کیا خاکروب کورونا وائرس کا شکار نہیں ہو سکتے؟


پوری دُنیا کورونا وائر س سے بُری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے جڑے لوگ خوف کے عالم میں ہیں سرکاری دفاتر میں کم سے کم لوگوں کو بلایا جا رہا ہے اور ہر انسان نے دوسرے سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے لیکن ایسے میں ایک طبقہ آپ کو ان تمام احتیاط سے بالا تر ہو کر اپنے فرائض تندہی سے سر انجام دے رہے ہیں اور وہ طبقہ ہے خاکروب طبقہ ۔ سوشل میڈیا پر خاکروب طبقے کو ان دنوں میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر اور اپنے تئیں مشاہدہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس طبقے کو حکمرانوں نے اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔

آپ اندازہ کریں کہ کرونا سے بچاؤکے لئے پوری دُنیا ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خاکروب طبقے کو جیسے انسان ہی نہیں سمجھا جا رہا ۔ آپ اپنے علاقوں میں خود اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بیشتر خاکروب فیس ماسک اور دستانوں کے بغیر ہی اپنے فرائض سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔ نہ ہی اُن کے پاس ہاتھ دھونے کے لئے جگہ ہے اور صابن اور سینی تائزر کی سہولت میسر ہے ۔ ایسا کیوں ہے یہ ایک سوال ہے گو کہ حکومت کی طرف سے اعلان تو ہوا جو اخبارات میں شائع بھی ہوا کہ خاکروبوں کو حفاظتی ماسک اور دستانے حکومت کی طرف سے مہیا کئے جائیں گے لیکن اس پر تاحال عمل نہیں کیا گیا اور کہیں اگر یہ سہولیات دی گئیں تو وہ ناکافی ہیں ۔

2 اپریل 2020ء کو 24نیوز نے باقاعدہ طور پر کراچی کے سینٹری ورکروں کو اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں دکھایا گیا جس میں وہ اس بات کا برملا اظہار کر رہے تھے کہ اُن کو کسی قسم کے کوئی حفاظتی ماسک اور دستانے مہیا نہیں کئے گئے اور نہ ہی کام کے بعد اُن کے پاس ہاتھ دھونے کے لئے مناسب انتظامات ہے جبکہ مالی طور پر بھی اُن کی کوئی مدد نہیں کی جا رہی۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں وہ کورونا کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔

خاکروب ملک بھر میں موجود ہیں ۔ آپ بڑ ے چھوٹے شہروں ، ضلع، تحصیل کو دیکھیں یا گلی ،محلوں کا مشاہدہ کریں آپ کو خاکروب جنہیں ترقی یافتہ زبان میں سینٹری ورکر بھی کہا جاتا ہے ہر جگہ نظر آئیں گے ۔ کسی کی ذمہ داری جھاڑو دینے ، کسی کی کوڑا اُٹھانے ، کسی کی نالیاں اور گٹر صاف کرنے کی ہے اور یہ اپنا کام ہر جگہ پر مستعدی سے کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ اب میں دوبارہ اپنے سوال کی طرف آتا ہوں کہ انتظامیہ کیوں اُن کی صحت سے متعلق انتظامات نہیں کر رہی؟

اور اگر انتظامیہ نے اُنہیں یہ سہولیات فراہم کر دی ہیں تو اُنہیں پابند کیوں نہیں کر رہی کہ اُن کا استعمال کریں؟ خدانخواستہ اگر کوئی خاکروب کورونا کا شکار ہو جاتا ہے اور اس بیماری کو لے کر وہ اپنے گھر اورمحلے میں جاتا ہے تو پھر اس کا پھیلاؤ عین ممکن ہے کیونکہ خاکروبوں کے محلے میں حٖفظان صحت کے خاطر خواہ اقدامات بالکل نہیں ہیں۔ راقم کو پنجاب کے چار اضلاع ملتان، خانیوال، رحیم یار خان اور خانیوال میں اس طبقے کو منظم کرنے کے لئے کام کرنے کا تجربہ ہوا اور میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں دیگر محروم طبقات کی فہرست میں یہ طبقہ بھی شامل ہے۔ اس لئے اس صورتحال میں خاکروبوں کی صحت کو یقینی نہ بنانا نہ صرف ان کے ساتھ بلکہ ان کے پورے محلوں اور پورے معاشرے کے لئے سنگین نتائج کا سبب ہو سکتا ہے ۔ میرا ہر گز مقصد عوام کو خوفزہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ نشاندہی ہے کہ اس طبقے کو فوری طور پر کورونا سے بچاؤ کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔

تادم تحریر ملک بھر میں کورونا کے متاثرین کی تعداد 2400 سے تجاوز کر چکی ہے اورملک بھر میں کورونا کے متاثرین کی تعداد روز بروز میں اضافہ ہورہا ہے جس میں پنجاب سر فہرست ہے جبکہ دنیا میں کورونا کے متاثرین دس لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 53000 سے زیادہ ہے ۔ ایسے میں اس طبقے کو نظر انداز کردینا کس کی غفلت کہیں۔ مجھے ادراک ہے کہ شاید غریب ملک ہوتے ہوئے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ بڑے پیمانے پر تمام شہریوں کو سہولیات فراہم کرسکیں لیکن خاکروب طبقہ تو آپ کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ ہر تحصیل ، ضلع ، ٹاؤن اور میٹرو پولیٹن میں یہ رجسٹرڈ ہیں اور انتظامیہ کے پاس ان کا ریکارڈ ہے تو پھر ان کے لئے حٖٖفاظتی اقدامات کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیوں انہیں جان بوجھ کر موت کے مُنہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ خاکروب یونینوں کا بھی اہم کردار بنتا ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر خاکروبوں کو حفاظتی انتظامات مہیا کئے جانے سے متعلق انتظامیہ سے مطالبہ کریں ۔ یاد رہے کہ یہ کسی ایک فرد یا طبقے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پورا معاشرہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ آپ اپنی یونین کی سیاست ضرور کرتے رہیئے لیکن فوری طور پر اس مسئلے پر نظر ڈالیں اور اپنے طبقے کو بچانے کے لئے تگ و دو کریں۔

حکومت وقت سے پُرزوراپیل ہے کہ وہ اس مسئلے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور اس طبقے کے لئے حفاظتی اقدامات کریں۔ یاد رہے کہ خاکروبوں میں مسلم غیر مسلم بلاامتیاز کام کررہے ہیں اس لئے ان کے لئے سہولیات بھی یکساں ہونی چاہئیں ۔ مجھے یہ فقرہ بوجھل دل کے ساتھ اس لئے لکھنا پڑا کیونکہ میڈیا کے مطابق سیلانی ٹرسٹ نے کراچی میں غیر مسلموں جن میں ہندو اور مسیحی شامل تھے راشن دینے سے انکار کر دیا۔ یہ خبر مجھ سمیت ہر اُس ذی شعور کے لئے دُکھ کی بات تھی کہ کم از کم اس کو ہی مدِنظر رکھا جائے کہ کورونا محض کسی ایک مذہب کے لوگوں کو متاثر نہیں کررہا اس میں تمام مذاہب کے لوگ بُری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ ایسے میں ہر شخص کو مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہر انسان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔

میں حکومت وقت سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اس طبقے کو محفوظ بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچانے کی کوشش کریں ۔ خاکروبوں کی بستیوں ، محلوں کو کورونا سے بچانے کے لئے ضروری اقدامات کریں ۔ لوگوں کو شعور ی بیداری دیں اور اُنہیں صحت و صفائی سے متعلق بتائیں اور اُنہیں پابند کریں کہ وہ اس پر سختی سے عمل کریں۔ روزانہ کی بنیاد پر میونسپل کارپوریشنوں کے اہلکاروں سے رپورٹ طلب کریں اور اس پر zero tolerance رویہ اپنائیں۔ خدا ہمیں جلد اس وبا سے چھٹکارا دلا دے اور دُنیا اس کی ویکسین جلد بنا لے تاکہ دُنیا کا ہر انسان اس سے محفوظ ہو جائے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments