کرونا ریلیف پروگرام: پاک فوج کی بجائے ٹائیگر فورس


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انسداد کرونا وائرس کے لیے لاک ڈاؤن کا دوسرا ہفتہ ہے لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں معمولات زندگی اور تمام کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہیں لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ پانچ اپریل تک جاری رہے گا اگر کرونا وائرس کی روک تھام اور پھیلاؤ کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو اس کا دورانیہ بڑھنے کا بھی امکان ہے۔ اس صورتحال سے معاشرے کا ہر فرد متاثر ہوا ہے اور خاص طور پر غریب لوگ دیہاڑی دار طبقہ بہت زیادہ پریشان ہے وفاقی اورصوبائی حکومتیں ان کی مشکلات کو کم کرنے اور ریلیف دینے کے لیے کئی اقدامات کررہی ہیں تاکہ عوام کو اشیائے خوردنی اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کا حصول آسانی کے ساتھ ممکن ہوسکے اس کے لیے وفاقی حکومت کرونا ریلیف کے لئے ٹائیگر فورس بنا رہی ہے جس کے ذریعے لاک ڈاؤن اور کرفیوں کی صورت میں شہریوں کو ان کے گھروں میں کھانا پہنچایا جائے گا لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹائیگر فورس سیاسی مداخلت سے محفوظ رہ سکے گی اور وزیراعظم نے کرونا ریلیف کے لیے ٹائیگر فورس بنانے کے لیے ضروری آئینی اور قانونی تقاضے پورے کیے ہیں؟

جب کہ شہریوں کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے صوبائی حکومتیں بھی مختلف ریلیف پروگرام شروع کررہی ہیں یہ ایک اچھی بات ہے کہ حکومتی سطح پر عوام کی مدد کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تمام فلاحی ادارے اور معاشرے کے مخیر لوگ بھی مشکل کی اس گھڑی میں عوام کی مدد کرنے کے لیے حکومتی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔ حکومت ارباب اختیار کو اس چیز پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کہ ریلیف پیکج کی کارروائیوں میں شفافیت قائم رکھی جائے اور مستحقین کی مدد بلا امتیاز کی جائے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے شہریوں کو ریلیف دینے اور مدد کرنے کے پروگرام قابل تعریف ہیں اس میں صاف اور شفاف میکنیزم کے ذریعے سیاست سے سے بالا تر ہوکر کام ہونا چاہیے تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں گھروں کے اندر بند غریب لوگوں کو ان کی دہلیز پر مدد ملے۔

کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کے لیے محکمہ صحت، پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ پاکستان آرمی کے جوان بھی خدمات انجام دے رہے ہیں یہ لوگ کرونا وائرس کے خلاف پہلے ہی میدان میں سرگرم عمل ہیں اس لیے اگر کرونا ریلیف پروگرام کے لیے علیحدہ سے ٹائیگر فورس بنانے کی بجائے فوری طور پر ان اداروں خاص طور پر پاک فوج کو ذمہ داریاں دے دی جائیں تو یہ بہتر ہوتا اس سے نہ صرف ریلیف پروگرام بلاتاخیر شروع کیا جاسکتا تھا بلکہ اس سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے تھے اور اس میں شفافیت قائم رہتی۔

وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کرنے سے پہلے کہا تھا کہ ہم لاک ڈاؤن کی طرف نہیں جائیں گے کیونکہ اس سے دہاڑی دار مزدورطبقہ اور غریب لوگ بہت زیادہ پریشان ہوں گے ہمارے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں کہ ہم لوگوں کو راشن دے سکیں لاک ڈاؤن کے نتیجے میں کرونا سے کہیں زیادہ افراتفری پھیلنے کا اندیشہ ہے اس کے باوجودوفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو لاک ڈاؤن کرنے کا مشکل ناگزیر فیصلہ کرنا پڑا کرونا وائرس رواں سال جنوری میں چین کے اندر ظاہر ہوا تھاجو امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس جیسے ترقی یافتہ ملکوں سمیت دنیا کیدو سو کے قریب ممالک میں پھیل چکا ہے ایک اندازے کیمطابق اب تک دنیا بھر میں اڑتیس ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک رکتا نظر نہیں آرہا چین میں جہاں سب سے پہلے یہ موزی وبا ظاہر ہوئی تھی جہاں اب تک چار ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں چین نے بروقت موثع اقدامات کیے انھوں نے اس وبا پر بڑی حد تک قابو پالیا ہے جس سے وہاں اس وائرس کے متاثرین کی تعد اد بہت کم رہ گئی ہے جبکہ دیگر ممالک میں یہ تیزی سے پھیل رہا ہے اس موزی مرض سے اٹلی، اسپین اور فرانس سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تشویشناک بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین ابھی تک ایجاد نہیں ہوئی۔

اکثر ممالک نے بین الاقومی پروازوں پر پابندی ہے تعلیمی اداروں، سینما گھروں، میرج ہالز، کی بندش کے عام اجتماعات پر بھی پاپندیاں لگانے کے بعد حرمین شریف میں طواف، عمرہ کی ادائیگی اور نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد ہے سعودی عرب نے اکیس روز کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے تاکہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے لیکن تاحال یہ موزی وائرس رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ دنیا کی سٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں تجارتی، کاروباری اور سماجی سرگرمیاں محدود ہونے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کے نتیجے میں دہاڑی دار لوگوں کا روزگار متاثر اورطالبعلموں کا بہت زیادہ تعلیمی نقصان ہوگا اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ نقصانات ہوں گے جن کا ابھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ دنیا کو اس موزی کرونا وائرس سے نجات دے تاہم اس وقت یہاں ایک چیز کی اشد ضرورت ہے میڈیا کرونا کے حوالے سے خوف و ہراس اور سنسی خیزی پھیلانے سے احتراز کرے۔ اس موزی وائرس اور اس کے بارے میں افواہوں نے دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں عوام کے اندر عجیب وغریب خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ کرونا وائرس ایک عالمی وبا ہے اس سے بچاؤ کے لیے بھی ہمیں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم کے ذریعے اس نامراد وایرس سے نجات دے یہ کرونا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی سے ایک پیغام اور انتباہ ہے کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور وہی سپریم طاقت ہے ہر چیز اس کے اختیار میں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اب ہی سنبھل جائیں اپنے عمال کا جائزہ لیں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں آزمائش کی اس گھڑی میں عوام کو بڑے حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت، کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں، رفاعی اداروں اور مخیر لوگوں کو چاہیے کہ وہ دکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں آگے آئیں نام و نمود اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے غریب، بے سہارا لوگوں کی مددکریں اس کے لیے اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کو سامنے رکھا جائے کہ مدد اس طریقے سے کیجائے کہ کسی آدمی کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو ارشاد خداوندی ہے کہ مستحق لوگوں کی اس طرح مدد کرو کہ داہنے ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی مشکلات اور ضروریات کا خیال رکھے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران ریلیف پروگرام کو سیاسی کھیل نہ بنائیں غریب لوگوں کی مدد سیاست سے بالا تر ہوکر بلا امتیاز کی جائے۔

اس کے لیے ریلیف پروگرام سے مدد حاصل کرنے کا طریقہ کار آسان اور سہل ہونا چاہیے ایک اور اہم چیز ہے جسے حکومت کے علاوہ غریب لوگوں کی مدد کرنے واللی سماجی تنظیموں، رفاعی اداروں اور مخیر لوگوں کو سامنے رکھنی چاہیے کہ معاشرے میں غریب دیہاڑی دار مزدور طبقے کے علاوہ ایک سفید پوش لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی کے سامنے سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں رکھتے ہمیں ایسے لوگوں کی تلاش کرکے مدد کرنی چاہیے تاکہ ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کرونا وائرس سمیت تمام پریشانیوں آفتوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے یہ ہمارا قومی اور مذہبی فریضہ ہے کوشش کریں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی غریب، بیروزگار بھوک کا شکار نہ بن جائے اللہ پاک ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ پوری انسانیت کو اس عالمی موزی وبا سے نجات دے (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments