عید میں رنگ تو بچوں کی عیدی سے آتا ہے


’’ابو، بہت ساری عیدی چاہیے؛ بہت ساری‘‘۔
’کتنی بہت ساری‘‘؟
’’بہت ساری، ناں، ابو؛ بہت ساری‘‘۔
’’پچاس روپے‘‘؟
’’نہیں ناں، ابو‘‘۔ اُس نے ملتجی ہوتے اپنے ننھے بازوں کو پورے پھیلا کر کہا، ’’اتنی ساری‘‘۔
میری سات سالہ بیٹی ماہی مجھ سے عیدی کی طلب گار تھی، اور میں اُس سے دل لگی کر رہا تھا۔
’’اتنی ساری کا نام بھی تو لو؟ کتنے پیسے‘‘؟
’’ابو، پانچ سو‘‘۔
اُس نے آنکھیں مِیچ کے ’پانچ سو‘ پہ یوں زور دیا، جیسے غریب کروڑوں کی خواہش کرے۔ میں نے بٹوے کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو اُس نے تاکید کی، ’’ابو، بہت سارے نوٹ ہوں‘‘۔
دس، پچاس، سو کے نوٹ ملا کے ’’بہت ساری‘‘ رقم بنتی تھی، جسے پا کے وہ خوش ہوتی، اور بہن بھائی سے کَہ سکتی، ابو نے ’’بہت ساری‘‘ عیدی دی ہے؛ ’’اِتی زیادہ‘‘۔
عیدی وصول کر کے اُس نے فوراََ کہا، ’’ابو، چودہ اگست آ رہی ہے‘‘۔
’’اچھا؟ پھر‘‘؟
’’چودہ اگست کو بھی عیدی ہوتی ہے (ملتی ہے)‘‘؟
’’نہیں‘‘۔
’’تو پھر کیا ہوتا ہے، چودہ اگست کو‘‘؟
اُس کے پوچھنے کا مقصد تھا، کہ چودہ اگست کو عیدی نہیں دی جاتی، تو پھر کاہے کو خوش ہوا جائے۔

میرے چھوٹے ماموں جب بھانجوں، بھانجیوں، بھتیجیوں، بھتیجوں کو عید دیتے تھے، تو ترسا ترسا کے۔ یہ ممکن نہیں تھا، کہ وہ بچوں کو عیدی وصول پانے کے لیے نہ تڑپائیں۔ پہلے بچے منت کرتے رٹا لگاتے، ’’عیدی دے دیں، عیدی دے دیں‘‘۔ وہ زیرِ لب مسکرا کر کہتے، میرے پاس زہر کھانے کو پیسے نہیں ہیں، عیدی کہاں سے دوں؟ پھر جب وہ عیدی دینے کو تیار ہوتے، تو جیب سے اٹھنی چونی نکالتے، اور بچوں کی طرف بڑھا دیتے، کہ یہ لو تمھاری عیدی۔ بچہ اوں آں کرتے وہ اٹھنی چونی اُچکنے کی کوشش کرتا، کہ لے کے پھینک دی جائے، تو ماموں سکے کو ہتھیلی میں چھپا کے انگوٹھا آگے کر دیتے۔ بچے روٹھتے، منہ بسورتے، چھینا جھپٹی کرتے، تو وہ جھوٹ موٹ کا ڈانٹتے، جس کی بچوں کو چنداں پروا متی ہوتی۔ آخر میں بچوں کو عیدی مل کے رہتی۔ ہم بچوں کو کسی سے عید پانے کا سواد آتا، تو وہ چھوٹے ماموں ہی تھے۔ باقی سب تو خود سے عیدی تھما دیا کرتے تھے۔ بچوں کی عید اِنھی ماموں کی عیدی دینے سے مکمل ہوتی تھی۔ خدانخواستہ کسی عید، وہ بغیر زِچ کیے، ہمیں عیدی دے دیتے، تو شاید وہ عید ہمارے لیے پھیکی پڑ جاتی۔ صد شکر، ایسی کوئی عید نہیں گزری۔

یہ کیسے ممکن ہے، کہ بچوں کو عید نہ دی جائے، لیکن چھوٹے ماموں سے سیکھا ہے، بچوں کو عیدی دینے سے قبل اُن سے تھوڑی سی دِل لگی ہو جائے، تو بہ تر ہے۔ اتنی تو نہیں، جیسے ماموں کیا کرتے تھے، لیکن تھوڑی بہت ضرور۔ سوچ رکھا ہوتا ہے، کہ اس عید پہ بچوں کو کتنی عیدی دینی ہے، لیکن بچوں سے پوچھ کے اُس کی توقع کا اندازہ کرتا ہوں، کہ جو رقم وہ بتائیں، اُسے بہت زیادہ کَہ کے انکار کر دینا ہے، اتنی زیادہ عیدی تو نہیں ملے گی۔ دِل میں یہ ہو، کہ آخر میں اُن کی فرمایش پوری کی جائے۔

جب ہم بچے تھے، تو عید ہمارے لیے کیا ہوتی تھی؟ نئے کپڑے پہننا۔ عیدی اکٹھی کرنا، اور گھر میں سویاں، چنا چاٹ بنے ہونے کے با وجود، دُکانوں کے باہر سڑک کنارے لگی ریڑھی سے جا کے آلو چنے کی چاٹ کھانا، لاٹری کھیلنا۔ چھرے والی گن سے غبارے پھوڑنے کے لیے پیسے دینا، اور اکثر نشانہ چوک جانا۔ پلاسٹک کے سستے کھلونے خریدنا، اور بس، یہی کچھ عید تھی۔ بڑے ہوئے، کمانے لگے، تو عیدی وصول پانے کے بہ جائے، عیدی دینے والوں میں شمار ہونے لگے۔ لو جی، یہ کیا عید ہوئی! اسی لیے کہتے ہیں، عید بچوں کی ہوتی ہے۔

بچپن میں عید کی نماز پڑھنا، سب کو عید مبارک کہنا۔ آس پڑوس میں سویاں دینے جانا، اور جس کے گھر سویاں دینے جائیں، اُس کا سویاں لانے والے بچے کو عیدی دینا۔ ایسی عید پانے  کے لیے جی کرتا  ہے، پھر سے بچے بن جائیں۔ لیکن عیدی بانٹنے کا بھی اپنا لطف ہے، اگر چھوٹے ماموں کی طرح بچے سے کہا جائے، میرے پاس تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں، پھر پوچھنا، اچھا یہ بتاو، کتنی عیدی ٹھیک رہے گی؟ اُس کی بتائی گئی رقم سے کم کی پیش کش کرنا، اُس کا نہ ماننا۔ اپنے بچوں میں سے یہ کھیل صرف سات سالہ ماہی کے ساتھ کھیلا جا سکتا ہے۔ بڑے بچوں کا مزاج یہ ہے، کہ اُن سے کہا جائے، اس بار عیدی نہیں ملے گی، تو آگے سے وہ کہیں گے، ’’اچھا‘‘۔ اُن کے ایسے جواب سے ذرا سواد نہیں آتا، لہذا اُن سے ایسا کہنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ یہ سارا قصور میری اہلیہ کا ہے، جس نے اُن کی ایسی تربیت کی ہے، کہ وہ تابع فرمان بنے ہوئے ہیں۔ بھئی کیا فائدہ، ایسی رُوکھی سوکھی تربیت کا؟

سات سالہ ماہی نے پوچھا تھا، عید نہیں، تو کیا ہوتا ہے، چودہ اگست کو؟ اُس وقت تو میرے ذہن میں مناسب جواب نہیں آیا، لیکن اُس کے بعد سے میں ابھی تک یہ سوچ رہا تھا، کِہ چودہ اگست کو کیا ہونا چاہیے! جواب ذہن میں آ گیا ہے۔ اُسے کہوں گا، چودہ اگست کو بھی عید ہوتی ہے۔ وہ ڈانٹنے کے انداز میں کہے گی، ’’لائیں پھر عیدی نکالیں‘‘! میں پوچھوں گا، ’’کتنی عیدی‘‘؟ وہ کہے گی، ’’بہت ساری‘‘۔ میں کہوں گا، ’’پچاس روپے‘‘؟ وہ مچلتے ہوئے کہے گی، ’’نہیں، ابو بہت ساری، ناں‘‘۔ چوں کہ مجھے بہت ساری کا پتا نہیں کتنی ہوتی ہے۔ وہ ہر ممکن حد تک دونوں بازو پھیلا کے کہے گی، ’’ابو، اِتی ساری‘‘۔ میں پھر بھی سمجھنے سے انکار کر دوں گا۔ ’’گنتی میں بتاو، کتنی ساری‘‘؟ وہ چونکانے کے انداز میں آنکھیں پھیلائے گی، جیسے مجھے کوئی حیرت ناک خبر دینےوالی ہے۔ ’’ابو، پانچ سو‘‘۔ میں جیب کی طرف ہاتھ بڑھاوں گا، اُس کی آواز آئے گی، ’’ابو، بہت سارے نوٹ ہوں‘‘۔ میں نے پہلے سے دس دس پچاس پچاس کے نوٹ جمع کر رکے ہوں گے۔ اُسے گِن کے پانسو دوں گا۔ وہ تھوڑی دیر اُن نوٹوں کو مٹھی میں لیے، کھیلتی رہے گی۔ پھر میرے پاس آ کے کہے گی۔ ’’ابو، یہ پیسے آپ رکھ لیں، میں آپ سے بعد میں لے لوں گی‘‘۔ وہ کھیلتے کھیلتے سو جائے گی، میں اُس کی عیدی اُس کے گلک میں ڈال دوں گا۔ وہ جب سو کے اٹھے گی، تو کہے گی، ’’ابو، میری  پاکٹ منی نکالیں، جلدی سے‘‘۔ میں کہوں گا، میں نے عیدی تو دی تھی؟ وہ کہے گی، ’’ابو، وہ تو عید تھی ناں، میری پاکٹ منی بھی نکالیں‘‘۔

سوچا ہے، یہ چودہ اگست میں عید کی طرح گزاروں گا۔ کون کہتا ہے، عید صرف بچوں کی ہوتی ہے۔ جب چاہے بچوں کے ساتھ بچہ بن جائیں، عید ہو جاتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran