے اور تہران کی حسین ترین لڑکی فریدہ قطبی سے شادی کی۔ فریدہ کا تعلق گیلان کے ایک متمول گھرانے سے تھا۔

شہزادی ماریا گبریلا

سہراب اور فریدہ شادی کے بعد تہران میں ایک آرام دہ ویلا میں رہنے لگے۔ فریدہ کا بھائی اس کی بیوی اور بیٹا رضا بھی نزدیک ہی رہتے تھے۔ رضا فرح کا قریب ترین دوست بن گیا۔ جنگ اور اتحادیوں کے حملے کے دوران ایران کی ہونے والی ملکہ کا بچپن اور لڑکپن خوشگوار گزرا۔ موسم گرما دونوں خاندان اپنے دوستوں اور نوکروں کے ہمراہ کوہ البرز میں واقع شیمران میں گزارتے۔ وہاں وہ سب مل کر بہت مزے کرتے۔

فرح کو اپنے خاندانی پس منظر پر فخر تھا۔ ”میں اس پر زیادہ بات نہیں کرتی ہر شخص خود اہم ہوتا ہے یہ بات کہ وہ کس خانوادہ سے ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتیں ”میرے اجداد ترکیہ اور روس میں سفیر رہے۔ میرے دادا کو آرٹ کے فن پارے جمع کرنے کا شوق تھا اور میرے والد فرانس کی سینٹ سیر ملٹری اکیڈمی میں رہے اور انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔“

وہ صرف آٹھ سال کی تھیں جب ان کے والد بیمار ہو گئے۔ فرح کو اپنے والد سے بہت لگاؤ تھا۔ وہ دونوں فرنچ زبان میں باتیں کرتے۔ بیماری کی تشخیص پہلے ہیپاٹیئٹس تھی بعد میں پتہ چلا کہ پینکریٹک کینسر تھا۔ فرح کو یہی بتایا گیا کہ ان کے والد ٹھیک ہو رہے ہیں۔ پھر ایک دن وہ غائب ہو گئے اور فرح کو کہا گیا کہ ان کے والد اپنے علاج کی غرض سے فرانس گئے ہیں۔ لیکن فرح نے محسوس کر لیا تھا کہ اس سے کچھ چھپایا جا رہا ہے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ”اداسی نے مجھے گھیر لیا تھا۔ میرے اندر ایک خلا تھا اور ایک ختم نہ ہونے والا انتظار۔ ناقابل برداشت صدمہ ہوا اور میں آنسو بھی نہ بہا سکی“۔

سہراب اور فریدہ اپنی بیٹی فرح دیبا کے ساتھ

فرح کو والد کی وفات کا اس وقت علم ہوا جب وہ اپنی اٹھارہویں سالگرہ پر پیرس گیں۔ اس بات نے فرح کو عمر سے پہلے سنجیدہ اور ذمہ دار بنا دیا۔ وہ اپنی تعلیم پر خاص توجہ دینے لگیں۔ تہران کے جین آرک اسکول سے ٹاپ کر کے گریجویشن کی جہاں فرنچ پر زور تھا۔ اسکول کی باسکٹ بال ٹیم کیپٹن تھیں اور ویمن اتھلیٹک میں دو میڈل جیتے۔ اخبار میں ان کی تصویریں چھپیں اور وہ مشہور ہو گئیں۔ بچے انہیں پہچان کر اپنے والدین سے کہتے ”وہ دیکھیں فرح“ ۔ وہ گرل گائیڈ بھی تھیں۔ 1956 میں اپنی دوست ایلی انٹونیا داس کے ساتھ فرانس کے ٹرپ پر گئیں۔ اپنے والد کی طرح فرح کو بھی فرانس کے آرٹ اور ثقافت سے لگاؤ پیدا ہو گیا۔

مذہب کا ان کی زندگی میں کچھ خاص دخل نہیں تھا۔ والدہ فریدہ دیبا نے اس زمانے کی اپر مڈل کلاس خواتین کی طرح کبھی چادر یا حجاب نہیں لیا اور نہ ہی اپنی بیٹی کو پہنایا۔ فرح نے کبھی رمضان کے روزے نہیں رکھے۔ قرآن پڑھنا سیکھ لیا لیکن سمجھے بغیر۔ بلوغت کی عمر میں پیش آیا ایک واقعہ انہیں یاد ہے جب ایک ملا نے انہیں بال نہ ڈھانپنے پر غصہ سے سرزنش کی۔ اس لمحے سے فرح نے مذہب کو غصے اور عدم برداشت کی نسبت سے جانا۔ ارینج میریج کا فرح کے نزدیک کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فرح کو اپنا کریئر بنانے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ ان کا رجحان تعمیرات کی طرف تھا۔ آرکیٹکچر کو وہ تخلیق سمجھتی تھیں اور اسی سے دلچسپی تھی۔ وہ اپنی والدہ کی شکرگزار تھیں جنہوں نے اپنی اکلوتی اولاد کو روایات کے برخلاف اعلی تعلیم دلائی اور یورپ سفر کرنے کی اجازت بھی دی۔

1957 کے موسم خزاں میں فرح نے پیرس کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں وہ آرکیٹکچر کی تعلیم حاصل کرنا چاہ رہی تھیں۔ فرح کا پہلا سال اداسی میں گزرا۔ انہیں گھر یاد آ رہا تھا اور انہیں ساتھی طالب علموں کا رویہ بھی کسی حد تک نامناسب لگا۔

فرح دیبا کی نوجوانی

پچاس کی دہائی میں پیرس پناہ گیروں اور جلاوطنوں کے لیے ایک مقناطیس تھا۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں آنے لگے۔ یورپ کے استعمار اور خاص طور پر فرانس کا الجزائر میں ملٹری ایکشن کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے۔ کئی انٹیلی جنس ایجنسیاں مظاہرہ کرنے والوں پر نظر رکھے پوئی تھیں ان میں سوویت یونین بھی تھا۔ بحیثیت ایک واحد ایرانی خاتون کے جو ان مظاہروں میں حصہ لے رہی تھی فرح جلد ہی کے جی بی کے ایک ایجنٹ کی نظروں میں آ گئی۔ فرح الجزائر کے حق میں ایک ریلی میں شریک ہوئی صرف اس وجہ سے ان کے ساتھیوں نے ان پر طنز کیا کہ وہ ڈرتی ہیں۔ فرح کے بارے میں کمیونسٹ ہونے کا شبہ رہا لیکن وہ بادشاہت پسند تھیں ان کی پرورش بھی ایسی ہی ہوئی تھی۔ پھر بھی ان کے بارے میں دبی دبی افواہیں اڑتیں کہ فرح کی ہمدردیاں مارکسٹس کے ساتھ ہیں۔

فرح کی ایک ہم جماعت نے بتایا کہ فرح بہت محنتی تھیں اور اپنی کلاس سے کبھی غیر حاضر نہیں ہوتی تھیں۔ جہانگیر تفضلی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی تھے۔ اب جبکہ ایران نئی ملکہ کی تلاش میں ہے تفضلی نے بھی چاہا کہ فرح کو شاہ کی توجہ ملے۔

شاہ کے اعزاز میں ایک اور تقریب ہوئی جس میں پیرس میں مقیم طالب علم بھی شریک ہوئے۔ شاہ کی والدہ اور بہنیں ان کی شادی کے لیے مناسب امیدوار کی تلاش میں تھیں۔

1959 کے موسم گرما میں فرح واپس ایران آئیں۔ ان کی جمع پونجی اب ختم ہو رہی تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ انہیں ایک سال کا اور اسکالرشپ مل جائے۔ اسکالرشپ کی منظوری دینے والے افسر اردشیر زاہدی تھے جو شاہ کے داماد بھی تھے۔ زاہدی فرح کے چچا اسفندیار دیبا کے دوست تھے۔ اسفندیار دیبا نے زاہدی سے درخواست کی اگر وہ ان کی بھتیجی کی مدد کر سکیں اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی دیا کہ ان کی بھتیجی میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو اعلی حضرت اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ زاہدی کی بیوی شاہناز پردے کے پیچھے چھپی یہ گفتگو سن رہی تھی۔ زاہدی نے فرح سے ملاقات کی بات مان لی اور اگلے ہی دن اپنی اور اپنی بیوی کی جانب سے فرح کو چائے پر مدعو کر لیا۔ زاہدی اور شاہناز کا گھر ایک خوبصورت مقام پر تھا اور وہاں سے تہران کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ خوشگوار ماحول میں باتیں جاری تھیں کہ ایک کار باہر آ کر رکی۔ فرح نے حیرت اور خوشی سے دیکھا کہ آنے والا شخص ملک کا شاہ ہے۔ ”اوہ خدا۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا“۔

فرح دیبا سے منگنی

شاہ اپنی باقی دن کی مصروفیات کینسل کر آئے تھے اور چائے سے لے کر رات کے کھانے تک رکے رہے۔ کئی سال بعد شاہ نے اس شام کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”فرح ذہین اور خوش مزاج تھیں۔ جیسے وہ دوسروں اور مجھ سے بات کر رہی تھیں اس نے مجھے مرعوب کیا۔ فرانسیسی زبان پر ان کی کامل دسترس تھی۔ مجھے لگا کہ یہی وہ خاتون ہیں جن کی مجھے عرصے سے تلاش تھی۔ وہ میرے ملک کے لیے بھی ایک اچھی ملکہ ثابت ہوں گی“ ۔ فرح سید گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور شاہ کی فرح سے شادی کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ ایک حیثیت سے اہل سادات کے داماد ہو جاتے اور مذہبی حلقے میں شاید ان کے بگڑے تعلقات بھی بہتر ہو جاتے۔ ثریا سے ان کی شادی سے کافی نقصانات ہوئے۔ خاندان میں دراڑ پڑی۔ بیٹی ناراض ہوئی۔ وہ ایسی غلطی دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ ”میں نے اپنی بیٹی سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ میں ایک اچھا باپ ثابت نہ ہوا۔ اس بار میری خواہش تھی کہ اپنی بیٹی کی مرضی اور پسند سے شادی کروں“ ۔

اس ملاقات کے بعد فرح اور شاہ کی اور کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ڈنر کیا۔ ساتھ چہل قدمی کی۔ شاہ کی اسپورٹ کار میں شہر میں گھومے اور شاہ کے چھوٹے طیارے میں پرواز بھی کی۔ شادی کے امکانات پر باتیں ہونے لگیں۔ مادر ملکہ تاج الملوک کو اعتراض تھا کہ اردشیر زاہدی کے وساطت سے یہ بات چل رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ کیا فرح پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ سابق وزیراعظم مصدق کی رشتے دار تھیں۔ لیکن زاہدی نے یقین دلایا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ خود بھی مصدق کے دور کے رشتے دار تھے۔ خود فرح کی والدہ کو ہچکچاہٹ تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ راستہ پھولوں کی سیج نہیں۔ فرح نے شاہ کا پروپوزل مان لیا۔ کئی سال بعد فرح نے کہا ”شاہ ایک ایسا کردار تھے جن کی میں اور میری دوست تعظیم کرتی آئی ہیں۔ ہم سب ان کے سحر میں مبتلا تھیں۔ لیکن میرے دل میں ان کی خاص جگہ تھی۔ جب انہوں نے شادی کا کہا تو میں کیسے انکار کر سکتی تھی، وہ میرے شاہ تھے“ ۔ منگنی کی بات کی جا رہی تھی فرح واپس پیرس گئیں۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنے کے لیے۔ پیرس کے اورلی ایرپورٹ پر صحافیوں اور فوٹو گرافروں نے انہیں گھیر لیا۔

فرح دیبا سے شادی

23 نومبر 1959 کو شاہ نے اپنی اکیس سالہ منگیتر کو منگنی کی انگوٹھی پہنا دی جو سورج کی طرح چمکدار تھی۔ اس کے ساتھ ایک بکس میں ہیرے، زمرد اور روبی سے بنا زیور کا پورا سیٹ یعنی گلے کا ہار، بندے، برسلیٹ اور انگوٹھی بھی۔

شاہ نے فرح پر واضح کر دیا تھا کہ انہیں سلطنت کے امور میں عملی دلچسپی رکھنی ہو گی۔ وہ اپنی غلطی دہرانا نہیں چاہتے تھے جو وہ فوزیہ اور ثریا کے معاملے میں کر چکے تھے۔ انہوں نے امیر پور شجاع کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ فرح کی مدد کریں اور انہیں دربار اور رسمی اجتماعات کے آداب سکھائیں۔
21 دسمبر 1959 کو شاہ اور فرح کی شادی ہوئی۔ فرح کا عروسی گاؤن ’ڈیور‘ نے ڈیزائن کیا۔ جس پر قیمتی موتی ٹنگے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ سر پر ایک ہیروں کا ’ٹیارا‘ بھی۔ فرح کی خواہشات کا احترام کرے ہوئے شاہ نے قربانی کے جانور ذبح نہ کرنے کا حکم دیا وہ خود بھی خون بہانے کے خلاف تھے۔ رسومات شروع ہونے والی تھیں کہ دلہن پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ ان کے پاس شاہ کو پہنانے کے لیے انگوٹھی نہیں تھی۔ اردشیر زاہدی نے اپنی انگوٹھی اتار کر فرح کو دی۔
جوان ملکہ سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ تخت کا وارث دے گی اور مزید اولاد بھی۔ فرح امید سے ہو گیں۔ ان کے اختیارات محدود تھے اور محل کا دباؤ الگ تھا۔ انہیں ہر طرف سے یہی دعا دی جا رہی تھی ”خدا آپ کو اولاد نرینہ عطا کرے“ ۔ فرح نے سب کی توقعات پوری کیں اور 31 اکتوبر 1960 میں ولی عہد شہزادہ رضا کی پیدائش ہوئی۔ جب فرح کو بتایا گیا کہ بیٹا ہوا ہے وہ خوشی سے رو پڑیں ”اوہ خدا اگر میری بیٹی ہوتی تو کیا ہوتا؟ سب کتنے ناامید ہوتے“۔ تہران کی سڑکوں پر لوگ والہانہ انداز میں رقص کر رہے تھے اور جب شاہ کی کار اسپتال سے نکلی تو اس پر پھول برسائے۔
اپریل 1962 میں پہلوی جوڑے نے امریکہ کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کھنچاؤ تھا۔ امریکی صدر جان کینیڈی کا خیال تھا کہ شاہ اپنے ملک میں ریفارم لانے کی پوری کوشش نہیں کر رہے اور ان کے ملک کو کمیونزم سے خطرہ ہے۔ کینیڈی کو ایک ذاتی پرخاش بھی تھی۔ اردشیر زاہدی کے حوالے سے جو اس وقت امریکہ میں ایران کے سفیر تھے، زاہدی نے 1960 کے صدارتی انتخاب میں نکسن کو سپورٹ کیا اور پیسہ لگایا۔ شاہ کو بھی امریکہ سے شکایات تھیں کہ ان کی کوششوں کو سراہا نہیں جاتا اور ہمیشہ ان پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ کینیڈی نے شاہ پر واضح کر دیا کہ انہیں امریکی مدد نہیں ملے گی اگر انہوں نے اپنا وزیراعظم تبدیل نہیں کیا اور اس کے لیے علی امینی کا نام تجویز کیا جو قاجار سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

شاہ کٹھ پتلی بن کر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے علی امینی سے کہا ”میں یا حکومت کروں گا یا چھوڑ دوں گا“۔ علی امینی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ امریکہ کے اس رویہ سے نیشنل فرنٹ کے محمد مصدق کو شہ ملی۔ وہ ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ وہ مذہبی علما کو بھی ساتھ رکھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ مذہب اور سیاست کو الگ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں مہدی بازرگان ایک پارٹی کے سربراہ بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے بھی امریکہ کی پالیسی سے اتفاق کیا اور شاہ کو اقتدار سے محروم کرنے کا مطالبہ کیا۔
شاہ اور شاہ بانو واشنگٹن پہنچے۔ فرح کا کہنا تھا کہ ”یہ موسم بہار کو منانے کا ایک ذریعہ تھا جس کے ہم اہل تھے“۔ امریکی عوام ایک عرصے سے شاہ کی ڈرامائی زندگی کو دیکھتے آ رہے تھے۔ ثریا سے ان کی دل ٹوٹنے والی طلاق بھی انہیں یاد تھی۔ خواتین کے میگزین خبروں اور تصاویر سے بھرے رہتے۔ شاہ ایک رومانوی ہیرو بن گئے تھے۔
امریکی عوام اپنی خاتون اول جیکولین کینیڈی کی خوش لباسی کے متعرف تھے۔ وہ ہر مہمان کی بیگمات پر چھا جاتی تھیں۔ 12 اپریل کو شاہ کی لیموزین وائٹ ہاؤس میں آ کر رکی۔ شاہ اپنی متاثرکن یونیفارم پہنے ہوئے تھے اور ان ساتھ ملکہ فرح خوبصورت گاون میں جواہرات سے لدی ہوئی نکلیں۔ ہیرے اور زمرد کا ہار اور سر پر ہیروں کا بنا ٹیارا جس میں سات بڑے زمرد لگے تھے۔ شاہ نے اپنے طور پر کینیڈی کو جتایا کہ اصلی لقب وہ ہوتے ہیں جو آپ کو وراثت میں ملتے ہیں۔ فرح کی دھوم مچ گئی۔ ہر طرف ان کے لباس اور زیورات کی تعریف ہونے لگی۔ صرف ایک فرد نے اس کے خلاف بیان دیا اور وہ خود فرح تھیں ”مجھے جیکولین کا لباس زیادہ اچھا لگا۔ سادہ اور پروقار۔ مجھے ان کا اسٹائل بہت اچھا لگا“ ۔

شاہ ایران اور جان کینیڈی میں مذاکرات

شاہ نے نیویارک میں بیان دیا ”بادشاہ ہونے نے مجھے ذاتی طور پر کچھ نہیں دیا سوائے درد سر کے۔ اپنی حکومت کے پورے بیس سال میں دباؤ میں رہا ہوں“

ایک رپورٹر نے پوچھا ”آپ کی بیوی ملکہ کے طور پر کیا محسوس کرتی ہیں؟“
” ان کا کام بھی اہم ہے اس کے ساتھ ساتھ انہیں شوہر کو اولاد بھی دینی ہے“
فرح پہلی بار امریکہ آئی تھیں اور اس ملک کو دیکھنے کا بہت شوق بھی تھا۔ لیکن ان کی اچھی یادیں نہیں بن سکیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ایرانی طلبا کے مظاہرے دیکھنے کو ملتے جو شاہ اور ان کی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے۔ ان میں کمیونسٹ، سوشلسٹ اور لبرلز بھی تھے اور جمہوریت کا تقاضا کر رہے تھے۔ ان میں وہ طالب علم بھی تھے جو فرح کی طرح اسکالرشپ لے کر پڑھنے آئے تھے۔ فرح کو یہ سب دیکھ کر بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔ شاہ کے ساتھ وہ بھی نعروں کا نشانہ بنیں۔
شاہ کے اپنے مسائل تھے۔ اوول آفس میں کینیڈی سے بات چیت سیاسی اور معاشی ریفارم پر ہوئی۔ شاہ کا خیال تھا کہ معاشی ترقی کے ساتھ سیاسی ریفارمز نہیں ہو سکتیں۔ شاہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس وقت امریکہ کو خود اپنے کئی مسائل ہیں۔ کیوبا کا کرائسس، مغربی جرمنی اور جنوبی ویت نام۔ ایران میں کئی مہینوں کی سیاسی شورش کے بعد امریکی بھی یہ سمجھنے لگے تھے کہ ایران شاید جمہوریت کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکہ نے مزید دباؤ نہیں ڈالا۔
شاہ واشنگٹن سے پراعتماد لوٹے۔ اب وہ اپنی اصلاحات پر توجہ دیں گے اور اپنی طاقت کا تحفظ کریں گے۔ حزب اختلاف کے لیڈر اور مہدی بازرگان اس پر سخت برہم ہوئے کہ کینیڈی نے شاہ کو کھلی چھٹی دے دی۔ انہوں نے عہد کیا کہ اب وہ کبھی امریکہ پر اعتماد نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments