میں اس تقریب میں کیوں نہ گیا؟


بہت خیال بہت خواب سو گئے تھک کر خدا کرے! تری یادیں کہیں نہ سو جائیں اس وقت تخلیق اردو زبان کا واحد ادبی جریدہ ہے جو آٹھ سال پہلے اپنے بانی مدیر کی رحلت کے باوجود پوری آب و تاب اور تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، اس کا سارا کریڈٹ اظہر جاوید کے ہونہار فرزند سونان کو جاتا ہے، سونان کا ادب و فن کی جانب کوئی رحجان نہ تھا مگر باپ کی وفات کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ جس ادبی جریدے کی ان کے والد نے تنتالیس سال تک مسلسل آبیاری کی وہ اسے مرجھانے نہیں دے گا.
سونان نے جو سوچا وہ کر بھی دکھایا، سونان کی اپنی کاروباری مصروفیات بھی ہیں لیکن وہ 2012ء سے اپنے کاروبار سے زیادہ ،، تخلیق،، پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، لاہور ہمیشہ سے اردو ادب کا مرکز رہا ہے اور آج بھی اظہر جاوید کا بیٹا اس کی مرکزیت قائم رکھے ہوئے ہے، ماضی میں صہبا لکھنوی،، افکار نکالا کرتے تھے وزیر آغا،، اوراق،،، احمد ندیم قاسمی کے ،،، فنون،، کو کون نہیں جانتا، ،،، ادب لطیف،، جیسے جرائد بھی ادبی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے، مگر ان تمام کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ جب ان پرچوں کو نکالنے والے دنیا سے کوچ کر گئے تو یہ رسالے بھی بند ہو گئے۔
سونان ہر سال ’’تخلیق،، کے پلیٹ فارم پر ایک نہیں تین چار تقاریب منعقد کرتا ہے، ایک تقریب ،، تخلیق،، ایوارڈ کی بھی ہوتی ہے، وہ اب تک شفیع عقیل، انورسدید، بانو قدسیہ، نیرہ آپا، عذرا اصغر، حسن عسکری کاظمی اور سرفراز سید کو تخلیق ایوارڈز سے نواز چکا ہے، ایوارڈ تقاریب بہت شاندار انداز میں منعقد کی جاتی ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع کے بھی خاص انتظامات ہوتے ہیں، پچھلے ہفتے اس سلسلے کی آٹھویں تقریب تھی، ممتاز ادیبہ اور کالم نگار بشری رحمان کو اس با وقار اعزاز سے نوازا گیا، بے شک بشری رحمان کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
میں بھی اس تقریب میں مدعو تھا مگر محض اس وجہ سے وہاں نہ گیا کہ کہیں مجھے ان کے ساتھ نہ بیٹھنا پڑ جائے، مگر کیوں؟ میں نے بشری رحمان کی پذیرائی کے لئے منعقدہ تقریب میں شرکت سے کیوں گریز کیا؟ اس سوال کا جواب میں آگے چل کر پیش کرتا ہوں، پہلے کچھ باتیں، کچھ یادیں اظہر جاوید کی، بانی مدیر تخلیق سے میری پہلی ملاقات ستر کی دہائی میں مرحوم روزنامہ امروز کے آفس میں ہوئی تھی، میں وہاں عزیز اثری کے پاس جایا کرتا تھا جو وہاں بچوں کے ایڈیشن کے انچارج تھے اور بچوں کا تھیٹر بھی چلا رہے تھے۔
اظہر جاوید امروز کے رپورٹر تھے، ان دنوں میں وہ ،،تخلیق،، کی بنیاد بھی رکھ چکے تھے،انہوں نے مجھے مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس کے قریب اپنے دفتر آنے کی دعوت دی، میں ایک شام ان کے رسالے کے دفتر پہنچ گیا، وہ اس آفس کے مالک بھی خود تھے ، کلرک اور چپڑاسی کے فرائض بھی خود ہی انجام دیتے تھے، ہر آنے والے مہمان کو لازماًچائے پلانا ان کی عادت تھی، جب وہاں میرا آنا جانا زیادہ ہو گیا تو سب سے پہلی بات میں نے یہ نوٹ کیا کہ شہر کی کوئی خاتون لکھاری ایسی نہ تھی جو وہاں حاضری نہ دیتی ہو۔
کوئی شاعرہ ہو یا ادیبہ اس آفس کی کرسیاں شاید انہی کے لئے رکھی گئی تھیں، وجہ تھی صرف اظہر جاوید کا باکردار ، با اخلاق اور مہمان نواز ہونا ، ان ادب نواز خواتین کے نزدیک اظہر جاوید ایک سہیلی کی طرح دکھائی دیا کرتے تھے، پنا زریں بھی ان خواتین میں شامل ہوتیں، وہ بہت شستہ اردو بولتی ہیں،جب گفتگو کرتیں تو محسوس ہوتا جیسے کوئی داستان گو کہانی سنا رہا ہو، قتیل شفائی صاحب بھی اظہر جاوید کے بہترین دوستوں میں شامل تھے۔
وقت بڑے سکون سے گزر رہا تھا کہ اچانک 1977ء میں وطن عزیز پر ایک قہر ٹوٹا،جنرل ضیاء الحق نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کر دیا، یہ وہ عفریت تھا جس کے سائے آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں، ملک کے لئے عذاب کے دن شروع ہوگئے، بولنے اور لکھنے کی آزادیاں سلب کر لی گئیں، اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد کر دیا گیا، ملک بھر میں لاتعداد اخبار اور رسالے اس خدشے کے تحت بند کر دیے گئے کہ وہ جمہوریت کے حق میں آواز بلند کریں گے۔
جب حالات بہت بگڑ گئے تو لاہور کے جمہوریت نواز ادیبوں اور شاعروں نے ضیاء آمریت کے خلاف ایک قرارداد لکھی اور پھر اس قرار داد پر دستخط کرانے کی مہم کا آغاز ہوا، اس کار خیر میں مجھے بھی حصہ ڈالنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی، جن ادیبوں شاعروں نے سب سے پہلے اس قرارداد پر دستخط کئے ان میں اظہر جاوید کا نام نمایاں تھا، دستخطی مہم مکمل ہوئی تو اس دستاویز کو کسی نہ کسی طرح پبلک یعنی وائرل بھی کر دیا گیا، اس قرار داد پر جن صحافیوں نے دستخط کئے تھے ان میں سے زیادہ تعداد ان کی تھی جو سرکاری اخبار امروز اور پاکستان ٹائمز سے منسلک تھے، بعد ازاں ان تمام افراد کو ملازمتوں سے محروم کر دیا گیا، اظہر جاوید کے لئے ملازمت بہت اہم تھی مگر وہ یہ زخم ہنس کر سہہ گئے اور اپنی پوری توجہ ’’تخلیق،، پر مرکوز کر دی۔
میں چونکہ اس زمانے میں کسی بھی طرح کی گھریلو ذمہ داریوں سے مبرا تھا ، لہذا مارشل لاء مخالف سرگرمیوں میں فل ٹائم کردار ادا کرنا شروع کر دیا، سندھ اور پنجاب کی سات جیلوں کی یاترہ، پشت پر کوڑوں کے نشانات ، شاہی قلعہ اور لال قلعہ کی صعوبتوں نے مجھے سوسائٹی میں سر اٹھا کر جینے کے قابل بنا دیا، مجھے چاروں جانب اپنے چاہنے اور محبت کرنے والے ہی دکھائی دیا کرتے تھے، میں نے کبھی اپنے نظریاتی مخالفین کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، جو لوگ ،،ضیاء آمریت کے ساتھی تھے اگرچہ ان میں میرے کئی احباب بھی شامل ہو سکتے تھے‘ لیکن میں نے کبھی ان سے نفرت نہیں کی تھی۔
میں لوگوں سے تعلق اس بنیاد پر استوار نہیں کرتا تھا کہ کون مارشل لاء کا حامی ہے اور کون مخالف، مجھے ہر نظریہ کے لوگوں کے احترام کا سلیقہ آتا تھا اور آتا ہے، اب میں آتا ہوں اپنے کالم کے عنوان کی جانب کہ میں محترمہ بشری رحمان کو تخلیق ایوارڈ سے نوازنے کی تقریب میں جان بوجھ کر کیوں شریک نہ ہوا، ہوا یوں کہ ایک تقریب میں مجھے اور محترمہ بشری رحمان صاحبہ کو ایک ساتھ اسٹیج پر بیٹھنا تھا، پہلے وہ اپنی کرسی پر براجمان ہوئیں اور اس کے بعد مجھے بلوایا گیا، میں نے اسٹیج پر پہنچ کر انہیں جھک کر آداب کہا اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
میرے اپنے ساتھ بیٹھ جانے کے چند ہی لمحوں کے بعد محترمہ نے اس تقریب کے منتظمین میں سے ایک کو اشارے سے اپنے پاس بلوایا، اگرچہ محترمہ نے انتہائی مدھم آواز میں سرگوشی کی، مگر میرے کانوں میں ان کے الفاظ سن لئے تھے، وہ تقریب کے منتظم سے کہہ رہی تھیں،،،،،، آپ نے مجھے کس قسم کے لوگوں کے ساتھ بٹھا دیا ہے؟
اظہر جاوید بنیادی طور پر محبتیں بانٹنے والے شخص تھے، محبت ہی ان کا دین تھا اور محبت ہی ایمان،وہ ایک باضمیر ادیب اور شاعر تھے، مرحوم نے ،،تخلیق،، کو کبھی غیر تخلیقی کاموں کے لئے استعمال نہ کیا، انہوں نے کبھی اپنی انا اور خودداری کا سودا نہ کیا، 2012ء میں انہیں صدارتی ایوارڈ تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جانے والا تھا، شاید وہ سرکار کی اس مہربانی سے بھی فیض یاب نہیں ہونا چاہتے تھے اور اسی لئے سنتیس دن پہلے ہی چودہ فروری کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ دل اپنا دشمن ہے یار دل سے کیا یارانہ ہو اس پاگل کے ساتھ بھلا اب کون یہاں دیوانہ ہو۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments