پاک امریکا تعلقات میں اعتماد برقرار رہے گا؟


وزیراعظم عمران خان کا تین روزہ سرکاری دورہ امریکہ ختم ہو چکا ہے۔ لیکن اس دورے کے بارے میں ملکی و غیر ملکی میڈیا میں خبریں، تبصرے اور تجزیے اب تک جاری ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ دورہ نہ صرف پاک امریکا تعلقات میں موجود حالیہ سرد مہری کے تناظر میں فیصلہ کن موڑ کا حامل ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کی تباہ ہوتی معیشیت اور داخلی عدم استحکام کے حوالے سے بھی اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس دورے سے پاک امریکا تعلقات میں موجود سرد مہری اور بے اعتمادی کی کیفیت ختم ہوتی ہے یا نہیں, اس پر عجلت میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل دونوں ممالک کے ماضی کے تعلقات کی تاریخ کو مدنظر رکھنا لازم ہے۔

ہمیں یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ”دوستی“ کی ابتدا پاکستان کی خواہش پر ہوئی تھی۔ امریکا سے دوستی کی خواہش میں ہی پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان روس کی طرف سے دورے کی دعوت نظر انداز کر کے واشنگٹن جا پہنچے تھے۔ اس وقت سے ماضی قریب تک دونوں ملکوں کی دوستی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ نباہ کی خواہش ہماری طرف سے یک طرفہ تھی۔ جبکہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کو نہ صرف اپنی پراکسی کے طور پر بھرپور استعمال کیا بلکہ مطلب نکلنے کے بعد بے توقیر کر کے پرے بھی دھکیل دیا۔

عمومی تصور یہ ہے کہ پاکستان کو امریکا بہت مالی مدد دیتا ہے اور پاکستان اسی رقم کے لالچ میں امریکا سے تعلقات بہتر رکھنے کا خواہش مند ہے۔ امریکا کی طرف سے پاکستان کو پچھلے ستر سالوں میں ملنے والی رقم کا سال بہ سال ریکارڈ دیکھا جائے تو حقیقت ازخود آشکار ہو جائے گی کہ اس معمولی رقم کے بدلے پاکستان نے کتنی گرانقدر قربانیاں دیں۔ جیسے ہی لیکن مطلب پورا ہوا وہ معمولی رقم آنا بھی بند ہو گئی۔ حالانکہ افغان جنگ میں پاکستان کی طرف سے فراہم کی گئی بہت سی سہولیات اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ہی امریکا کے ذمہ ایک بڑی رقم ہے۔

سلالہ چیک پوسٹ پر اتحادی افواج کے حملے کے ردعمل میں جب نیٹو سپلائی محدود وقت کے لیے روکی گئی تو ایک وسط ایشیائی ملک نے راہداری کے عوض فی کنٹینر سترہ سو ڈالر لیے تھے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بہت معمولی رقم کے عوض ہم نے یہ سالہا سال یہ خدمت فراہم کی اور اپنا تمام انفرا اسٹرکچر تباہ کرا لیا۔ چند ماہ قبل جو تھوڑی بہت معمولی رقم آ رہی تھی وہ بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز بیان کے بعد روک دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے اس وقت پاکستانیوں کو احمق اور جھوٹا تک قرار دیا، اور کہا پاکستان عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کو چھپائے ہوئے تھا لیکن امریکہ سے چھپاتا رہا۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا پاکستان امریکا سے اربوں ڈالرز ”وصولنے“ کے بعد بھی ٹکے کا کام نہیں کرتا بلکہ ڈبل گیم کھیلتا ہے۔

بلاشبہ امریکا ایک بڑی قوت ہے اور اس کے سربراہ کی زبان سے اب پاکستان کے لیے نیک کلمات نکلنا خوش آئند ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ٹرمپ کی سوچ میں تبدیلی محض اس کے مزاج کے لا ابالی پن کی وجہ سے نہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اگلے امریکا میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخاب سے قبل ٹرمپ ہر صورت اپنی افواج افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے۔ اپنی افواج نکالنے سے قبل مگر اس کی شدید خواہش ہے کہ کوئی ایسی فیس سیونگ مل جائے کہ دنیا اس انخلا کو واحد سپر پاور ریاست کی پسپائی نہ سمجھے۔

پوری دنیا کی طرح ٹرمپ کو بھی یقین ہے کہ ایسا کوئی حل پاکستان کے سوا کوئی اور ملک نہیں ڈھونڈ سکتا۔ عمران خان سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کا مہذبانہ انداز گفتگو اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پاکستان کو خوش کر کے اپنے مقصد کے لیے جان لڑانے پر تیار کرنے کی سوچی سمجھی چال تھی۔ باقی جہاں تک کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا معاملہ ہے۔ تو اس پیشکش سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہونے میں مدد ضرور ملی ہے مگر اس پر عملدرآمد کا موقع شاید کبھی نہیں آئے گا۔

کیونکہ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے خود ان سے مسئلہ کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی انڈیا میں بہت ہنگامہ ہے۔ خیال رہے کہ مودی نے حالیہ انتخاب میں کامیابی ہی خود کو ”چوکیدار“ باور کروا کر حاصل کی تھی۔ چونکہ بھارت کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین تصفیہ طلب معاملہ ہے۔ لہذا ٹرمپ کے بیان پر بھارت میں آنے والے شدید ردعمل کے بعد بھارتی حکومت اپنے عوام کو مطمئن رکھنے کے لیے مودی کی طرف سے ٹرمپ کو کی گئی ایسی کسی درخواست کی تردید کر رہی ہے۔

حالانکہ سفارتی ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں چل رہی ہیں کہ جون 2019 میں ٹرمپ اور مودی کی دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ایک ملاقات جی ٹونٹی ممالک کے اوساکا اجلاس میں ہوئی اور دوسری ملاقات میں جاپان کے وزیراعظم بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں میں مودی نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے لئے ٹرمپ کے کردار کا شکریہ ادا کیا اور ٹرمپ سے کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھی کردار ادا کریں۔ اگرچہ ٹرمپ نے اس پر آمادگی ظاہر کر دی تھی لیکن بھارت میں اس معاملے پر اب جو صورتحال ہے اس میں کشمیر پر کسی بات چیت کی دور دور تک امید نظر نہیں آتی۔

ان حالات میں صاف ظاہر ایک بار پھر امریکا پاکستان کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ لیکن پاکستان کو امریکا کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ لیکن پھر بھی لگتا نہیں کہ پاکستان طالبان کو امریکا کے من پسند کسی سمجھوتے پر قائل کر سکے گا۔ افغانستان میں جنگ بندی طالبان سے زیادہ امریکا کی ضرورت ہے۔ طالبان خود کو اس انیس سالہ جنگ کا فاتح تصور کرتے ہیں اور وہ مذاکرات میں اپنی شرائط سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔

طالبان افغان سر زمین سے غیر ملکی انخلا اور افغانستان کا سیاسی مستقبل انخلا کے بعد وہاں کے اسٹیک ہولڈرز کے ذریعے طے کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ جبکہ امریکا کو ان شرائط پر تحفظات ہیں۔ امریکا مکمل انخلا کے بجائے افغان فورسز کی ٹریننگ کے بہانے اپنی موجودگی افغانستان میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ نے افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر جنگ جیتنے کی دھمکی دے کر کسی سمجھوتے کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اب پاکستان اگر طالبان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو کچھ عرصہ واہ واہ ہو جائے گی۔ لیکن اگر بھرپور خلوص اور لگن کے باوجود پاکستان طالبان کو کسی سمجھوتے پر راضی کرنے میں ناکام رہا تو آنے والا وقت پہلے سے زیادہ تلخ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).